زمین کی فریاد
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=13905
طوفان نوح سے پہلے جو حالات تھے آج کے دور میں شباب پر ہیں، اس وقت زمین کی آہ و بکا کسی نے نہیں سنی، آج پھر زمین کراہ رہی ہے، زمین اب فساد، تعفن، لالچ، خود غرضی اور دنیا پرستی کے عذاب کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ زمین خود کو سڑے ہوئے اجسام سے پاک کرنا چاہتی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ طوفان نوح کی طرح زمین پر ۱۷ یا ۱۸ طوفان آ چکے ہیں اور زمین اب مزید طوفانوں کی زد میں ہے۔
اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان خود غرضی کے خول سے باہر آ جائے، دوسرے آدمیوں کو اپنی طرح کا آدمی سمجھے، حرص و ہوس اور لالچ سے خود کو آزاد کرے، سود کی لعنت ختم ہو جائے، اللہ کی دشمنی ترک کر کے اللہ سے دوستی کی جائے، ایثار و خلوص کی قدریں بحال ہو جائیں، دولت پرستی جو شرک ہے اس سے توبہ و استغفار کر کے اللہ کو ہی رازق سمجھا جائے، عریانی، فحاشی، جسم فروشی اور توہین آمیز رویے سے اجتناب کیا جائے، پیغمبرانہ طرز فکر کو اپنا کر توحید اور رسالت کے روشن اور منور راستے پر قدم قدم آگے بڑھایا جائے، اس وقت بظاہر یہ سب باتیں خوش کن ضرور نظر آتی ہی،ں لیکن دین کا احیاء بھولا بسرا خواب نظر آتاہے کیونکہ ہر شخص دوسروں کی اصلاح اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے لیکن خود اپنی اصلاح کے لئے کچھ نہیں کرتا، آج کا سائنسدان جو بلا شبہ نوع انسانی کا ایک فرد ہے خود اپنی اور اپنی نوع کا دشمن بن گیا ہے۔ ایک ایک بم لاکھوں انسانوں کی تباہی و ہلاکت کا ذریعہ ہے، اتنے ایٹم بم زمین کے سینے پر جمع کر دیئے گئے ہیں کہ پوری زمین پر اتنے شہر آباد نہیں ہیں۔ قانون یہ ہے کہ جب کوئی چیز وجود میں آ جاتی ہے اور بن جاتی ہے تو اس کا استعمال ضروری ہو جاتا ہے، جب یہ بم تباہی پھیلائیں گے تو زمین جل کر خاکستر ہو جائے گی، زمین کی گود اجڑ جائے گی، اقتدار کی خواہش پوری کرنے کے لئے امن کے نام پر جو آگ کے الاؤ اور چھپی ہوئی آگ کی بھٹیاں بنائی جا رہی ہیں کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان خود کو جہنم واصل کرنا چاہتا ہے؟
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 84 تا 85
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔