قلب کی نگاہ
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=18909
کلام الٰہی کے مطابق یقین اس وقت تک کامل نہیں ہوتا جب تک کہ مشاہدہ نہ ہو۔ دل شعور کا مرکز ہے، قلبی حواس دونوں رخوں میں کام کرتے ہیں، قلب کی نگاہ غیب میں بھی دیکھتی ہے اور ایک قدم نیچے اتر کر مادی دنیا میں بھی دیکھتی ہے۔ جب بندہ کسی شئے کو غیب اور حضور دونوں میں دیکھ لیتا ہے تو اسے یقین کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر ہیں۔ پیغمبر کو اللہ کی جانب سے خصوصی علوم منتقل ہوتے ہیں ان علوم میں مردوں کو زندہ کرنے کے علوم بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسا خالق ہے جو اول بار بھی پیدا کرتا ہے اور مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔ علم الیقین کا تعلق روحانی شعور سے ہے، جب بندہ اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے تو روحانی شعور پس پردہ کام کرتا ہے اور روحانی شعور کے ساتھ ساتھ انفرادی شعور(یعنی عقل) ہر شئے کو علمی سطح کے ساتھ ساتھ عملی سطح پر بھی دیکھنا چاہتی ہے۔ انفرادی عقل و شعور اس وقت تک مطمئن نہیں ہوتا جب تک کسی شئے کو خدوخال کے ساتھ ظاہری حواس میں نہ دیکھ لے۔
مردے کو زندہ کرنے کے عملی تجربے میں اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیتے ہیں کہ پہلے چار پرندے پکڑ کر پال لو اور اپنے سے اچھی طرح مانوس کر لو تا کہ وہ تمہیں اچھی طرح پہچان لیں اور جب تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری آواز پہچان کر تمہاری جانب اڑ کر آ جائیں، پہچان کا سب سے بڑا ذریعہ اس فرد کا نام ہے۔ ہر فرد یا شئے کا نام اس کی مخصوص شخصیت و کردار کا احاطہ کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب سینکڑوں اور ہزاروں میں اس کا نام پکارا جاتا ہے تو وہ خود کو پہچان لیتا ہے۔ دوسری بات اللہ تعالیٰ نے یہ فرمائی کہ جب پرندے تم سے اچھی طرح مانوس ہو جائیں تمہارے اور پرندوں کے درمیان انس و محبت کا رشتہ قائم ہو جائے تب انہیں ذبح کر دو اور ذبح کر کے ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دو اور الگ الگ پہاڑوں پر ایک ایک ٹکڑا رکھ دو، پھر انہیں ان کے نام سے پکارو جیسے تم ان کو زندگی میں پیار سے بلاتے تھے، مرنے کے بعد بھی جب تم انہیں اسی طرح پکارو گے تو وہ تمہاری طرف دوڑے ہوئے چلے آئیں گے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ مرنے کے بعد پرندوں کے حواس بھی ختم ہو گئے تھے، یہاں تک کہ ان کے جسموں کے ٹکڑے کر دیئے گئے تھے اور جسم کے وہ آلات جن کے ذریعے وہ دیکھتے، سنتے اور سمجھتے تھے توڑ دیئے گئے تھے، پھر مادی وجود کے ٹوٹنے پھوٹنے کے بعد پرندوں کا وہ کون سا جسم ہے جو مادی حواس کی طرح حواس رکھتا ہے۔ جب انہیں ان کے نام سے پکارا گیا تو وہ فوراً آواز پر چلے آئے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر پرندوں کو پال کر اپنے سے مانوس کر لیا۔ یہ انسیت حضرت ابراہیم علیہ السلام اور پرندوں کے درمیان باہمی ربط بن گئی۔ یہ انسیت روح میں واقع ہوئی پرندوں کی روح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آواز کی مخصوص لہروں سے واقف تھی۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پرندوں کو آواز دی تو پرندوں کی روح آپ کی طرف متوجہ ہو گئی اور پرندے پیروں سے چلتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس حاضر ہو گئے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 149 تا 150
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔