باپ بیٹے میں سوال و جواب
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=18805
آذر کو جب پتہ چلا کہ بیٹا ستاروں کی پرستش اور خود ساختہ خداؤں کے خلاف جذبات رکھتا ہے تو اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا:
’’ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے پھر گیا ہے۔‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب میں استفسار کیا۔
’’اے میرے باپ! کیوں پوجتا ہے جو چیز نہ سنے، نہ دیکھے نہ کام آوے تیرے کچھ۔‘‘
(سورہ مریم۔ ۴۲)
’’بت تراش آذر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا سوال سن کر سہم گیا اور حیرت اور استعجاب سے انہیں دیکھنے لگا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوبارہ استفسار پر آذر نے یہ کہا کہ یہ میرے آباؤ اجداد کا راستہ ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا:
’’اے میرے باپ! مجھے ایسی بات کا علم ہو گیا ہے جس کے بارے میں آپ کچھ نہیں جانتے، ہدایت و بھلائی کی طرف آیئے اور شیطان کے بتائے ہوئے راستے کو چھوڑ دیجئے۔ یہ صریح گمراہی ہے۔ آذر نے یہ سنا تو غضب ناک ہو کر بولا:
’’ابراہیم میرے معبودوں کا انکار نہ کر یا درکھ! اگر تو ان باتوں سے باز نہیں آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وحدہ لاشریک کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا:
’’میں آپ کے تراشیدہ پتھروں کو اپنا معبود نہیں مان سکتا، یہ مجھے فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ میں ان سے کسی قسم کا خوف اور خطرہ محسوس کرتا ہوں یہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے میں صرف اس ہستی کو معبود مانتا ہوں جس نے مجھے پیدا کیا اور سیدھی راہ دکھائی۔ جو مجھ کو کھلاتا، پلاتا اور رزق دیتا ہے اور جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو مجھے شفا بخشتا ہے اور جو میری زیست اور موت دونوں کا مالک ہے اور اپنی خطاکاری کے سبب جس سے میں یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ مجھے بخش دے گا اور میں اس کے حضور میں یہ دعا کرتا ہوں کہ اے میرے اللہ! تو مجھ کو فیصلے کی قوت عطا کر اور مجھے نیکو کاروں کی صف میں داخل کر۔
(الشعراء: ۷۸۔۸۳)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جرأت بے باکانہ سے آذر کو شدید دھچکا لگا اور غصے سے ہذیان بکنے لگا۔ اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا:
’’تیری خیر اسی میں ہے کہ کچھ عرصہ کے لئے مجھ سے دور ہو جا۔‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا:
’’میں اپنے اللہ سے آپ کی بخشش کی دعا کرونگا وہ مجھ پر بڑا مہربان ہے، میں آپ کو اور ان بتوں کو جن کو آپ پوجتے ہیں چھوڑکر اپنے اللہ کو پکارتا ہوں جو مجھے محروم نہیں رکھے گا۔‘‘
ایک روز حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قوم کے دانشمندوں کو جمع کیا اور ان سے چند سوالات کئے۔ آپ نے ان سے پوچھا:
’’تمہارے عقیدے کے مطابق ستارے کو اگر ربوبیت اور معبودیت کی قدرت حاصل ہے تو ان میں تغیر کیوں ہوتا ہے؟ یہ جس طرح چمکتے نظر آتے ہیں اسی طرح چمکتے کیوں نہیں رہتے؟ ستاروں کی روشنی کو مہتاب نے کیوں ماند کر دیا ہے؟ اور مہتاب کے رخ روشن کو آفتاب نے کیوں چھپا دیا؟‘‘
’’اے قوم! میں ان مشرکانہ عقائد سے عاجز ہوں اور شرک کی زندگی سے بیزار ہوں بلاشبہ میں نے اپنا رخ صرف اسی ایک اللہ کی طرف کر لیا ہے جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے۔‘‘
(سورہ انعام۔ ۸۰)
ستارو و بت پرست قوم حیران تھی کہ اس روشن دلیل کا کیا جواب دے؟ صدیوں سے باطل خداؤں پر یقین اس قدر پختہ ہو گیا تھا کہ حقیقت کی روشنی ان کے اندر داخل نہیں ہو سکی وہ جھگڑنے لگے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو فرضی معبودوں کے قہر و غضب اور انتقام سے ڈرانے لگے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کی عقل و شعور پر پڑے ہوئے پردوں کو دیکھ کر فرمایا:
’’تمہارے پاس گمراہی کے سوا کوئی روشنی موجود نہیں ہے مجھے تمہارے معبودوں کی ذرہ برابر پرواہ نہیں ہے۔ میرا رب جو چاہے گا وہی ظہور میں آئے گا یہ لکڑی اور پتھر سے تراشے ہوئے بت خود اپنی حفاظت نہیں کر سکتے تو دوسروں کی حفاظت کس طرح کر سکتے ہیں؟‘‘
شہر کے باہر ایک مذہبی تہوار میں شہر کی تمام آبادی شریک ہوئی، حضرت ابراہیم علیہ السلام بڑے دیوتا کے ہیکل میں چلے گئے، قوم کا سب سے مقدس دیوتا تمام باطل خداؤں کا سردار مانا جاتا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا کہ وہاں موجود پتھراور لکڑی سے بنائے گئے دیوتاؤں کے سامنے پھل، کھانوں اور مٹھائیوں کے خوان رکھے ہوئے تھے جو لوگوں نے چڑھاوے کے طور پر ان کو نذر کئے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان مورتیوں کو مخاطب کر کے کہا:
’’یہ سب تمہارے لئے رکھا ہے تم ان کو کھاتے کیوں نہیں؟‘‘
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 131 تا 133
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔