العلاء اور الحجر
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=18729
عذاب الٰہی سے ہلاک ہونے والے آل ثمود ڈیڑھ ہزار گھرانوں پر مشتمل تھے جبکہ حضرت صالح کے ساتھ بچ جانے والوں کی تعداد ایک سو بیس بتائی جاتی ہے۔
عبرت کے لئے ثمود کی عمارتوں میں سے کچھ اب بھی باقی ہیں۔ مدینہ طیبہ اور تبوک کے درمیان حجاز کے مشہور مقام العلاء (جسے عہد نبوی میں وادی القریٰ کہتے تھے) سے چند میل دور شمال کی طرف ثمود کی تباہی کے آثار موجود ہیں۔ العلاء اب بھی سرسبز و شاداب وادی ہے جبکہ الحجر کے گرد و پیش تباہی اور نحوست کے آثار موجود ہیں، ہر طرف ایسے پہاڑ ہیں جو سطح زمین پر دھنکی ہوئی روئی کی طرح ہو گئے ہیں۔ یہ تقریباً چار سو میل لمبا اور سو میل چوڑا علاقہ ہے اسے ایک عظیم زلزلے نے ہلا کر رکھ دیا۔
محققین نے تحقیق کی ہے کہ ثمود کی تباہی ایک آتش فشاں پہاڑ کے پھٹنے سے ہوئی جس کے لاوے کے نشانات آج بھی مدائن صالح کے مغرب میں موجود ہیں۔
غزوہ تبوک کے موقع پر جب سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حجر سے گزر ہوا تو صحابہ کرامؓ نے ثمود کے کنویں سے پانی بھرا اور آٹا گوندھ کر روٹیاں تیار کرنے لگے۔ آپ کو معلوم ہوا تو حکم دیا:
’’پانی گرا دو، ہانڈیاں اوندھی کردو اور آٹا بیکار کر دو‘‘، پھر فرمایا:
’’یہ وہ بستی ہے جس پر خدا کا عذاب نازل ہوا تھا، یہاں قیام نہ کرو اور یہاں کی اشیاء سے فائدہ نہ اٹھاؤ، آگے بڑھ کر پڑاؤ ڈالو، ایسا نہ ہو کہ تم بھی اسی بلا میں مبتلا ہو جاؤ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا کہ:
’’تم حجر کی بستیوں میں خدا سے ڈرتے ہوئے، عجز و زاری کرتے ہوئے داخل ہوا کرو ورنہ داخل ہی نہ ہوا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ غفلت کی وجہ سے تم عذاب کی مصیبت میں مبتلا ہو جاؤ۔‘‘
روایت ہے کہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام حجر میں داخل ہوئے تو فرمایا کہ:
’’اللہ تعالیٰ سے نشانی طلب نہ کرو، صالح کی قوم نے نشان طلب کیا تھا اور وہ ناقہ پہاڑ کی کھوہ سے نکلتی تھی اور اپنی باری میں کھا پی کر وہیں واپس چلی جاتی تھی۔ قوم ثمود کو اپنے دودھ سے سیراب کرتی تھی مگر ثمود نے آخر کار سرکشی کی اور ناقہ کی کونچیں کاٹ کر اس کو ہلاک کر دیا اور نتیجہ میں اللہ نے ان پر چیخ کا عذاب مسلط کر دیا اور وہ گھروں کے اندر ہی مردہ ہو گئے۔ صرف ایک شخص ابورغال باقی بچا جو حرم میں تھا جب وہ حدود حرم سے باہر آیا تو عذاب کا شکار ہو کر مر گیا۔‘‘
سائنسدانوں میں کائناتی تخلیق سے متعلق (Big Bang) تھیوری کا تذکرہ ہے جس میں یہ کہا جاتا ہے کہ روز اول ایک زور دار دھماکہ ہوا اور کائنات بن گئی۔ اس سے پہلے کائنات روشنی کا ایک بہت بڑا کرّہ تھی۔ زور دار دھماکہ کی وجہ سے اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے اور یہ ٹکڑے چاند، سورج، ستارے اور سیارے بن گئے، عظیم دھماکے کی (Vibration) سے ستاروں میں گردشوں کا نظام جاری و ساری ہو گیا، گردشوں سے انرجی پیدا ہونے لگی، انرجی سے (Heat) پیدا ہوئی۔ (Heat) جب ٹھنڈی ہوئی تو بادل بنے، نمی ہوئی اور بارش برسی اور گرمی و نمی سے حیات کی نمو ہوئی۔
سائنسدان یہ بھی کہتے ہیں کہ عظیم دھماکہ کی آواز کی لہریں اب بھی کائنات میں گردش کر رہی ہیں، الٹرا ساؤنڈ کی صورت میں اس بات کا انکشاف بھی ہو چکا ہے کہ کچھ ایسی آوازیں بھی ہیں جسے انسانی سماعت کی ویو لینتھ Catchنہیں کر سکتی۔ مگر یہ خاموش آوازیں اپنے اندر بہت قوت رکھتی ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 113 تا 115
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔