اللہ کی آواز
مکمل کتاب : جنت کی سیر
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=17727
خلا میں ایک سمت جگنو چمکتے ہوئے نظر آئے۔ غور سے دیکھا تو یہ چھوٹے چھوٹے روشن نقطے فرشتوں کی ٹولیوں میں بدل گئے۔ گروہ در گروہ فرشتے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ قریب جا کر سلام کیا اور فرشتوں سے مصافحہ کیا۔ فرشتوں نے مجھ سے باتیں بھی کیں مگر میری سمجھ میں ان کی کوئی بات نہیں آئی۔
ملائکہ عنصری سے ملاقات کر کے نیچے اترا اور ایک خوبصورت باغ میں خود کو موجود پایا۔ اس باغ میں ایک چھوٹا بچہ کھیل رہا تھا۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر باغ سے باہر لے گیا۔ اپ دیکھا کہ میں اور وہ لڑکا کسی عمارت میں ہیں۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ عمارت ” خانہ کعبہ” ہے۔ لوگ جوق در جوق طواف کرتے نظر آئے۔ کچھ لوگ بیٹھے ہوئے اللہ اللہ کر رہے ہیں۔ اگلی نشستوں میں بیٹھے ہوئے لوگ کھڑے ہوگئے اور حمد و ثنا کے بعد سلام پڑھنا شروع کر دیا۔ شریکِ محفل ہونے پر محسوس ہوا کہ میرے منہ میں پان ہے۔ تھوکنا چاہا تو غیب سے وہاں اگالدان موجود ہو گیا۔ لیکن منہ میں انڈے کے برابر ایک گولہ بن گیا۔ یہ گولہ انتہائی درجہ متعفّن اور لیس دار تھا۔ تھوکنا چاہا تو یہ تعفّن منہ سے باہر نہیں آیا۔ بالآخر منہ میں انگلی ڈال کر بہر نکالا۔ اور اگالدان میں ڈال دیا۔ منہ میں اب بھی لیس دار رطوبت بھری ہوئی تھی۔ اس حالت میں درودسلام کی مجلس میں شریک ہوگیا۔ یکایک خانہ کعبہ سمٹنا شروع ہو گیا اور آہستہ آہستہ ایک نورانی بساط میں تبدیل ہو گیا اور وہاں موجود تمام لوگ نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ اب دیکھا کہ یہ بساط عرش ہے۔ عرش نورانی لہروں سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں ان لہروں اور نورانی بساط کے علاوہ کسی اور چیز کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ تھوڑی دیر کے بعد ساکت و جامد لہروں میں ارتعاش ہوا اور لہریں “صوت سرمدی ” کے ساتھ سے الگ ہوتی ہوئی محسوس ہوئیں۔
کس منہ سے کہوں اور کیوں کر بیان کروں کہ ان لہرں کے حجاب میں اللہ تعالےٰ جلوہ افروز ہیں۔ احساس بندگی حرکت میں آگیا۔ خمیدہ کمر، سر جھکائے آگے بڑھا اور اللہ کے قدموں میں گر گیا۔ محسوس یہ ہو رہا تھا کہ میرا سر اللہ تعالےٰ کے پیروں پر رکھا ہوا ہے۔ کان میں آواز آئی۔ ” ہمارے بندے؛ اٹھ کھڑا ہو”۔
میں مودّب کھڑا ہو گیا۔ اور اللہ تعالےٰ کی حمد و ثنا بیان کرنے لگا۔ دیکھا کہ میرے بائیں طرف ایک چھوٹا بچہ بیٹھا ہوا ہے اور دائیں طرف ایک لڑکی۔ لڑکے کی عمر میرے خیال سے چار اور لڑکی کی عمر ڈھائی سال ہے۔ اللہ تعالےٰ کے لئے چھوٹی بچی زیادہ پسندیدہ معلوم ہوتی ہے۔ میں نے لڑکے سے پوچھا” اللہ کہا ں ہیں”؟
وہ جواب میں بچوں کی طرح شرما کر خاموش ہو گیا۔
پھر میں نے چھوٹی بچی سے کہا” تم اللہ کو جانتی ہو؟”
اس نے انگشتِ شہادت سے بتایا” یہ ہیں اللہ تعالےٰ”
دل کی آنکھ کھلی اور دیکھا کہ اللہ تعالےٰ نے تبسّم فرمایا اور ارشاد کیا” لڑکے کی طرف اشارہ کر کے” اسے پتا نہیں ہے۔” پھر ارشاد کیا۔ ” مانگ کیا مانگتا ہے”؟
بندہ نے عرض کیا” باری تعالےٰ: اب کچھ نہیں چاہیئے۔ آپ مل گئے تو پوری کائنات مل گئی”
فرمایا۔” نہیں ۔ یہ لو اور کھاؤ”۔
میں نے کیا چیز کھائی یہ بتانے سے قاصر ہوں مگر مزہ اس کا سیب اور انگور سے ملتا جلتا تھا۔ اللہ تعالےٰ نے مجھے نصیحت فرمائی) جو ذہن میں بالکل محفوظ نہیں رہی۔ بہت یاد کرتا ہوں کہ ایک لفظ ہی یاد آجائے( اور فرمایا
” اب تم زمین پر واپس جاؤ”
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 62 تا 64
جنت کی سیر کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔