نوحؑ کا بیٹا
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=13833
حضرت نوحؑ نے طوفانی عذاب کے وقت اپنے بیٹے ’’یام‘‘ کی حفاظت کیلئے اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اور نوحؑ نے اپنے رب کو پکارا اور کہا کہ اے پروردگار! میرا بیٹا میرے اہل ہی میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تو بہترین حاکموں میں سے ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اے نوح! یہ تیرے اہل میں سے نہیں ہے یہ بدکردار ہے پس تجھ کو ایسا سوال نہ کرنا چاہئے جس کے بارے میں تجھ کو علم نہ ہو، میں بلاشبہ تجھ کو نصیحت کرتا ہوں کہ تو نادانوں میں سے نہ بن۔‘‘
حضرت نوحؑ نے عرض کیا:
’’اے رب! بلاتردد میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ تجھ سے سوال کروں اس بارے میں جس کے متعلق مجھے علم نہ ہو اور اگر تو نے معاف نہیں کیا اور رحم نہیں کیا تو میں نقصان اٹھانے والوں میں ہونگا۔‘‘
حکم الٰہی ہوا:
’’اے نوحؑ ہماری جانب سے تو اور تیرے ہمراہی ہماری سلامتی اور برکتوں کے ساتھ زمین پر اترو۔‘‘
(سورۃ ہود۔۴۵، ۴۸)
اللہ کے کلام سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ فلاح اور بھلائی کے حصول اور عذاب الٰہی سے نجات کا تعلق نسل و خاندان سے ہے اور نہ دولت و منصب سے اس کا کوئی واسطہ ہے بلکہ اس کا تعلق ’’ایمان اور یقین‘‘ سے ہے۔
شفقت پدری کے تحت آخری وقت پر حضرت نوح ؑ نے بیٹے کو ایمان لانے کی دعوت دی لیکن اس نافرمان نے جواب دیا:
’’میں لگ رہوں گا کسی پہاڑ کو، کہ بچا لے گا مجھ کو پانی سے۔‘‘
حضرت نوح ؑ نے کہا:
’’آج کوئی بچانے والا نہیں ہے صرف وہی بچے گا جس پر اللہ کا رحم ہو جائے اس دوران ان دونوں کے درمیان موج حائل ہو گئی اور وہ غرق ہونے والوں میں سے ایک ہو گیا۔‘‘
(سورۃ ہود۔ ۴۳)
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 74 تا 75
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔