میں نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا
مکمل کتاب : جنت کی سیر
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=17801
اب اللہ تعالیٰ نے میرے چند سوالوں کا جواب بخشا ہے جو عرصے سے میرے ذہن میں تھے۔ میں جب بھی کوئی برائی دیکھتی تو مجھے بہت احساس ہوتا اور سوچتی کے بری باتوں سے نہ انسان کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے نہ اللہ میاں خوش ہوتے ہیں تو پھر برائیاں دنیا میں رکھی ہی کیوں گئی ہیں۔ جب میں یہاں انگلینڈ آئی تو ہر طرف شراب اور بے حیائی دیکھ کر بہت زیادہ افسوس ہوتا، مجھے بڑا غصہ آتا کہ یہ لوگ اتنی برائیاں کرتے ہیں تو اللہ میاں انہیں ہدایت کیوں نہیں کرتے جبکہ وہ خود ان چیزوں کو حرام کہتے ہیں اور یہ بھی سوچتی کہ جب اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر پتا نہیں ہلتا پھر انسان کی مجال کیسے ہو سکتی ہے کہ وہ اتنے بڑے بڑے گناہ کرے۔ اس کا جواب مجھے یوں دیا گیا ، میں کوشش کرتی ہوں کہ آسان الفاظ میں بیان کروں ۔ فرمایا : ۔
سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نےفرشتے بنائے یہ ایک مشین کی طرح ہیں، ان کے سپرد جو کام ہے وہ صرف وہی کر سکتے ہیں، مثلاً جس طرح کپڑے سینے کی مشین صرف کپڑے سی سکتی ہے، کپڑے دھو نہیں سکتی اسی طرح فرشتے وہی کام کرتےہیں جو ان کے سپرد ہے، اللہ تعالیٰ کی مثال ایک سائنسدان کی سی ہے جیسے سائنسدان نے پہلے ایک سائیکل بنائی ، پھر اور ترقی کی تو موٹر سائیکل بنائی، پھر کار، ریل وغیرہ پھر ہوائی جہاز اور اب قسم قسم کے بم بنا رہا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے پہلے فرشتے بنائے پھر حیوانات بنائے، ان میں تھوڑی عقل رکھی مگر وہ صحیح سوجھ بوجھ نہیں رکھتے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنایا اور اسے سب سے زیادہ عقل عطا فرمائی تو اسے اس پر پوری قدرت دے دی گئی کہ جس طرح چاہے عقل کو استعمال کرے، عقل کے استعمال میں انسان کو پوری آزادی ہے۔پھر اسے دو راستے دکھائے، نیکی کا راستہ اور بدی کا راستہ۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر تم بدی کے راستے پر چلے تو مجھ سے دور ہو جاؤ گے کیونکہ وہ میرا ناپسندیدہ راستہ ہے اور جب تک اپنی عقل سے نیکی کے راستے پر نہ لگو گے تب تک تم برائیوں کے گھڑے میں گرتے رہو گے اور مرنے کے بعد دوزخ اس کا انجام ہو گی لیکن تم نیکی کےراستے پر چلے تو میں تم سے قریب ہو جاؤں گاتم پر اپنے تمام خزانے نچھاور کروں گا۔ اب اگر تم یہ دیکھتی ہو کہ ان برے لوگوں کو کیوں اللہ تعالیٰ سیدھی راہ نہیں دکھاتے تو صرف اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے روزِ ازل ہی انسان سے اس کا وعدہ کیا ہے کہ جب تم خود صحیح راہ پر نہ چلو گے اور اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایتوں کو قبول نہ کرو گے اللہ نے تمہیں آزاد کر دیا ہے۔ اب کیا تم یہ چاہتی ہو کہ اللہ اپنے وعدے سے پھر جائے۔
میں نے معافی مانگی کہ اب میں بالکل سمجھ گئی ہوں، میں قائل ہو گئی ہوں۔
دوسری حسر ت یہ تھی کہ میں روح کا علم جان جاؤں، میں سوچتی اللہ تعالیٰ نے روح کے علم کو راز رکھا ہے، مجھے انتہائی شوق ہوا کہ کاش روح کے متعلق میں کچھ جان سکوں ، رات ہی مجھے روح سے متعلق چند باتیں بتائی گئیں جن سے میری عقل واقع ہی مطمئن ہو گئی۔ فرمایا:۔
مثال: ایک اخروٹ لو۔ اخروٹ کے اندر کی گری ہی اصلی چیز ہے اور اخروٹ کی قیمت ہی اس کی گری ہے۔ چھلکے کی کوئی حیثیت نہیں ، یہ صرف ان کی گری کی حفاظت کرتا ہے۔ اس کو جب تم توڑتے ہوتو چھلکا پھینک دیتے ہو، جلا دیتے ہو، تباہ کر دیتے ہو یا اس کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح روح ہے کہ وہ اصل انسان ہے اور جسم اس کا لباس ہے، انسان جب مر جاتا ہے تو اس کا جسم اخروٹ کے چھلکے کی طرح ختم ہو جاتا ہے۔ روح نہایت ہی لطیف شے ہے۔ یہ شکل اختیار کرنے کی طاقت بھی رکھتی ہے۔ پھر جب انسان مرتا ہےتو فرشتے اس کی روح کو نہایت ہی حفاظت سے لے کر جاتے ہیں اور لے جا کر آسمانوں میں ایک خاص مقام پر رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ روح کے متعلق مزید جاننے کی کوشش نہ کرنا اور اے نادان لڑکی آئیندہ تمہیں ایسی جرآت نہیں ہونی چاہیئے۔ میں نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ نہیں نہیں ۔اب میں مطمئن ہوں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 113 تا 115
جنت کی سیر کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔