پیش لفظ
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=13618
بڑے ،بوڑھے اور بزرگوں کا کہنا ہے کہ ہر انسان کی زندگی کا کوئی ایک مقصد ہوتا ہے۔ اگر زندگی بامقصد نہ ہو تو انسان آدمیت کے دائرے میں تو رہتا ہے لیکن انسانوں میں اس کا شمار نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں آدم کی تعریف انسان اور آدم کے نام سے کی ہے۔ اس وقت جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صفات کا علم نہیں سکھایا تھا آدم کے نام سے پکارا ہے۔
اور جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صفات اور کائناتی علوم کے اسرار و رموز سکھائے تو فرشتوں سے کہا کہ آدم کی حاکمیت قبول کرو۔
اللہ تعالیٰ جب تخلیق کا تذکرہ فرماتے ہیں تو طرح طرح کی مثالوں سے تخلیقی سسٹم سے روشناسی عطا فرماتے ہیں اور انسان کے بارے میں فرماتے ہیں:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ
یعنی اربوں کھربوں تخلیقات میں ایک واحد تخلیق انسان احسن تقویم ہے۔ احسن تقویم کا مطلب ہے انسان اللہ کی بہترین صناعی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف اس لئے کہا ہے کہ سموٰت، زمین اور ان دونوں کے اندر جو کچھ ہے سب کا سب انسان کے تابع کر دیا ہے۔ کائنات تزئین و آرائش کے روشن وسائل۔۔۔۔۔۔سورج، چاند، ستارے سب انسان کے محکوم ہیں۔ اور یہ حاکمیت اس علم کی بنیاد پر ہے جو علم اللہ تعالیٰ نے آدم کو سکھایا ہے۔ آدم کے علاوہ کسی دوسری مخلوق کو یہ علم اللہ تعالیٰ نے منتقل نہیں فرمایا۔
جہاں تک مقصدیت کا تعلق ہے مقاصد کی بہت ساری طرزیں ہیں۔ مثلاً ایک طرز یہ ہے کہ بچہ اپنی زندگی کا مقصد نہ جانتے ہوئے بھی ماں کے گرد طواف کرتا ہے۔ بچے میں ماں کے بغیر زندگی کا تصور نہیں ابھرتا۔ اسی طرح ماں کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ جب تک بچہ اس قابل نہیں ہو جاتا کہ وہ خود کو سنبھال سکے۔ ماں اس کو خود سے چمٹائے رکھنے پر خود کو پابند محسوس کرتی ہے۔ بارہ سال کے بچے میں نامکمل مقصدیت کا اظہار ہوتا ہے۔ وہ مقصد پورا کرنے کے لئے راہنمائی اور تعاون کی اشد ضرورت محسوس کرتا ہے۔
حالانکہ ضرورت کا اسے علم نہیں ہوتا۔ بلوغت اور شعوری بالیدگی کے بعد اس کے اندر کچھ کرنے کا، کچھ بننے کا، کسی مقام پر پہنچنے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ اور اس جذبے کو وہ ’’مقصد‘‘ کا نام دیتا ہے۔ جوانی سے انحطاط کے دور تک وہی بچہ جسے مقصد کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا۔ گھریلو زندگی بسر کرتا ہے اور اس گھریلو زندگی کا مقصد اس کے سامنے آسائش و آرام، بیوی بچے اور ان کی تعلیم و تربیت ہوتا ہے۔ انحطاط کے بعد سارے مقاصد کی عمارت بوسیدہ ہونا شروع ہو جاتی ہے اور دماغ بقا کے بجائے فنا کے خیال میں مصروف ہو جاتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ بقا فنا بن جاتی ہے اور فنا کے بعد کچھ پتا نہیں کیا ہوتا ہے۔ اس لئے کہ جو بھی آدمی یہاں سے چلا گیا ہے اس نے واپس آ کر نہیں بتایا کہ وہاں اس کے ساتھ کیا گزری، وہاں کے ماہ و سال کیسے ہیں اور زندگی کی کن ضابطوں، کن طریقوں اور کن رویوں پر قائم ہے۔
ہمارے پاس دس ہزار سال سے زیادہ کی تاریخ نہیں ہے اور واقعہ یہ ہے کہ ہم جب پانچ ہزار سال کا ذکر کرتے ہیں تو تاریخ کے حوالے میں دو ہزار سال قبل مسیح کا لفظ استعمال کرنا پڑتا ہے۔
دنیا کب بنی؟ اس دنیا میں کتنے لوگ پیدا ہوئے۔ کتنے لوگوں نے اپنا مقصد پورا کیا۔ کتنے لوگ بامراد اور نامراد مر گئے۔ ہمارے پاس اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ جیسا منہ ویسی بات۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ دنیا تین ارب سال پہلے بنی تھی۔ کوئی کہتا ہے یہ دنیا کروڑوں سال سے ہے۔ کوئی کہتا ہے لاکھوں سال پہلے سے ہے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ دو ہزار سال بعد ہمارے اوپر الفاظ کی کمی کا اتنا دباؤ ہے کہ ہم قبل مسیح کا لفظ استعمال کرنے پر مجبور ہیں لیکن قبل مسیح کے بعد بھی ہمیں تاریخ میں ایک تسلسل اور ایک تواتر ملتا ہے اور وہ تسلسل انبیاء کرام کی مقدس ہستیوں کا ہے۔ حضرت آدمؑ ، حضرت نوحؑ ، حضرت ابراہیمؑ ، حضرت اسماعیلؑ ، حضرت اسحٰقؑ ، حضرت داؤدؑ ، حضرت سلیمانؑ ، حضرت موسیٰ ؑ ، حضرت عیسیٰ ؑ اور آخری نبی سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی مسلسل سند ہمارے پاس موجود ہے۔ جو تاریخ کا ایک واضح روشن اور بین ثبوت ہے۔
پیغمبروں کی تعلیمات پر غور و فکر ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ سارے پیغمبروں نے مشترکہ طور پر نوع انسانی کو اچھائی اور برائی کے تصور سے نہ صرف آگاہ کیا ہے بلکہ خود اس پر عمل کر کے یہ تصدیق باہم پہنچائی ہے کہ انسان اچھائی اور برائی میں تفریق کر کے ہی بامقصد زندگی گزارتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے ایک اللہ وحدہ لا شریک کا تعارف کروایا ہے اور بتایا ہے کہ یہی وہ ہستی ہے جس کی پرستش کی جاتی ہے اور کی جانی چاہئے۔
اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں بھائی چارہ چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کا بے سکون رہنا پسند نہیں کرتے۔ لیکن پیدائش کے بعد کھلے میدان میں نہیں چھوڑ دیتے۔ زندگی کے جتنے وسائل ہیں۔ پیدا کرتے ہیں، مہیا کرتے ہیں اور اتنے زیادہ پیدا کرتے ہیں کہ ان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ اپنے پسندیدہ اور برگزیدہ بندوں کو تعلیم کا حکم دیتے ہیں۔
ان کے راستے پر چلنے کو اپنا راستہ قرار دیتے ہیں۔ پیغمبران علیہم السلام کی زندگی کو مشعل راہ بتاتے ہیں۔
پیغمبروں کی زندگی پر تفکر کیا جائے تو ان میں صراط مستقیم پر قائم رہنے اور صراط مستقیم کی دعوت دینے کا بھرپور عزم ہوتا ہے۔
پیغمبر عفو و درگزر سے کام لیتے ہیں۔ پیغمبر حق تلفی نہ کرنے کا درس دیتے ہیں۔ پیغمبروں کی زندگی کے ماہ و سال اور نشیب و فراز کو آسمانی کتابوں نے بیان کیا ہے۔ آخری کتاب قرآن پاک میں بھی پیغمبروں کا کہیں مجمل اور کہیں تفصیلی تذکرہ موجود ہے۔ لوگ انہیں قصص القرآن قصص الانبیاء کا نام دے کر پڑھتے ہیں۔
میں مولف کتاب رسول اللہ محمدﷺ جلد سوئم یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ ہمیں کہانیاں سنائیں۔ اللہ تعالیٰ حکیم و خبیر ہے۔ اس کی ہر بات میں حکمت ہے۔ اس کے ہر کام میں قدرت ہے۔ اس کے ہر کام میں دانش ہے، تعلیم ہے، ہدایت پانے کے لئے جدوجہد کے اصول ہیں۔
انبیاء کرام سے متعلق جتنے بھی قصص ہیں۔ ہر قصے میں جہاں توحید پرستی کا اعلان ہے وہاں شرک اور بت پرستی کی نفی ہے۔ حقوق العباد کی تعلیم ہے۔ نوع انسانی کے لئے تسخیر کائنات کا مژدہ ہے۔ وہاں تسخیر کائنات کے اسرار و رموز اور فارمولے بتائے گئے ہیں۔
مثلاً حضرت آدمؑ کے قصے میں مونث اور مذکر کا تخلیقی راز پنہاں ہے۔ حضرت نوحؑ کے قصے میں پائیدار کشتی بنانے کا طریقہ کار موجود ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کے قصے میں مردہ زندہ کرنے کا قانون موجود ہے۔ حضرت اسماعیلؑ کے قصے میں خواب کے مخفی رازوں کا ذکر ہے۔ حضرت داؤدؑ کے قصے میں لوہے کی ایجادات کا ظہور اور لیزر شعاعوں کے فارمولے کا ذکر ہے۔ حضرت سلیمانؑ کے قصے میں ٹائم اسپیس کے فارمولے کی طرف اشارہ ہے۔ ہوا، جنات اور چرند، پرند پر تسخیر کا ذکر ہے۔ حضرت ہودؑ کے قصے میں ان کی قوم پر آسمانی آفات مثلاً طوفان، گرد غبار اور زلزلے آنے کا بیان ہے۔ حضرت ادریسؑ کے قصے میں ٹاؤن پلاننگ ناپ تول کا نظام اور حکومت سازی کا تذکرہ ہے۔ حضرت یوسفؑ کے قصے میں کشش ثقل کو کم کرنے کا قانون اور اس قانون کے ذریعے غلہ ذخیرہ کرنے کے گودام (اہرام) بنانے کا طریقہ کار، سیاروں اور علوم نجوم کا ذکر ملتا ہے۔ حضرت عزیرؑ کے قصے میں ڈیپ فریزر کا قانون، مائیکروویوفریکوئنسی اور آکسیجن کا زندگی سے تعلق کا ذکر ہے۔ حضرت یوشعؑ کے قصے میں کسی چیز کو توڑنے میں آواز کی فریکوئنسی کے قانون کا تذکرہ ملتا ہے۔ حضرت صالحؑ کے قصے میں آواز کے قانون کا ذکر ملتا ہے۔ حضرت ذکریاؑ کے قصے میں تصرف کرنے کا قانون بتایا گیا ہے۔ اصحاب کہف کے قصے میں حیات بعد از ممات کا ذکر موجو دہے۔ حضرت موسیٰ ؑ کے قصے میں جادو سحر اور تصرف کے طریقہ کار کا تذکرہ ملتا ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے قصے میں مسیحائی کا قانون بیان کیا گیا ہے جبکہ حضرت مریمؑ کے قصے میں غیب سے رزق فراہم ہونے کا تذکرہ ہے۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا شق القمر کرنا اور یہ انکشاف ہے کہ جس طرح آدمی باہم گفتگو کرتے ہیں اسی طرح ساری مخلوق، شجر و حجر باتیں کرتے ہیں۔ انسان اگر پرندوں اور اشجار کی زبان کا علم سیکھ لے تو وہ ان سے گفتگو کر سکتا ہے۔
اس عاجز بندے کو بھی زندگی کا ایک مقصد نظر آیا۔ ہوا یوں کہ مقصد زندگی سے واقف ایک بزرگ ہستی کی سرپرستی حاصل ہو گئی۔ اس بزرگ ہستی نے بتایا کہ انسان آدم کا بیٹا ہے اور قانون یہ ہے کہ باپ کی وراثت بیٹے کو منتقل ہوتی ہے۔ آدم کی خلافت وہ علوم ہیں جو کائنات میں آدم کے علاوہ کوئی نہیں جانتا اور ان ہی علوم کی بنا پر نیابت اور خلافت کا شرف آدم کو حاصل ہے۔ آسمانی کتابوں اور آخری کتاب قرآن میں ان علوم کو ’’علم الاسماء‘‘ کہا گیا ہے۔ علم الاسماء میں تخلیقی راز و نیاز، فنا و بقا کے مرحلے، حیات بعداز موت، حشر و نشر، جنت دوزخ اور دونوں جہاں میں (دنیا و آخرت) پر سکون رہنے کے آداب اور طریقے موجود ہیں۔ ان طریقوں کا خلاصہ یہ ہے کہ آدمی کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے اور کائنات کے خالق کو پہچانے، بندے کو قادر مطلق رحمٰن و رحیم اللہ کا عرفان حاصل ہو۔ اگر اللہ کو کسی بندے نہیں جانا یا اللہ کی نشانیوں پر غور کر کے اللہ کی پھیلائی ہوئی آسمانی و زمینی آرائش کا مطالعہ نہیں کیا تو اس بندے نے زندگی کے مقصد سے انحراف کیا اور زندگی کے مقصد سے انحراف کرنے والا آدم کا بیٹا کبھی آدم کا وارث نہیں ہوا ہے اور نہ ہو گا۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں!
’’اور ہم نے آسمان کو بروج سے زینت بخشی دیکھنے والوں کے لئے۔۔۔۔۔۔اور چھپا لیا ہم نے اس خوبصورت آرائش اور زینت کو شیطان مردود سے۔‘‘
قرآن کریم کا اعجاز یہ ہے کہ قرآن ہر بات کو کھول کر اور واضح کر کے بیان کرتا ہے تا کہ نوع انسانی کا کوئی گروہ ایسا نہ ہو جو کہے کہ ہمیں بات سمجھ میں نہیں آئی۔
قرآن پاک میں یہ بھی ارشاد ہے۔
’’پس خرابی ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں سے بے خبر ہیں۔‘‘
یعنی نماز تو وہ پڑھتے ہیں لیکن انہیں نماز میں حضوری قلب نہیں ہوتا۔
اس رہنما بزرگ ہستی کے ان کلمات نے قلب پر اثر کیا اور زندگی کا نہج بدل گیا۔ تلاش و جستجو کے جذبات گہرے ہو گئے۔
اس تلاش میں یہ عقدہ کھلا کہ زندگی کا مقصد ’’عرفان الٰہی‘‘ اس وقت نصیب ہوتا ہے جب اسوہ رسولﷺ پر عمل کرنے کی توفیق ملے۔ رہنما ہستی نے اس کا طریقہ یہ بتایا کہ رسول اللہﷺ پر درود و سلام کی کثرت اللہ کے محبوب سے ملاقات کا شرف عطا کرتی ہے۔ ہمت جوان تھی، شوق و جذبہ بھرپور تھا، عقیدت کا سمندر موجزن تھا، پشت پر ہادی و رہنما کا ہاتھ تھا، دل میں گداز تھا، آنکھوں میں نمی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی مہربانی شامل ِحال تھی۔ امتی ہونے کی وجہ سے حضورﷺ کی نسبت حاصل تھی کہ توفیق مل گئی۔
طریقہ کار یہ طے ہوا کہ عشاء کی نماز کے بعد سے صبح صادق تک درود شریف پڑھا جائے۔ مرشد کریم قلندر بابا اولیاءؒ کی نسبت رسول اللہﷺ کی رحمت، اللہ تعالیٰ کی عنایت اور میرے والدین کی دعا نے اثر دکھایا۔ ایک روز دیکھا کہ
یہ عاجز، گناہ گار بندہ درود شریف پڑھ رہا ہے۔ درود شریف جیسے ہی پورا ہوتا ہے منہ کے سامنے یاقوت و زمرد سے مرصع سونے چاندی کی ٹرے آ جاتی ہےاور درود شریف موتیا کے پھولوں کی شکل بن جاتے ہیں۔ یہ ٹرے ایک فرشتہ لائن میں کھڑے ہوئے دوسرے فرشتے کو پکڑا دیتا ہے اور اس طرح یہ سلسلہ 1ڈی۔1/7ناظم آباد کراچی سے شروع ہو کر مدینہ منورہ میں مسجد نبوی پر جا کر ختم ہوتا ہے اور پھولوں کا یہ ہدیہ رسول اللہﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہ کیفیت کب تک رہی، کتنے دن رہی اس کا میرے پاس کوئی ریکارڈ نہیں ہے لیکن یہ سلسلہ قائم رہا۔ مرشد نے درود و وظائف میں اضافہ فرما دیا۔اب سچے خوابوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اولیاء اللہ کی زیارت ہوئی، پیغمبروں کی ارواح طیبہ نے شفقت فرمائی۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ پینتیس ۳۵ سال تک اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے رسول اللہﷺ کی نسبت محمدی کے ساتھ اللہ نے مجھ عاجز مسکین بندے کو محض اپنے فضل و انعام سے صراط مستقیم پر قائم رکھا۔ ایک رات خواب دیکھا:
میں سراپا تقصیر بندہ رسول اللہﷺ کی شفاعت کا محتاج اور اللہ کی بے پایاں رحمتوں کا طلبگار۔۔۔۔۔۔دربار رسالتﷺ میں ایک فوجی کی طرح Attentionجانثار غلاموں کی طرح مستعد، پرجوش اور باحمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر ہوں۔ آہستہ روی کے ساتھ عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آیا۔ عرض کیا!
’’یا رسول اللہﷺ! بات بہت بڑی ہے۔ منہ بہت چھوٹا ہے۔ میں اللہ رب العالمین کا بندہ ہوں اور آپﷺ رحمت اللعالمین کا امتی ہوں۔ یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمت فرزانہ ہے۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ یا رسول اللہﷺ! یہ عاجز، مسکین، ناتواں بندہ آپ کی مبارک سیرت لکھنا چاہتا ہے۔ یا رسول اللہﷺ! سیرت کے وہ پہلو نوع انسانی کے سامنے آ جائیں جو ابھی تک مخفی ہیں۔
یا رسول اللہﷺ! مجھے صلاحیت عطا فرما دیجئے کہ میں معجزات کی تشریح کر دوں۔‘‘
میں نے بند آنکھوں سے دیکھا کہ رسول اللہﷺ نے میری درخواست قبول فرما لی اور چہرہ انور پر مجھ عاجز بندے کو مسکراہٹ نظرآئی۔
میں اس سرمستی میں سالوں مدہوش رہا، خیالوں میں مگن گھنٹوں تحریریں لکھتا رہا۔ ہر وہ کتاب جو سیرت سے متعلق مجھے دستیاب ہوئی اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اور بالآخر ایک دن ایسا آیا کہ قبولیت کی گھڑی آ گئی اور مجھ جیسے عاجز مسکین بندے نے محمد رسول اللہﷺ جلد اول لکھنی شروع کر دی۔
الحمدللہ! محمد رسول اللہﷺ جلد اول اور جلد دوئم کے بعداب کتاب محمد رسول اللہﷺ جلد سوئم جلوہ گر ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے برگزیدہ بندوں، پیغمبران کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی شان میں مجھ عاجز مسکین کی مدحت کو قبول فرمائے اور یہ کتاب میرے بچوں اور میرے لئے توشہ آخرت بنے۔ آمین یا رب العالمین
مرکزی مراقبہ ہال خواجہ شمس الدین عظیمی
سرجانی ٹاؤن یکم جنوری ۲۰۰۲ ء
کراچی۔ پاکستان پونے چھ بجے شام
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 3 تا 9
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد سوئم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔