آدم و حوا

مکمل کتاب : آوازِ دوست

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=6236

خداجب سورج کی شعاعوں کے ڈول سمندر میں ڈالتا ہے تو سورج پانی کے ذرّات سے ان بھرے ہوئے ڈولوں کو فضائے بسیط میں بکھیر دیتا ہے۔ وہاں ایک پروسیس کے تحت پانی کے یہ ذرّات بادل بن کر زمین پر برستے ہیں اور اس طرح پوری زمین سیراب ہوتی رہتی ہے۔ آدم کو جب زمین پر پھینکا گیا تو اس نے شکوہ کیا کہ میں اپنی غذائی ضرورتیں کہا ں سے پوری کروں گا۔ اللہ نے کہا زمین کو ہم نے تمہارے لیئے وسائل کا ذخیرہ بنا دیا ہے۔ زمین کی کوکھ کھولو۔ تمہیں تمہاری ضروریات کی ساری اشیاء فراہم کر دی جائیں گی۔ آدم نے اپنے رب کے فضل سے زمین کو کریدا اس میں سے ضروریات کی تمام چیزیں اسے میسّر آگئیں۔ کلّیہ یہ ہے کہ جو شخص جیسی محنت کرتا ہے، ویسا ہی پھل اُسے مل جاتا ہے۔ آدم اور اس کی زوجہ حوّاجنت میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے تھے لیکن یکسانیت سے گھبرا کر وہ ایسی غلطی کر بیٹھے جس کی پاداش میں جنت نے انہیں رد کر دیا ۔ بلا شبہ جنّت ایک مخصوص کردار کا گنجینہ ہے اور جب اس مخصوص کردار میں ٹوٹ پھوٹ واقع ہو گئی ہے تو آدم و حوّا کا مسکن زمین بن گئی۔
یہ دنیا دوئی کی دنیا ہے۔ دنیا کا کوئی ایک کردار بھی اس دوئی سے آزاد نہیں ہے۔ موسم کا گرم و سرد میں تبدیل ہونا، خوشی کے اوپر غم کا سایہ اور غم کے اوپر خوشی کا غلبہ، عزّت، لمحہ بھر بعد بے عزّتی، صحت، بیماری، محبّت اور نفرت، نفرت اور محبت، رات کا دن سے نکلنا اور دن کا رات میں داخل ہونا —- یہ سب دوئیاں دراصل ہر کردار کا متضاد پہلو ہے۔ دوئی کی دنیا میں جب تک اس تضاد کو نہیں سمجھاجائے گا کسی چیز کو سمجھنا ممکن نہیں ہے۔
جب تک میں ذلّت کو نہیں سمجھتا، میرے لیئے یہ سمجھنا کہ عزّت کیا ہے ایک مفروضہ عمل ہے۔ اسی طرح اگر میں نہیں جانتا کہ مصیبت کیا ہے تو خوشی کا تذکرہ میرے لیئے بے معنی بات ہو گی۔
جب ہم اس دوئی کی دنیا کے بارے میں سوچتے ہیں تو ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ دوئی کا تعلق جسم سے ہے۔ جب تک جسمانی تحریکات موجود ہیں، دوئی بھی موجود ہے، خوشی غم، بیماری صحت، گرمی سردی، نفرت محبّت، خود غرضی اور اخلاص کا تعلق جسم کے ساتھ ہے۔ جسم بھی دوئی کے اوپر قائم ہے۔ ایک مٹی کے ذرّات سے بنا ہواجسم ، دوسراجنّت کی روشنیوں سے بُنا ہواجسم۔ مٹی کے ذرّات سے بَنا ہواجسم، مادّی جسم ہے اور جنت کی روشنیوں سے بُنا ہواجسم رُوحانی جسم ہے۔ انسان رُوحانی اور مادّی جسم کی دوئی میں زندگی گزارتا ہے۔ جسمانی پابند تصورات سے نجا ت پانے کے لیئے مادّی جسم سے نہیں، جسمانی تصوّرات سے نجات پانا ضروری ہے۔ مادّی جسم کو اس طرح تربیت دینا ہو گی کہ وہ ان دوئیوں کو ایک ساتھ قبول کرے۔ خوشی اور مصیبت کی دوئی صرف مادّی جسم کی وجہ سے ہے۔ لیکن اگر آدمی کے اندر قلندرشعور متحرک ہو جائے تو تمام دوئیاں موجود رہنے کے باوجود بے معنی ہوجاتیں ہیں۔ اور کبھی عارضی طور پر معدوُم بھی ہو جاتی ہیں۔
زندگی گزارنے کی ایک طرز یہ ہے کہ آدم زاد ہمہ وقت ہر آن ہر لمحہ پابند حواس کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ زندگی گزارنے کی دوسری طرز یہ ہے کہ آدم زاد پابند حواس کے ساتھ بھی آزاد زندگی گزارتا ہے۔ حُزن و ملال کے تاثرات اسے متاثر نہیں کرتے۔ وہ خوش بھی نہیں رہتا کہ خوشی کے ساتھ دُوسرا رُخ غم چپکا ہوا ہے۔ زمین کے اوپر وسائل کی چکا چوند اس کی آنکھوں کو خیرہ نہیں کرتی کہ زمین سے دُور، بہت دُور اعلیٰ زمین، جنت اس کی نگاہوں کے سامنے ہوتی ہے۔ جس طرح مادّیت میں قید وہ یہاں روٹی کھاتا ہے، اسی طرح مادّیت سے آزاد ہو کر جنت کے باغات سے انگور کے خوشے حاصل کرنا اس کے لیئے آسان ہے۔ جب کوئی شخص دوئی سے واقف ہو کر خودشناسی میں مکمّل ہو جاتا ہے تو اس کے اوپر زندگی کی ایک نئی راہ، نئی طرز اور دنیاِ اسلوب منکشف ہوتا ہے۔ ایسے شخص کو قلندر شعور کا حامل مردِ آزاد کہا جاتا ہے۔ ۔ مردِ آزاد ہر چیز کو ایک ہی نظر سے دیکھتا ہے خواہ وہ پتھر ہو یا سونا ہو۔ مردِ آزاد جب یہ جان لیتا ہے کہ میں صرف جسم نہیں ہوں تو اپنی جسمانی ضروریات کو ہی زندگی نہیں سمجھتا۔ اس کے سامنے زندگی کا ایک اعلیٰ مقصد ہوتا ہے اور وہ ظا ہر و باطن اس بات کا مشاہدہ کر لیتا ہے کہ یہ دنیا عارضی اور ایک فکشن (FICTION) ہے۔ اس کا دل پُر سکون رہتا ہے۔ وہ مادّی دنیاسے متاثر ہو کر منتشر نہیں ہوتا۔ مادّی چمک دمک سے وہ خوش تو ہوتا ہے۔ لیکن یہ چمک دمک اس کے لیئے کشش نہیں بنتی۔
قلندر شعور کے حامل آزاد انسان کی نظر میں خیر خواہ دوست اور دشمن، رشک و حسد کرنے والے، پاکباز اور پاپی، بے لوث اور خود غرض، جانب دار اور غیر جانبدار سب کی حیثیت یکساں ہو جاتی ہے۔ وہ جان لیتا ہے کہ ہم صرف جان دار اشیاء ہیں اور کائنات جاندار اشیاء کے لیئے ایک اسٹیج ہے۔ کائنات میں ہر فرد اپنا اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ کائنات دراصل ایک بڑے ڈرامے کی طرح ہے جس میں ہر فرد اپنا کردار ادا کر کے رخصت ہوجاتا ہے۔
کائنات ایک ہے۔ اس کے ڈرامائی کردار مختلف ہیں۔ کوئی کردار ظالم ہے اور کوئی کردار مظلوم ہے۔ کسی کے سپرد امن وآشتی کا پیغام دینا ہے اور کسی کو اس بات پر متعین کر دیا گیا ہے کہ وہ تخریب کاری کا پرچار کرے۔
جس طرح ایک فلم سینکڑوں ہزاروں اسکرین پر دیکھی جا سکتی ہے اسی طرح کائنات کی تمثیل لوحِ محفوظ سے ڈسپلے (DISPLAY) ہو رہی ہے۔ کائنات میں موجود ہر زمین ایک اسکرین ہے۔ قلندر شعور بیدار ہو جاتا ہے تو یہ ساری کائنات ایک فلم اور کائنات میں کھربوں زمینیں اسکرین نظر آتی ہیں۔ اندر کی آنکھ گوشت پوست کی آنکھ کو دکھا دیتی ہے کہ جو کچھ اس زمین پر ہو رہا ہے، جس طرح اس زمین پر کھیتی باڑی ہو رہی ہے، شادی بیاہ کی تقریب کے بعد ایک نسل سے دوسری نسل وجود میں آ رہی ہے، بالکل اسی طرح کائنات میں موجود دوسری تمام زمینوں پر بھی یہ نظام جاری وساری ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 170 تا 173

آوازِ دوست کے مضامین :

1 - مذہب اور ہماری نسل 2 - آتش بازی 3 - ماں 4 - امتحان 5 - بادشاہی 6 - امانت 7 - خود فراموشی 8 - دُعا 9 - مائیکرو فلم 10 - دولت کے پجاری 11 - ستائیس جنوری 12 - توانائی 13 - پرندے 14 - سکون 15 - آتش فشاں 16 - ایٹم بم 17 - من موہنی صورت 18 - ریشم کا کیڑا 19 - پَرواز 20 - روشنیوں کا اسراف 21 - مٹی کا شعور 22 - میٹھی نیند 23 - دادی اماں 24 - ننھی منی مخلوق 25 - اسرائیل 26 - کفران نعمت 27 - عورت 28 - لہریں 29 - قیامت 30 - محبوب 31 - اللہ میاں 32 - تاجُ الدّین بابا ؒ 33 - چڑیاگھر 34 - پیو ند کا ری 35 - روزہ 36 - غار حرا میں مراقبہ 37 - نماز 38 - وراثت 39 - خلا ئی تسخیر 40 - غلام قومیں 41 - عدم تحفظ کا احساس 42 - روشنی 43 - محبت کے گیت 44 - شاہکار تصویر 45 - تین دوست 46 - نورا نی چہرے 47 - آدم و حوا 48 - محا سبہ 49 - کیمرہ 50 - قلندر بابا اولیا ء ؒ 51 - رُوحانی آنکھ 52 - شعُوری دبستان 53 - مائی صاحبہؒ 54 - جاودانی زندگی 55 - ماضی اور مستقبل 56 - خاکی پنجرہ 57 - اسٹیم 58 - ایجادات 59 - بت پرستی 60 - ماورائی ڈوریاں 61 - مرکزی نقطہ 62 - پیاسی زمین 63 - وجدان 64 - سیلاب 65 - مرشد اور مرید 66 - راکھ کا ڈھیر 67 - اڑن کھٹولے
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)