خواب کی حقیقت
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=18966
آیئے! خواب کے اجزاء ، خواب کی اہمیت اور خواب کی حقیقت تلاش کریں۔
جس عمل کو ہم خواب دیکھنا کہتے ہیں ہمیں روح اور روح کی صلاحیتوں کا سراغ دیتا ہے وہ اس طرح کہ ہم سوئے ہوئے ہیں ہمارے اعضاء معطل ہیں صرف سانس کی آمد و شد جاری ہے۔ لیکن خواب دیکھنے کی حالت میں ہم چل پھر رہے ہیں، باتیں کر رہے ہیں، سوچ رہے ہیں، غمزدہ اور خوش ہو رہے ہیں، کوئی کام ایسا نہیں ہے کہ جو ہم بیداری کی حالت میں کرتے ہیں اور خواب کی حالت میں نہیں کرتے۔
یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ خواب دیکھنا اگر خیالی حرکات نہیں ہے تو جاگ اٹھنے کے بعد کئے ہوئے اعمال کا کوئی اثر باقی کیوں نہیں رہتا؟
ہر شخص کی زندگی میں ایک، دو، تین، چار، دس، بیس ایسے خواب ضرور نظر آتے ہیں کہ جاگ اٹھنے کے بعد یا تو غسل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے یا کوئی ڈراؤنا خواب دیکھنے کے بعد اس کا خوف اور دہشت دل و دماغ پر مسلط ہو جاتی ہے یا جو کچھ خواب میں دیکھا ہے، وہی چند گھنٹے، چند دن، چند مہینے یا چند سال بعد من و عن بیداری کی حالت میں پیش آ جاتا ہے۔ چھ ارب کی انسانی آبادی میں ایک فرد واحد بھی ایسا نہیں ہے جس نے اس طرح کے ایک یا ایک سے زائد خواب نہ دیکھے ہوں۔ اس حقیقت کے پیش نظر اس بات کی تردید ہو جاتی ہے کہ خواب محض خیال ہے۔
بیداری یا خواب دونوں حالتوں میں اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم اس دوران انجام پذیر کام کی طرف کس قدر متوجہ ہوتے ہیں۔
بیداری ہو یا خواب ہمارا ذہن کسی چیز کی طرف یا کسی کام کی طرف متوجہ ہے تو اس کی اہمیت ہے ورنہ بیداری اور خواب دونوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
بیداری کا بڑے سے بڑا وقفہ بے خیالی میں گزرتا ہے اور خواب کا بھی بہت سا حصہ بے خبری میں گزر جاتا ہے۔ کتنی ہی مرتبہ خواب کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور کتنی ہی مرتبہ بیداری کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔
بیداری ہو یا نیند دونوں کا تعلق حواس سے ہے۔ ایک حالت میں یا ایک کیفیت میں حواس کی رفتار تیز ہو جاتی ہے اور ایک حالت یا کیفیت میں حواس کی رفتار کم ہو جاتی ہے لیکن حواس کی نوعیت نہیں بدلتی۔ بیداری ہو یا خواب دونوں میں ایک ہی طرح کے اور ایک ہی قبیل کے حواس کام کرتے ہیں۔ بیداری اور نیند دراصل دماغ کے اندر دو خانے ہیں۔ انسان کے اندر دو دماغ ہیں۔ ایک دماغ میں جب حواس متحرک ہوتے ہیں تو ان کا نام بیداری ہے دوسرے دماغ میں جب حواس متحرک ہوتے ہیں تو اس کا نام نیند ہے یعنی ایک ہی حواس بیداری اور نیند میں رد و بدل ہو رہے ہیں اور حواس کا رد و بدل ہونا ہی زندگی ہے۔ بیداری میں حواس کے کام کرنے کا طریقہ اور قاعدہ یہ ہے کہ آنکھ کے ڈیلے پر پلک کی ضرب پڑتی ہے تو حواس کام کرنا شروع کر دیتے ہیں یعنی انسان نیند کے حواس سے نکل کر بیداری کے حواس میں داخل ہو جاتا ہے۔
خواب کے عالم میں انسان کھاتا، پیتا اور چلتا پھرتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ روح گوشت پوست کے جسم کے بغیر بھی حرکت کرتی ہے اور چلتی پھرتی ہے۔ روح کی یہ صلاحیت جو صرف رویا میں کام کرتی ہے ہم کسی خاص طریقے سے اس کا سراغ لگا سکتے ہیں اور اس صلاحیت کو بیداری میں استعمال کر سکتے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام کا علم یہیں سے شروع ہوتا ہے اور یہی وہ علم ہے جس کے ذریعے انبیاء کرام نے اپنے شاگردوں کو یہ بتایا ہے کہ پہلے انسان کہاں تھا اور اس عالم ناسوت کی زندگی پوری کرنے کے بعد وہ کہاں چلا جاتا ہے۔
ان غیبی کوائف کا مشاہدہ کرنے کے لئے تمام برگزیدہ ہستیوں، انبیاء اور رسولوں نے تفکر سے کام لیا ہے اور اپنے شاگردوں کو بھی اجزائے کائنات میں تفکر کی تعلیم دی ہے۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ مرتبہ پیغمبری کوشش سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ اللہ کا خصوصی فضل ہے جو وہ کسی بندے پر کرتے ہیں۔ سلسلہ رسالت و نبوت ختم ہو گیا ہے لیکن الہام اور روشن ضمیری کا فیضان جاری ہے۔
(کتاب: لوح و قلم)
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 159 تا 161
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔