ذیلی تخلیقات
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=13668
’’خالقین‘‘ کا لفظ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور بھی تخلیق کرنے والے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی تخلیق کے علاوہ دوسری ہر تخلیق وسائل کی پابند اور محتاج ہے۔ اس کی مثال آج کے دور میں بجلی سے دی جا سکتی ہے۔ جب بندوں نے بجلی سے دوسری ذیلی تخلیقات کو وجود میں لانا چاہا تو لاکھوں چیزیں وجود میں آ گئیں۔
اللہ تعالیٰ کا یہ وصف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک لفظ ’’کن‘‘ کہہ کر بجلی کو وجود بخش دیا۔ آدم نے اختیاری طور پر جب بجلی کے علم کے اندر تفکر کیا تو اس بجلی سے ہزاروں لاکھوں چیزیں وجود میں آ گئیں۔
بجلی سے جو چیزیں وجود میں آئیں وہ انسان کی تخلیق ہیں مثلاً ریڈیو، ٹی وی، ٹیلی فون، لاسلکی نظام، کمپیوٹر، مواصلاتی سیارے اور بے شمار دوسری چیزیں۔
روحانی نقطۂ نظر سے اللہ کی اس تخلیق میں سے دوسری ذیلی تخلیقات کا مظہر بننا دراصل آدم زاد کا بجلی کے اندر تصرف ہے۔ یہ وہی علم ہے جو اللہ تعالیٰ کے حضرت آدمؑ کو سکھا دیا تھا۔ علم الاسماء سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو ایک ایسا علم سکھا دیا جو براہ راست تخلیقی فارمولوں سے مرکب ہے۔ جب انسان اس علم کو گہرائی کے اندر جا کر حاصل کرتا ہے اور اس علم کے ذریعے تصرف کرتا ہے تو نئی نئی چیزیں وجود میں آ جاتی ہیں۔
کائنات دراصل علم ہے۔ ایسا علم جس کی بنیاد اور حقیقت سے اللہ تعالیٰ نے بندوں کو واقف کر دیا ہے لیکن اس وقوف کو حاصل کرنے کے لئے ضروری قرار دے دیا گیا ہے کہ بندے علم کے اندر تفکر کریں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ ہم نے لوہا نازل کیا اور اس کے اندر لوگوں کے لئے بے شمار فائدے محفوظ کر دیئے ہیں۔
جن لوگوں نے لوہے (بمعنی دھات) کی حیثیت اور طاقت کو تسلیم کر کے لوہے کے اندر گہرائی میں تفکر کیا تو لوہے کی لامحدود صلاحیتیں سامنے آ گئیں۔ اور جب ان صلاحیتوں کو استعمال کر کے لوہے کے اجزائے ترکیبی کو متحرک کر دیا تو لوہا ایک ایسی عظیم شئے بن کر سامنے آیا جس سے موجودہ سائنس کی ہر ترقی کسی نہ کسی طرح وابستہ ہے۔ یہ ایک تصرف ہے جو وسائل میں کیا جاتا ہے یعنی ان وسائل میں جن وسائل کا ظاہر وجود ہمارے سامنے ہے۔
جس طرح لوہا ایک وجود ہے اسی طرح روشنی بھی ایک وجود ہے۔ وسائل کی حدود سے گزر کر یا وسائل کے علوم سے آگے بڑھ کر جب کوئی بندہ روشنیوں کا علم حاصل کر لیتا ہے تو بہت ساری تخلیقات وجود میں لا سکتا ہے۔ وسائل میں محدود رہ کر ہم سونے کے ذرات کو اکٹھا کر کے ایک خاص پروسیس(Process) سے گزار کر سونا بناتے ہیں۔ لوہے کے ذرات اکٹھا کر کے خاص پروسیس(Process) سے گزار کر ہم لوہا بناتے ہیں۔ لیکن وہ بندہ جو روشنیوں میں تصرف کرنے کا اختیار رکھتا ہے اس کے لئے سونے کے ذرات کو مخصوص پروسیس سے گزارنا ضروری نہیں ہے۔ وہ اپنے ذہن میں روشنیوں کا ذخیرہ کر کے ان مقداروں کو الگ کر لیتا ہے جو مقداریں سونے کے اندر کام کرتی ہیں اور ان مقداروں کو ایک نقطہ پر مرکوز کر کے ارادہ کرتا ہے۔ سونا ہو جا اور سونا بن جاتا ہے۔
ہم بتا چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی تخلیق میں کسی کے محتاج نہیں ہیں۔ جب وہ کوئی چیز تخلیق کرتے ہیں تو تخلیق کے لئے جتنے وسائل موجود ہونا ضروری ہیں وہ خود بخود موجود ہو جاتے ہیں۔ بندے کا تصرف یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی تخلیق میں تصرف کرتا ہے۔
اس تصرف کے دو طریقے ہیں۔ ایک طریقہ وسائل میں محدود رہ کر وسائل کو مجتمع کر کے کئی نئی چیز بنانا ہے اور دوسرا طریقہ روشنیوں میں تصرف کرنا ہے۔ یعنی کوئی چیز جن روشنیوں پر قائم ہے ان روشنیوں کو متحرک کر کے کسی چیز کو تخلیق کرنا۔ روحانی دنیا میں ان روشنیوں کا نام ’’نسمہ‘‘ ہے اور سائنسی دنیا ان روشنیوں کے عکس کو اورا (Aura) کہتی ہے۔
انسان اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی تخلیق ہے جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تصرف کرنے کی قدرت رکھتی ہے اور یہ علم اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے منتقل ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ یہ بات جانتے ہیں کہ انسان سے ذیلی تخلیقات وجود میں آتی رہیں گی اس لئے اللہ تعالیٰ نے خود کو ’’احسن الخالقین‘‘ فرمایا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 49 تا 51
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔