حکمت
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=13777
حضرت ادریسؑ کی بیان کردہ حکمت اور ان کے علوم پر تفکر کیا جائے تو منکشف ہوتا ہے کہ اللہ کی تفویض کردہ امانت صرف انسان کے پاس ہے امانت، خلافت و نیابت کے علوم اور تسخیر کائنات کے فارمولے ہیں، ان فارمولوں سے انسان کے اندر تخلیقی صلاحیتیں بیدار ہو گئی ہیں۔ آدم زاد ان صلاحیتوں کے ذریعے نفع اور نقصان کے دونوں کام کر سکتا ہے۔ طرز فکر اگر صحیح ہے اور انبیائے کرام اور ان کے وارث اولیاء اللہ سے ہم آہنگ ہے تو جو بھی عمل صادرہوتا ہے یا جو بھی نئی تخلیق سامنے آتی ہے وہ مخلوق کے لئے سکون، آرام، راحت اور خوشی کا باعث ہوتی ہے اور طرز فکر اگر محدود ہے ذاتی منفعت اور انفرادی اغراض کے خول میں بند ہے تو تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال کسی بھی طرح اجتماعی طور پر یا انفرادی حیثیت سے نوع انسانی کے لئے فائدہ مند نہیں ہے۔ انبیاء کرام کی طرز فکر میں یہ بات راسخ ہوتی ہے کہ ہمارا مالک و مختار اللہ ہے۔ ہر شئے سے دوسری شئے کا رشتہ اللہ کی معرفت قائم ہے،انبیاء کرام کی سوچ لامحدود ہوتی ہے۔ اللہ کے فرستادہ بندوں کی طرز فکر سے جو تخلیقات ظہور میں آتی ہیں ان سے مخلوق کو فائدہ ہوتا ہے، انبیاء کرام مظاہر ک پس پردہ کام کرنے والی حقیقت سے باخبر ہوتے ہیں، حقیقت میں انتشار نہیں ہوتا، حقیقت کے اوپر غم اور خوف کے سائے نہیں منڈلاتے، حقیقی دنیا سے متعارف بندے ہمیشہ پرسکون رہتے ہیں۔ حقیقی علوم سے واقف برگزیدہ ہستیوں کے بتائے گئے سسٹم پر عمل کرنے سے نوع انسانی کو سکون ملتا ہے۔ قرآن پاک کی سورۃ بقرہ کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’یہ کتاب ان لوگوں کے لئے ہدایت ہے جو متقی ہیں اور متقی وہ لوگ ہیں جو غیب پر یقین رکھتے ہیں، غیب پر یقین رکھنے سے مراد غیب کا مشاہدہ ہے، یقین کی تکمیل مشاہدہ کے بغیر نہیں ہوتی۔‘‘
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 67 تا 67
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔