یونیورسٹیاں
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=26060
قرآنی نظریہ کے مطابق مسلم اسلاف کی لکھی ہوئی کتابوں کے تراجم ہوئے تو ان تحریروں کو یورپ میں اتنی زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی کہ وہاں یونیورسٹیاں قائم ہوگئیں۔مختلف علوم ِ سائنس و فلکیات اور ریاضی پر لکھی ہوئی کتابیں چار سو سال تک وہاں کی یونیورسٹیوں کے نصاب میں داخل رہیں۔یورپ کے مورخ اس بات پر متفق ہیں کہ مسلمان نہ ہوتے تو یورپ علم کی روشنی سے محروم رہ جاتا ۔
پانچویں اور چھٹی صدی ہجری کے بعد مسلمانوں کا علمی زوال شروع ہوا۔ امتِمسلمہ قرآنی تحقیق و تفکر (تصوف) سے دور ہوگئی جس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے قرآن کے انوار و حکمت سے خودساختہ دوری قبول کرلی۔ مسلما نوں نے تفکر کرنا چھوڑ دیا پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔قرآنی علوم کے ذریعہ معاشی، معاشرتی اور روحانی زندگی کی جو شمع روشن ہوئی تھی قوم نے اس کی طرف سے آنکھیں بند کر لیں۔
تسخیر ِکا ئنات جو قرآن کا پوراا ور مکمل تیسرا علم ہے اس کی طرف سے توجہ ہٹ گئی اور عالمِ اسلام اس شعور سے محروم ہوگیا جو چودہ سو سال پہلے قرآن نے عطاکیا تھا اور جب کوئی قوم تفکر،تحقیق و تلاش،بصیرت و حکمت اور نور علیٰ نور فہم و فراست سے محروم ہو جاتی ہے تو گروہوں اور فرقوں میں تقسیم ہوجاتی ہے اجتماعیت ختم ہو جاتی ہے اور قوم کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 254 تا 255
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔