صحابی جن کی زیارت

مکمل کتاب : جنت کی سیر

مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=17733

مراقبہ میں دیکھا کہ ایک مکان  ہے۔ مکان کے اندر دو سہ دریاں ہیں۔ سہ دریوں کے دونوں کناروں پر بڑے بڑے کمرے بنے ہوئے ہیں۔ وسیع و عریض صحن  میں امرود کا درخت ہے۔ اس درخت میں اتنا پھل ہے کہ ہر  طرف امرود ہی امرود نظر آتے ہیں۔ گلہریاں اور طوطے  امروود کتر کتر کر نیچے پھینک رہے ہیں ۔ میں اور میرا دوست سہ دری کی چھت پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔کہ نظر آیا صحن میں فوارّے کے پاس طاق کے اندر ایک شمعدان جل رہی ہے۔  شمع پر پروانے نثار ہو رہے ہیں۔ میرے دوست نے اس منظر سے متاثر ہو کر سرمد کا ایک شعر سنایا

سرمد غم عشق بوالہوس رانہ دہند

سوزِ دلِ پروانہ مگس رانہ دہند

یہ سنکر میرے اوپر وجدانی کیفیت طاری ہو گئی۔ اس ہی حالت میں آسمان کی طرف نگاہ اٹھی تو دیکھا کہ ایک گھوڑا پرواز کر رہا ہے۔ دُم سے گردن تک زرّین لباس میں ملبوس یہ گھوڑا مکان کے چاروں طرف فضا میں چکر لگا رہا ہے۔ میں نے دوست سے کہا” دیکھو گھوڑا اڑ رہا ہے۔”

اس نے کئی مرتبہ آسمان کی طرف دیکھا مگر وہ  نہیں دیکھ سکا۔ چار پانچ چکّر لگا کر وہ گھوڑا صحن میں اتر گیا حیرت ناک  بات یہ ہے  کہ جیسے ہی گھوڑے نے زمین پر قدم رکھے پورے صحن میں قالین کا فرش بچھ گیا۔ ایک آدمی تیزی کے ساتھ مکان میں داخل ہوا اور گھوڑے کے منہ میں لگام دے دی۔ اس کے بعد نہایت حسین، مہ جبین دو شیزہ آئی اور گھوڑے کی لگام پکڑ کر اسے زینے کے راستے اوپر لے گئی۔ گھوڑے کے کان میں کچھ کہا اور وہ پھر ہوا میں پرواز کر گیا۔ خوبصورت دوشیزہ نے ہم دونوں کو اپنے ساتھ نیچے آنے کا اشارہ کیا۔ جب ہم تینوں سہ دری میں پہچ گئے تو میں نے اپنے دوست کا تعارف کرایا کہ یہ میرا چھوٹا بھائی ہے۔ حسینہ نے آگے بڑھ کر اس کے رخسار چوم لئے۔ جواباً دوست نے بھی حسینہ کی پیشانی کو بوسہ دیا۔ اس حرکت سے وہ غیض و غضب میں آ گئی۔ معاملہ کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے میں نے کہا۔” ہم انسانوں کے ہاں یہ دستور ہے کہ ہم اپنی ماں اور بہن کو پیار کر سکتے ہیں۔ یہ بات سنکر حسینہ مسکرا دی۔

میں نے پوچھا ” تم کون ہو اور یہ گھر کس کا ہے؟”

حسینہ نے کہا ” میں شہنشاہِ جنات عفریت کی بیوی ہوں”

سوال کیا ” آپ کے شہنشاہ کہاں ہے؟”

جواب دی ا” آج کل ان کے اوپر شادیاں رچانے کا بھوت سوار ہیں

تیسری بیوی ہوں اور وہ اب تک نو شادیاں کر چکے ہیں”

میں نے استفسار کیا ” تم یہاں اکیلی رہتی ہو؟”

اس نے کہا ” میرے ساتھ میری نانی اور نانا رہتے ہیں ۔ چلو ملاقات کرادوں”

دیکھا کہ ایک کمرے میں بڑی بی تلاوت ِ قرآن پاک میں مصروف ہیں۔

نہ معلوم کس طرح میرے ہاتھ میں دو قرآن پاک آگئے۔ ایک نسخہ بطور ہدیہ میں نے بڑی بی کی خدمت میں پیش کیاا اور ساتھ ہی دریافت کیا” آپ نے قرآن پاک کہاں پڑھا ہے؟”

بڑی بی نے کہا” میرے استاد تمہاری طرح ایک انسان ہیں'”

دوسرے کمرے میں سفید ریش  بزرگ چوکی پر تشریف فرما تسبیح پڑھ رہے تھے۔ سلام کے بعد عرض کیا ” قبلہ میں آپ کے لئے  قرآن پاک لایا ہوں”

یہ سنکر وہ  خوش ہو گئے اور قرآن پاک کو پہلے چوما، آنکھوں سے لگایا اور پھر سر پر رکھ کر گویا ہوئے” اللہ تعالےٰ تمہیں خوش رکھیں اور قرآن پاک  کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔”

میں نے عرض کیا ” حضور آپ کی عمر کیا ہے؟”

فرمایا پندرہ سو سال اب پورے ہو جائیں گے۔ میں نے رحمت الّلعالمین حضور سرور کائنات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی ہے اور قرآن کریم بھی حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے پڑھا ہے”

نوع جناّت کے بزرگ صحابیرض کی زبانِ مبارک سے یہ بات سن کر میرے اوپر رقّت طاری ہوگئی۔ آگے بڑھا اور ان کے قدموں پر سر رکھ دیا۔ اس گناہ گار اور سیاہ کار بندے کا یہ نصیب کہ ایک صحابی رض کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہو؛

بزرگ نے مجھے اٹھایا اور اپنے سینہ مبارک سے لگا لیا۔

اس ہی عالم میں مراقبہ تمام ہوا۔۔۔۔۔ آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور گلے کے پاس قمیض کا پورا حصّہ بھیگا ہوا تھا۔

حیرت انگیز بات یہ ہے  کہ جنات کی شکل بھی ہم انسانوں کی طرح ہوتی ہے  البتہ آنکھ میں فرق ہوتا ہے۔ ان لوگوں کی آنکھیں مچھلی یا سانپ کی طرح گول ہوتی ہیں۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 64 تا 67

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)