حیات و ممات پر کس طرح یقین کریں؟
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=13994
’’پھر ہم نے قوم نوح ؑ کے بعد قوموں کا ایک ایسا دوسرا دور پیدا کر دیا، ان میں بھی اپنا رسول بھیجا جو خود انہی میں سے تھا لیکن (اس کی پکار بھی یہی تھی) کہ اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، کیا تم (انکار و فساد کے نتائج بد سے) ڈرتے نہیں اس کی قوم کے جن سرداروں نے کفر کی راہ اختیار کی تھی اور آخرت کے پیش آنے سے منکر تھے اور جنہیں دنیا کی زندگی میں ہم نے آسودگی دے رکھی تھی، کہنے لگے اس سے زیادہ اس کی کیا حقیقت ہے کہ تمہارے جیسا ایک آدمی ہے جو تم کھاتے ہو یہ بھی کھاتا ہے، جو تم پیتے ہو یہ بھی پیتا ہے، اگر تم نے اپنے ہی جیسے آدمی کی اطاعت کر لی تو بس سمجھ لو کہ تم تباہ ہوئے۔ تم سنتے ہو یہ کیا کہتا ہے یہ تمہیں امید دلاتا ہے کہ جب مرنے کے بعد محض مٹی اور ہڈیوں کا چورا ہو جاؤ گے تو پھر تمہیں موت سے نکالا جائے گا۔ کیسی ان ہونی بات ہے جس کی تمہیں توقع باقی ہے۔ زندگی تو بس یہی زندگی ہے جو دنیا میں ہم بسر کرتے ہیں۔ یہیں مرنا ہے یہیں جینا ہے، ایسا کبھی ہونے والا نہیں کہ مر کر پھر جی اٹھیں گے۔ کچھ نہیں یہ ایک مفتری آدمی ہے جس نے اللہ کے نام سے جھوٹ موٹ بات بنا دی ہے ہم کبھی اس پر یقین لانے والے نہیں۔‘‘
(سورۃ المومنون۔۳۱ ،۳۸)
اس پر رسول نے دعا مانگی:
’’خدایا! انہوں نے مجھے جھٹلایا پس تو میری مدد کر۔‘‘
حکم ہوا:
’’عنقریب ایسا ہونے والا ہے کہ یہ اپنے کئے پر شرمسار ہونگے، چنانچہ پھر حقیقتاً ایک ہولناک آواز نے انہیں آ پکڑا اور ہم نے خس و خاشاک کی طرح انہیں پامال کر دیا تو محرومی ہو اس گرو ہ کے لئے کہ ظلم کرنے والا ہے۔‘‘
(سورۃ المومنون: ۳۲۔۴۱)
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 93 تا 94
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔