حضرت لوط علیہ السلام
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=18990
حضرت لوط علیہ السلام کے والد حاران کم سنی میں عالم ناسوت سے عالم اعراف میں منتقل ہو گئے تھے۔ حضرت لوطؑ حضرت ابراہیمؑ کے بھتیجے تھے، حضرت ابراہیمؑ نے حضرت لوطؑ کو بیٹا بنا کر پالا پوسا تھا۔
حضرت لوطؑ کی جائے پیدائش عراق کا قدیم شہر ’’اور‘‘ ہے۔ یہی شہر حضرت ابراہیمؑ کا مسکن بھی تھا۔ حضرت لوطؑ مصر میں نبوت سے سرفراز ہوئے، حضرت لوطؑ کا رنگ سنہرا اور قد درمیانہ تھا، آنکھیں سیاہ اور بڑی تھیں، پیشہ زراعت اور کاشتکاری تھا۔
حضرت لوطؑ کے بہت سے معجزات ہیں آپ جس وقت بارش کے لئے دعا کرتے تھے تو آسمان بادلوں سے بھر جاتا تھا اور خوب بارش ہوتی تھی۔ حضرت لوطؑ جس پتھر پر سر رکھ کر سوتے تھے اس پتھر پر آپ کے سر مبارک کا نشان بن جاتا تھا۔ حضرت ابراہیمؑ پر سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں حضرت سارہؑ اور حضرت لوطؑ ہیں۔
شرق اردن اور فلسطین کے درمیان بحر مردار کے کنارے جنوبی حصے میں سبز و شاداب وادیاں تھیں۔ یہ علاقہ ’’سدوم‘‘ اور ’’عمورہ‘‘ کے نام سے مشہو رتھے۔ پانی کی فراوانی اور زمین زرخیز تھی، کھیتی باڑی خوب ہوتی تھی، ہر قسم کے پھل، سبزیوں اور باغات کی کثرت تھی، یہاں کے باشندے خوشحال تھے اور زندگی کی ہر آسائش انہیں میسر تھی لیکن قادر مطلق ذات اللہ کو انہوں نے بھلا دیا تھا، تکبر سے ان کی گردنیں اکڑ گئی تھیں، تمام مخلوق کے لئے پیدا کئے گئے وسائل کو وہ اپنی ملکیت سمجھتے تھے اور اس پر اپنا حق جتاتے تھے ، دوسرے علاقوں کے لوگ جب سدوم اور عمورہ آتے تو ان کو ناپسندیدہ افراد قرار دے کر انہیں ایذا دیتے تھے ان کا مال و اسباب لوٹ لیتے تھے، اللہ کے عطا کردہ وسائل کو اپنی محنت اور زور بازو کا نتیجہ سمجھتے تھے۔
ابلیس انسان کا ازلی دشمن ہے وہ ہر حال و قال میں انسان کو گمراہ کرنے کے لئے مستعد رہتا ہے، غرور و تکبر اور سرکشی ابلیسی طرز فکر ہے، اہل سدوم نے اس طرز فکر کو پوری طرح قبول کر لیا تھا۔ ان کے اندر ہر طرح کی برائیاں جمع ہو گئی تھیں، طمع، حرص، لالچ، بغض وعناد، کینہ پروری، زر پرستی، دل آزاری، بداخلاقی، فسق و فجور ان کی زندگی میں داخل ہو گئے تھے، ان کے ذہنوں میں شیطنت اس طرح راسخ ہو گئی تھی کہ مثبت سوچ نے ان سے رشتہ توڑ لیا تھا، ان کا اوڑھنا بچھونا شیطنت بن گئی تھی، ذاتی منفعت و آسائش کے حصول میں دوسروں کو نقصان پہنچا کر لوگوں کی دل آزاری کرنا اہل سدوم کا محبوب مشغلہ تھا۔ اہل سدوم بڑی تیزی کے ساتھ گمراہی اور ذلت کے تاریک گڑھے میں گرتے چلے گئے، قوم اس انتہا تک پہنچ گئی تھی جس کے بعد عذاب الٰہی پکڑ لیتا ہے۔
’’کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس آتے ہو اور ڈاکے مارتے ہو اور اپنی مجالس میں ناپسندیدہ حرکتیں کرتے ہو۔‘‘
(عنکبوت۔۲۹)
’’پھر یاد کرو جب اس نے اپنی قوم سے کہا، کیا تم ایسے بے حیا ہو گئے ہو کہ وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا، تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو۔‘‘
(الاعراف۔۸۰)
نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے مردوں کا آپس میں اختلاط اس قوم کا دستور بن گیا تھا خباثت اور بے حیائی عام ہو گئی تھی، حکمران، سردار، معززین شہر اور طبقہ روساء میں حیاء سوز حرکتیں گھر گھر پھیل گئی تھیں، بھری محفلوں میں ناپسندیدہ عمل کر کے خوش ہوتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت لوطؑ کو اسی قوم کی طرف مبعوث کیا۔ آپ نے بے حیائیوں اور خباثتوں پر اہل سدوم کو ملامت کی اور بری باتوں سے بچنے کی نصیحت کی قوم کو گمراہی اور ظلمت کے اندھیروں سے نکالنے کے لئے رب کائنات کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرنے اور شرافت اور پاکیزگی کے اعمال اپنانے کی ترغیب دی۔ اصلاح اور تزکیہ نفس کے لئے ہدایت و نصیحت کا ترغیبی پروگرام قوم پر بہت شاق گزرا، مٹی سے تخلیق پانے والے مظاہر کی کشش نے ان کے حواس کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا، وہ بدمستی کی اس کیفیت سے نکلنا ہی نہیں چاہتے تھے، لوگ پند و نصائح کو، عیش کوشی اور لذت کی راہ میں رکاوٹ تصور کرتے تھے، حضرت لوطؑ کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
’’اور کچھ جواب نہ دیا اس کی قوم نے مگر یہی کہا نکالو ان کو اپنے شہر سے یہ لوگ ستھرائی نہیں چاہتے۔‘‘
(الاعراف۔۸۲)
سدوم اور عمورہ کی سرزمین پر آباد سرکش گروہ نافرمانی اور اخلاق سوز کاموں پر مصر رہا۔ اللہ کے فرستادہ بندے حضرت لوطؑ نے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور عذاب سے ڈرایا، قوم نے حضرت لوطؑ کا تمسخر اڑیا، نافرمان اقوام کا طرز عمل ہی یہ ہے کہ سرکشی ان کا وطیرہ بن جاتا ہے۔ بستی کے لوگ حضرت لوطؑ کو دیکھتے ہی آوازیں کستے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 163 تا 165
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔