نوح کی کشتی
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=13823
اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح ؑ کی دعا قبول کی اور حضرت نوح ؑ کو ہدایت فرمائی کہ وہ ایک کشتی تیار کریں تا کہ مومنین اس عذاب سے محفوظ رہیں جو اللہ کے نافرمانوں پر نازل ہونے والا ہے، حضرت نوح ؑ نے لکڑی کے تختوں سے کشتی بنانا شروع کر دی، انجیل کی روایت کے مطابق کشتی تین سو کیوبٹ لمبی، پچاس کیوبٹ چوڑی اور تیس کیوبٹ اونچی تھی۔ کیوبٹ کیا ہے؟ یعنی کس قسم کی پیمائش ہے اس کا کچھ پتہ نہیں چلتا، بہرحال محققین نے لمبائی، چوڑائی اور اونچائی کے درمیان جو نسبت بتائی ہے اس کو فٹ میں تبدیل کرنے سے یہ نتیجہ مرتب ہوتا ہے کہ کشی کی لمبائی ۴۵۰ فٹ، چوڑائی ۷۵ فٹ اور اونچائی ۳۰ فٹ تھی۔
انجیل کے بعض قدیم نسخوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کناروں سے کشتی جھکاؤ لیتے ہوئے بتدریج اوپر کی طرف اٹھائی گئی تھی یہاں تک کہ دونوں کنارے ۳۰ فٹ اوپر جا کر اس طرح ایک دوسرے کے قریب آ گئے تھے کہ اوپر محض ایک کیوبٹ جگہ باقی بچی تھی۔
کشتی کا فرش مستطیل تھا یعنی ۷۵ فٹ چوڑا اور ۴۵۰ فٹ لمبا، کشتی کئی منزلہ تھی جدید دور کے ماہرین جہاز سازی کا خیال ہے کہ یہ کشتی ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کی ایک بہترین مثال تھی کشتی کو ہوا، طوفانی پانی، بارش، کیچڑ اور مٹی میں پھنسنے سے محفوظ رکھنے کے لئے اس سے بہتر پیمائش ممکن نہیں تھی۔ اس پیمائش سے بنائی گئی کشتی کیسی ہو گی؟ اس کی مثال ۱۸۴۴ میں ایک شخص I.K.Bruvelنے گریٹ بریٹن نامی ایک جہاز بنایا تھا جو کشتی نوح کی پیمائش رکھتا تھا۔ جس نے سینکڑوں کامیاب سمندری سفر کئے اور بے شمار سمندری طوفانوں کا مقابلہ کامیابی کے ساتھ کیا۔ آج بھی بڑے بڑے آئل ٹینکر اسی طریقہ پر بنائے جا رہے ہیں۔
سورۃ یٰسین کی آیت نمبر ۴۱ سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ اس سے پہلے انسان اس بات سے واقف نہ تھا کہ دریاؤں اور سمندروں کو کس طرح عبور کیا جائے۔ حضرت نوح ؑ کے دور میں تیار کی جانے والی یہ کشتی نوع انسانی کی پہلی کشتی تھی۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت نوحؑ کو یہ علم عطا کیا اور آپ نے آج سے ہزاروں سال قبل جو کشتی تیار کی وہ ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کا شاہکار تھی ایسی اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی جو آج بھی کار آمد ہے اور یہ فن نوع انسانی کی اگلی نسلوں کو منتقل ہوتا رہا آج بھی موجود ہے اور آئندہ بھی منتقل ہوتا رہے گا۔
حضرت نوحؑ کو کشتی کی تیاری میں مصروف دیکھ کر کفار نے تمسخر اڑایا، جب کبھی ان کا ادھر سے گذر ہوتا تو وہ آوازیں کستے اور غرور و تکبر سے گستاخی کے مرتکب ہوتے، آخر سفینۂ نوح تیار ہو گیا، اللہ کے عذاب کا وقت قریب آیا تو حضرت نوح ؑ نے پہلی علامت یہ دیکھی کہ پانی ابلنا شروع ہو گیا ہے۔
حضرت نوحؑ کو حکم ہوا کہ اپنے ماننے والوں کے ہمراہ کشتی میں سوار ہو جائیں اور ہر جاندار کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لیں۔ جب وحی الٰہی کی تعمیل ہو گئی تو حکم ہوا:
’’اے پانی! برسنا شروع ہو جا۔‘‘
اور زمین کے چشموں کو حکم دیا گیا کہ:
’’وہ پوری طرح ابل پڑیں۔‘‘
بادو باراں کے اس عظیم طوفان میں کشتی بحفاظت تیرتی رہی، طوفانی ہواؤں اور بارش کا سلسلہ ایک مدت تک جاری رہا یہاں تک کہ تمام منکرین توحید غرق آب ہو گئے اور ’’مکافات عمل‘‘ کے قانون کے مطابق اپنے انجام کو پہنچ گئے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 73 تا 74
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔