حواس باختگی
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=19082
عصمت و حیاء کے پیکر حضرت یوسفؑ نے ایک لمحہ کے لئے بھی زلیخا کی حوصلہ افزائی نہ کی، بلکہ اسے بے قراری کی حالت میں چھوڑ کر کمرے سے باہر جانے لگے، زلیخا نے انہیں روکنا چاہا۔ اس کھینچا تانی میں آپ کی قمیض پھٹ گئی۔ دروازہ کھلا تو عزیز مصر کی بیوی کا چچازاد بھائی سامنے کھڑا تھا۔ زلیخا نے مکر سے کام لیا اور حضرت یوسفؑ پر الزام لگایا کہ اس نے مجھے بے عزت کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ شخص ذہین، فطین، ہوشیار اور معاملہ فہم تھا۔ اس نے کہا یوسفؑ کا پیراہن دیکھنا چاہئے اگر سامنے سے پھٹا ہوا ہے تو زلیخا سچ بولتی ہے اگر پیچھے سے چاک ہے تو یوسفؑ بے گناہ ہیں۔ محل میں موجود لوگوں نے دیکھا کہ پیراہن پیچھے سے چاک تھا۔ عزیز مصر کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے معاملہ رفع دفع کر دیا۔ لیکن کسی نہ کسی طرح یہ بات پورے خاندان میں پھیل گئی۔ اُمراء و روساء کی بیگمات نے زلیخا کو طعن و تشنیع کی اور اس سے کہا تو کیسی عورت ہے کہ عزیز مصر کی بیوی ہو کر ایک ملازم پر عاشق ہو گئی۔ زلیخا نے ایک دعوت کا اہتمام کیا۔ تواضع کے لئے پھل رکھے گئے۔ مہمانوں نے چھری سے پھل کاٹنے چاہے تو عین اسی وقت حضرت یوسفؑ کو قریب سے گزارا گیا۔ حسن و جمال کے مجسمہ اور مردانہ وجاہت کے پیکر حضرت یوسفؑ پر جب عورتوں کی نگاہ پڑی تو وہ حواس باختہ ہو گئیں اور انہوں نے پھلوں کے ساتھ اپنی انگلیاں کاٹ لیں۔
’’عزیز مصر کی بیوی نے کہا! یہ ہے وہ شخص، جس کے بارے میں تم مجھے برا کہتی تھیں۔ بے شک میں نے اسے اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی تھی مگر یہ بچ نکلا اگر اب بھی میرا کہنا نہیں مانے گا تو قید کر دیا جائے گا اور بہت ذلیل ہو گا۔‘‘
(سورۃ یوسف۔ ۳۲)
زلیخا کی طرف سے برائی کی ترغیب اور بات پوری نہ ہونے کی صورت میں قید کرا دینے کی دھمکی سن کر حضرت یوسفؑ نے اللہ رب العزت کو مدد کے لئے پکارا۔
’’اے میرے رب! قید مجھے منظور ہے بہ نسبت اس کے وہ کام کروں جو یہ لوگ مجھ سے چاہتے ہیں اور اگر تو نے ان کی چالوں کو مجھ سے دفع نہ کیا تو میں ان کے دام میں پھنس جاؤں گا اور جاہلوں میں شامل ہو جاؤں گا۔‘‘
(سورۃ یوسف۔۳۳)
پہلے صرف زلیخا ہی آپ پر عاشق تھی۔ اس واقعہ کے بعد طبقہ روساء کی اکثر عورتیں آپ کے حسن و دلکشی پر فریفتہ ہو گئیں۔ حضرت یوسفؑ راست روی اور عفت و عصمت قائم رکھنے کے لئے کڑے امتحان سے گزر رہے تھے۔ بالآخر طرح طرح کے الزامات لگا کر آپ کو پابند سلاسل کرا دیا گیا (اس وقت حضرت یوسفؑ کی عمر بیس یا اکیس برس تھی)۔ حضرت یوسفؑ کی نیکو کاری اور پاکیزہ سیرت کے چرچے پہلے ہی جیل خانہ میں پہنچ چکے تھے۔ آپ کے اخلاق، پرہیز گاری اور نیک اعمال کے سبب قیدی اور حکام آپ کا احترام کرتے تھے۔
حضرت یوسفؑ سات برس جیل میں رہے۔ قید کے دوران آپ قیدیوں کو وحدانیت کی راہ اختیار کرنے کی دعوت دیتے تھے۔ نیک عمل کی تلقین اور برائیوں سے بچنے کی نصیحت کرتے تھے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 183 تا 184
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔