اللہ کی آواز
مکمل کتاب : جنت کی سیر
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=17673
کراچی
میں میکلوڈ روڈ پر جارہا تھا کہ آسمان سے آواز آئی۔
” حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رح کو سوا لاکھ مرتبہ درود شریف، تین لاکھ مرتبہ کلمہ طیبہ اور پانچ قرآن پڑھ کر بخش دے”
پھر آواز آئی۔۔۔۔۔
پانچ قرآن حضرت ادریس علیہ السلام اور پانچ قرآن حضرت خضر کو پڑھ کر ایصال ثواب کر۔”
میں نے ہاتف غیبی کی آواز کی اس تعمیل مین عمل شروع کر دیا۔ اوقات یہ مقرر کئے۔ظہر کی نماز کے بعد مغرب تک کلمہ طیبہ اور عشا کی نماز کے بعد سے تہجد تک درود شریف۔
جب کلمہ طیّبہ تین لاکھ مرتبہ پورا ہوا تو میرے اوپر غیب منکشف ہونے لگااور دل میں درد کی ہلکی ہلکی ٹیسیں اٹھنے لگیں۔ وقت گزرتا رہا اور میں دیوانہ وار اپنے کام میں مشغول رہا۔
ایک روز اپنے شریک کار کو ریلوے اسٹیشن چھوڑنے گیا۔ پلٹ فارم پر میرے دل میں درد نے شدت اختیار کر لی اور جیسے جیسے درد میں اضافہ ہوا، دل بڑا ہونا شروع ہو گیا ۔ ریل میں بیٹھے ہوئے میں نے دیکھا میرا دل بتدریج بڑا ہو رہا ہے۔ اور درد کی کسک بڑھ رہی ہے ۔ جسم میں سنسناہٹ دوڑنے لگی۔ میں اس کیفیاتی مشاہدہ سے خوف زدہ ہو گیا۔ ساتھ بیٹھے ہوئے دوست نے میرا چہرہ دیکھا تو ایک دم گھبرا گئے اور مجھ سے بے چین ہو کر پوچھا” تمہیں کیا ہو گیا ہے؟”تمھارا چہرہ ایک دم پھیکا پڑ گیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے تمھارا خون نچوڑ لیا ہے۔ میں اپنا سفر ملتوی کرتا ہوں۔ چلو گھر چلتے ہیں”
میں نے ان سے کہا ” آپ گھبرائیں نہیں، کوئی خاص بات نہیں۔ آپ اپنا سفر خراب نہ کریں” یہ کہہ کر میں تیزی سے اسٹیشن سے باہر آگیا۔
بس میں بیٹھا ہوا تھا کہ میرا دل بڑا ہوتے ہوتے بھینس کے دل جتنا ہو گیا۔ اور آواز کے ساتھ پھٹ گیا۔ اور کٹے ہوئے انار کی طرح اس میں قاشیں بن گیئں۔ ان کاشوں میں سے تیز اور روشن لہریں نکلنے لگیں۔ مین نے دیکھا کہ جہاں تک یہ لہریں جا رہی ہیں ۔ مجھے گرد و نواح اور اطراف میں سب چیزیں نظر آرہی ہیں۔ میں نے یورپ کے بہت سے شہر ، برفانی پہاڑ، کشمیر آسام کے پہاڑ اور زعفران کے کھیت دیکھے۔ جیسے ہی زعفران کے کھیتیوں پر نظر پڑی ، زعفران کی خوشبو پوری پس میں پھیل گئی۔ لوگ حیران ہو کر آگے پیچھے دیکھے جا رہے تھے۔ دو ایک حضرات نے کہا بھی یہ زعفران کی اس قدر مہک کہاں سے آرہی ہے۔ ایک صاحب نے کہا کسی کے پاس زعفران ہو گا۔ میں ان تمام باتوں کو سنتا رہا اور مشاہدات میں مگن رہا۔ میں نے پہلی مرتبہ دل کی ان شعاعوں میں فرشتوں کو مشاہدہ کیا۔ ناظم آباد میں جب بس سے اترا تو حیرت کی انتہا نہیں رہی کہ بس سے میرے ساتھ حضرت حافظ صاحب بھی اترے اور میرے بائیں طرف خاموشی سے چلنے لگے۔ انہیں دیکھ کر میں دہشت زدہ ہو گیا۔ حافظ صاحب نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ اور پھر فورا اوپر اٹھے اور میرے سر کے اوپر فضا میں چلے گئے۔ میں گھر پہنچ کر بے سدھ لیٹ گیا۔ دنیا و مافیہا کی کوئی خبر نہیں رہی اور مجھے نیند آگئی۔ رات کو جب درود شریف پڑھنے بیٹھاتو درود شریف پڑھنے کے دوران محلہ میں سے سلام پڑھنے کی آواز آئی۔ چند منٹ بعد میں نے دیکھا کہ آنکھوں کے سامنے سے ایک پردہ ہٹ گیا اور نظر وہاں جا کر ٹھری جہاں پر درود شریف پڑھا جا رہا تھا۔
میں نے دیکھا کہ ہر طرف سہنری اور روپہلی روشنی پھیلی ہوئی ہے۔ ایک صاف شفاف فرش بچھا ہوا ہے فرش پر تخت بچھا ہے اور تخت پر سرکارِ دو عالم رسالت مآب علیہ الصلوۃ السلام تشریف فرما ہیں۔ میں مخصوص عقیدہ کی وجہ سے سلام میں کھڑے ہونے کا قائل نہیں تھا۔ لیکن اب میرا یہ عقیدہ باطل ہو گیا ۔ اور میں اپنے گھر میں ہی درود شریف پڑھتے پڑھتے مکانیکی طور پر کھڑا ہو گیا۔ اور سلام پڑھنا شروع کر دیا۔
اگلے روز صبح سہروردی سلسلہ کا سبق پڑ رہا تھا کہ میرا دادا، حضرت حافظ صاحب رح، اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رح تشریف لائے اور تھوڑی دیر میرے پاس پیٹھ کر چلے گئے۔
رات کو پھر درود شریف پڑھ رہا تھا کہ دیکھا میرے منہ سے جیسے ہی درور شریف پورا ہوتا ہے۔ ایک بہت ہی خوبصورت سہنرے تھال میں اسے رکھ لیا جاتا ہے۔ اور اس کے اوپر بہت عمدہ خوان پوش ڈھک کر اسے حضور علیہ الصلوۃ السلام تک پہچایا جا رہا ہے۔ میرے گھر سے مدینہ منورہ تک فرشتوں کی ایک جماعت کھڑی ہوئی ہے۔ جیسے ہی درود شریف ختم ہوتا ہے ، وہ فرشتے میرے منہ کے سامنے گول تھال کر دیتے ہیں اور درود شریف تھال میں رکھا جاتا ہے۔ اور وہ تھال دوسرے فرشتے کو بڑھا دیتا ہے۔ دوسرا تیسرے کو اور تیسرا چوتھے کو اسی طرح فرشتوں کی یہ جماعت ایک ہاتھ سے دوسرے کو پہنچا کر دربار حضور علیہ الصلوۃ والسلام میں پہنچا رہی ہے۔ اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام ہاتھ لگا کر قبول فرما رہے ہیں۔ تقریبا تین گھنٹے تک یہ سلسلہ جاری رہا۔
میں نے دل پھٹنے اور مشاہدات کی ساری واردات چودھری صاحب سے بیان کی تو چودھری صاحب نے فرمایا” حافظ صاحب میرے معاملہ میں دخل دینے والے کون ہوتے ہیں”۔
پھر فرمایا ” میرے پاس تین مرتبہ آ چکے ہیں مگر میں اپنے معاملات میں کسی کا دخل پسند نہیں کرتا۔ ”
چودھری صاحب نے تھوڑی دیر کیلئے آنکھیں بند کیں اور ہاتھ کی انگلیوں سے اپنی آنکھوں کو زور سے دبایا اور میرا دل پھر بند ہو گیا۔ اب میں پھر اندھا تھا اور غیب نظر آنا بند ہو گیا۔
رات کو پھر حافظ صاحب تشریف لائے چہرہ سے زبردست جلال ٹپک رہا تھا۔ آپ نے میرے سر کے بالکل بیچ میں زور سے پھونک مار دی۔ اس پھونک کے اثر سے میں زمین سے اچھل پڑا اور میرا دل پھر کھل گیا۔
غصہ کی آواز میں فرمایا۔” اب دیکھو ں گا کہ کیسے بند کرتے ہیں”
جب میں آسمانوں میں فرشتوں کو دیکھنے لگا۔ صبح بس میں بازار جا رہا تھا کہ لسبیلہ کے پُل پر جب بس چڑھی تو دیکھا کہ چودھری صاحب بابا غلام محمد صاحب کو ساتھ لے کر آ گئے۔ بابا غلام محمد صاحب نے میرے دل پر انگلی رکھ دی اور میرادل پھر بند ہوگیا۔ اور غیب میں کام کرنے والی نظر ختم ہو گئی۔
اب حافظ صاحب حضور قلندر بابا اولیاء کے پاس آئے۔ اور ان سے فرمایا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ اب اس معاملہ میں ، میں آپ کی مدد چاہتا ہوں ۔
حضور قلندر بابا اولیاء نے فرمایا” چودھری صاحب میرے پیر بھائی ہے۔ میں اپنے شیخ کے احترام کی وجہ سے کچھ نہیں کر سکتا”
اس افتاد کے بعد میری یہ کیفیت ہو گئی کہ مجھے ہر وقت یہ محسوس ہوتا تھاکہ میرے سر پر کئی ٹن وزن رکھا ہوا ہے۔ سڑک پر چلتے چلتے بیٹھ جاتا تھا۔ بار بار ایسا ہوتا کہ میں چکرا کر زمین پر گر جاتا تھا۔ جسم تیزی کے ساتھ لاغر ہوتا چلا گیا۔ اور اس حد تک لاغر ہوا کہ پنڈلیوں کا گوشت خشک ہو گیا اور میں ہڈیوں کا پنجرہ بن کر رہ گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مجھے سوکھے کی بیماری ہو گئی ہے۔
چھ مہینے اسی حال میں گذر گئے۔ ایک روز میں بازار سے سے واپس آ رہا تھا کہ میرے پیر کے اوپر سے ٹرک کا پہیہ گزر گیا۔ اور میں ٹرک کے نیچے آتے آتے بچا۔ جی میں آیا کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ میں ٹرک کے نیچے آکر ختم ہو جاتا۔ موت کے روٹھ جانے پر گھر آکر میں بہت رویا اور میری ہچکیاں بندھ گئیں اور میں نے اپنے آقا قلندر بابا اولیاء ؒسے عرض کیا۔ ” میرے لئے دعا کیجئے کہ اللہ تعالٰے مجھے اس دنیا سے اٹھالے۔ میں اب بالکل زندہ نہیں رہنا چاہتا۔”
حضور نے تسلی دی اور فرمایا۔” میں حافظ صاحب سے بات کروں گا۔ اور بڑے حضرت جی کی خدمت میں درخواست کروں گا کہ اس معاملہ کو کسی نہ کسی صورت سے حل کریں۔ روئداد طویل ہے۔ مختصرا یہ کہ سلسلہ سہروردیہ اور سلسلہ چشتیہ کے بزرگ آپس میں مل کر بیٹھے۔ حضرت چودھری صاحب سے کہا گیا کہ اپنے اس مرید کو فارغ کر دیں۔ مگر چودھری صاحب نے فرمایا کہ یہ میرا ذاتی معاملہ ہےاور میں اس کو اپنے ذہن کے مطابق تیا ر کرنا چاہتا ہوں۔
جب کوئی بات طے نہیں ہو سکی، اس پر حافظ صاحب نے فرمایا۔” یہ بڑی ہی عجیب بات ہے کہ ایک آدمی محض اس لئے انتظار کرے کہ اسے ایک مخصوص ذہن کے مطابق تیارکیا جائے جب کہ اس کے دادا اس کے لئے ورثہ چھوڑ گئے ہیں اور سیدّنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے منظور بھی کرایا ہے۔ جب میں اس کیس کو عدالت عالیہ میں پیش کروں گا”
حضرت حافظ صاحب نے حضور حسن بصری رح کو اپنا وکیل مقرر فرمایا اور تائید میں جن حضرات نے عدالت عالیہ میں پیش ہونا منظور فرمایا وہ حضرت عبدالقادر جیلانی رح حضرت جنید بغدادی رح، حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رح، حضرت معروف کرخی رح، حضرت امام موسٰی رضارح، حضرت امام حسین رض اور حضرت اویس قرنی رض تھے۔
میں رات کے وقت درود شریف پڑھ رہا تھا۔ میرے پاس ایک فرشتہ آیا اور کہا کہ چلو بڑی سرکارؐ میں آج تمہاری پیشی ہے۔
میں نے دیکھا دو جگ کے سرتاج فخر انبیا، رحمتہ للعالمینؐ تخت پر تشریف فرما ہیں۔ بائیں جانب حضرت اویس قرنی ایستادہ ہیں۔ اور دائیں جانب حضرت حسن بصریرح حضرت جنید بغدادی حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رح، حضرت معروف کرخی رح، حضرت امام موسٰی رضارح، حضرت امام حسینع، حضرت امام حسن ع اور بڑے حضرت جی رح ہیں اور بالکل سامنے چوہدری صاحب اور ان کے پیچھے میں ہوں۔
سیّدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے مقدمہ پیش ہوا۔
حضرت حسن بصری رح صف میں سے نکل کر، نگاہیں نیچے کئے ہوئے سامنے آگئے اور درود و سلام کے بعد عرض کیا۔ یا رسولؐ اللہ؛ میرے موکّل کے دادا نے آپؐ کی منظوری سے اپنے پوتے کیلئےورثہ چھوڑا ہے اور اس ورثہ کو حاصل کرنے کی جو شرط انہوں نے عائد کی تھی وہ میرے موکّل نے پوری کر دی ہے۔ اور میرے موکّل نے سلسلہ چشتیہ میں بیعت بھی حاصل کی ہے اور اس کے شیخ نے چشتیہ، سہروردیہ، نقشبندیہ، قادریہ میں اپنے اس مرید کو بیعت کیا تھا۔ بیعت کے بعد مرید کو یہ بتا دیا گیاتھا کہ تو ان چاروں سلسلوں میں مجھ سے بیعت ہو گیا ہے۔ اب صورت یہ ہےکہ شیخ کے انتقال کے بعدمرید سہروردیہ سلسلہ میں پھر بیعت ہو گیا۔ عرض یہ کرنا ہے کہ حضورؐ کی منظوری کے بعد جب کہ مرید نے شرط پوری کردی ہو، اس کا ورثہ اسے قانونا ملنا چاہیئے۔ مگر سہروردیہ سلسلہ کا ایک فرد جو سلسلہ سہروردیہ میں مقام رکھتا ہے، اس بات پر آمادہ نہیں ہے”
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے دائیں طرف ایستادہ بزرگوں کو دیکھا۔ سب نے تائید کی۔ پھرحضرت چودھری صاحب کی طرف دیکھا۔
حضرت چودھری صاحب دو قدم آگے آئےاور کہا” یارسولؐ اللہ! قانون یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی کا مرید ہو جاتا ہے تو وہ پیر کا حق بن جاتا ہے۔ مجھے قانونا یہ حق حاصل ہے کہ میں جس طرح چاہوں اپنے مرید کی تربیت کروں اور اس قانون پر آپ کے دستخط ہیں”
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے پھر دائیں صف کی طرف دیکھا(جس کا مطلب یہ نکلتا تھا کہ کوئی تائید کرتا ہے یا نہیں)
بڑے حضرت جی صف میں سے باہر آگئے اور حضرت چودھری صاحب کے ساتھ جا کھڑے ہوئے اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت چودھری صاحب کے حق میں فیصلہ دے کر دربار برخاست فرمادیا۔
میرے حالات اب مزید دگرگوں ہوگئے ہر وقت سینہ سے دھواں اٹھتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔ ایک بڑی مصیبت یہ ہو گئی کہ ہر شب بلاناغہ بد خوابی ہو جاتی ہے۔ جس سے رہی سہی جان بھی جواب دے گئی ہے۔ ساتھ ہی پیچش میں بھی مبتلا ہو گیا ہوں۔ کھانا کھاتے ہی اجابت کی ضرورت ہو جاتی ہے۔ نیند کوسوں دور ۔ ہر وقت یاس اور نا امیدی کا غلبہ۔ لوگ ہنستے ہیں تو میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ میں سوچا کرتا ہوں کیا دنیا میں ہنسی بھی کوئی شئے ہے۔ مجھے چپ لگ گئی۔ دل ہر وقت اداس اور بے چین رہتا ہے۔ دنیاکی ہر چیز میرے لئے ناخوشی اور عذاب کا پہلو رکھتی ہے۔ رات کو اندھرے میں اٹھ کر روتا ہوں۔ مر جانے کی دعائیں مانگتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ موت بھی مجھ سے کنارہ کر گئی ہے۔ معمولی سے شور سے دل دہل جاتا ہے۔ کوئی زور سے بات کرتا ہے تو دماغ پر ہتھوڑے کی ضرب پڑتی ہے۔
اس نزاع زدہ زندگی میں تین سال گزر گئے۔ عقیدہ خراب ہو گیا۔ نماز روزہ سب چھوٹ گئے۔ ایک دن خیال آیا کہ اس عبادت کا کیا فائدہ جس کے بارے میں یہ بھی معلوم نہیں کہ قبول ہوئی ہے کہ نہیں۔ اللہ رگ جان سے زیادہ قریب ہے، پھر کیوں آواز نہیں آتی کہ عبادت قبول ہوئی ہے یا رد کر دی گئی ہے۔ اور یہ سوچ کر یکلخت تمام وظائف اور نماز ترک کر دی لیکن چونکہ اتنا عرصہ معمول رہنے کی وجہ سے عادت پڑ گئی تھی، نہ رہا گیا۔ پھر بھی طبیعت پر جبر کر کے کوئی عمل نہیں دُہرایا۔
بہرحال، میں نے مغرب عشاء اور تہجد کوئی نماز ادا نہیں کی۔ البتہ درود شریف کا ورد کرتا رہا۔ عجیب الجھن تھی۔ ساری رات نیند نہیں آئی۔ صبح کی اذان ہو گئی۔ یہ سوچ کر کہ مسجد میں قرآن کا ترجمہ سنوں گا، کچھ تو دل بہلے گا، مسجد میں چلا گیا۔ بہت دل چاہا کہ نماز میں شریک ہو جاوں مگر دماغ تو باغی ہو چکا تھا۔ اور کم بخت ذہن میں گرہ پڑ گئی تھی۔ جس وقت جماعت کھڑی ہوئی تو مسجد کے اندر سے نکل کر باہر صحن میں بیٹھ گیا۔ سخت سردی کے عالم میں آدھا کمبل نیچے اور آدھا اوپر اوڑھ کر بیٹھا رہا۔
ایک صاحب نے کہا ” میاں ! جماعت کھڑی ہو گئی ہے” مگر میں ٹس سے مس نہیں ہوا۔ منہ لپیٹے بیٹھا رہا۔ ذرا سی غنودگی آئی اور میں نے اللہ تعالی کی آواز سُنی۔ فرمایا۔۔۔۔۔۔
“اے میرے بندے! آج تو نے میرے لئے صلوۃ قائم نہیں کی-”
جیسے ہی یہ آواز میرے دماغ میں گونجی میں لرزنے لگا۔ ہاتھ پیروں میں رعشہ آگیا۔ جسم پسینے سے شرابور ہو گیا۔ میں گھبرا کر اٹھا اور جلدی جلدی گھر پہنچا۔ دھڑام سے چارپائی پر گر گیا۔ بہت دیر سوتا رہا یا بے ہوش رہا، یہ اللہ کو پتہ ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 24 تا 32
جنت کی سیر کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔