شاہی محل
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=18701
ان کی بنائی ہوئی بستیوں کے کھنڈرات، شام اور حجاز کے درمیان آج بھی موجود ہیں۔ آثار قدیمہ کے ماہرین نے ایک ایسا مکان تلاش کیا جسے شاہی محل کہا جا سکتا ہے۔ اس محل میں متعدد کمرے اور ایک بڑا حوض تھا اور یہ پوری عمارت پہاڑ کاٹ کر بنائی گئی تھی، قدیم کتبات اور تحریروں سے سامی کی آبادیوں سے متعلق معلومات ملی ہیں ہر آبادی میں دو بڑی عمارتیں ہوتی تھیں، ایک بیت الحکومتہ اور ایک ہیکل۔ آبادی کا حاکم بیت الحکومتہ میں رہتا تھا اور ہیکل آبادی کے کاہن کا مسکن تھا دونوں باہمی شراکت سے آبادی پر حکمرانی کرتے تھے۔ ثمود خوشحال قوم تھی، مال و دولت کی فراوانی تھی، معاشی بہتری اور آسودہ حالی کی وجہ سے عیش و عشرت کا ہر سامان انہیں میسر تھا، اپنے بڑوں کی طرح یہ لوگ طویل القامت اور لمبی عمر والے تھے، جسمانی قوت اور دولت و ثروت میں انہیں شہرت حاصل تھی، نعمتوں اور وسائل کی بہتات اور طاقت و قوت کے نشے میں یہ لوگ بدمست ہو گئے تھے، اپنے زور بازو پر انہیں ناز تھا، ہر شئے کا حصول اپنی محنت کا نتیجہ قرار دیتے تھے، مادی عوامل پر ان کا انحصار اس قدر زیادہ تھا کہ اگر کسی شئے کا ثبوت فراہم نہیں ہوتا تھا تو اس کے وجود سے انکار کر دیتے تھے، اس طرز فکر کی وجہ سے اللہ وحدہ لاشریک اور نبیوں کی تعلیمات سے منحرف ہو گئے تھے، اپنے لئے معبود تراشتے تھے اور مرنے کے بعد کی زندگی سے ان کا یقین اٹھ گیا تھا، کفر و الحاد میں قوم جب حق و معرفت کی روشنی سے دور ہو گئی تو ہدایت و رہنمائی کے لئے اللہ کریم نے اپنے برگزیدہ بندے حضرت صالح کو مبعوث کیا۔
’’اور ثمود کی طرف بھیجا ان کا بھائی صالح۔ بولا، اے قوم! بندگی کرو اللہ کی کوئی نہیں تمہارا خالق و مالک اس کے سوا۔‘‘
(سورۃ اعراف۔ ۷۳)
اس زمانے میں حضرت ہودؑ کی تعلیمات پر کاربند افراد کی تعداد بہت کم ہو گئی تھی۔ دارالحکومت حجر کے ایک طرف انہوں نے عبادت گاہ بنا رکھی تھی، عبادت گاہ کے سامنے چھوٹی بڑی پہاڑیاں تھیں جن کو تراش کر قوم کے سرداروں نے مکانات بنا رکھے تھے، حجر کی آبادی میں باغات بہت تھے، کھیت کھلیان تھے اور کھجوروں کے درخت تھے، آبادی کے نزدیک پہاڑوں کے دامن میں صاف شفاف پانی کا چشمہ بہہ رہا تھا، چشمہ کے اطراف وسیع ہری بھری چراگاہ تھی، آبادی کے دوسری طرف بادشاہ جندع کا محل تھا جو پہاڑ کاٹ کر بنایا گیا تھا۔
حضرت صالح علیہ السلام آبادی سے باہر عبادت گاہ میں زیادہ وقت گزارتے تھے، عبادت کے معمولات اور نیک طبیعت کی وجہ سے لوگ ان کی عزت و توقیر کرتے تھے، حضرت صالح علیہ السلام نے لوگوں کو جمع کر کے کہا:
’’خدا کی بندگی کرو اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے، جنہیں تم نے معبود بنا رکھا ہے وہ ہرگز مالک و مختار نہیں ہیں خدا وہ ہے جس نے یہ کائنات بنائی، مجھے تخلیق کیا اور تمہیں پیدا کیا اسی نے قوم عاد کے بعد زمین پر تمہیں ان کا جانشین بنایا ہے اور تمہیں یہ صلاحیت دی ہے کہ پہاڑ کاٹ کر مکانات بناتے ہو۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو،جھوٹے خداؤں کو چھوڑ کر واحد ذات اللہ کی عبادت کرو، اپنے گناہوں کی معافی مانگو، وہ التجائیں قبول کرنے والا ہے۔‘‘
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 102 تا 104
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔