یادداشت کیوں کمزور ہو جاتی ہے؟
مکمل کتاب : اسم اعظم
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=753
سوال: یادداشت کیوں کمزور ہو جاتی ہے؟ اس کمزوری کو دور کرنے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟
جواب: اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ قانون کے مطابق ہر چیز کے دو رخ ہوتے ہیں۔ اس قانون کے مطابق دماغ کے بھی دو رخ ہیں۔
ایک رخ وہ حصہ ہے جو سر کے سیدھی طرف ہے، دوسرا رخ وہ جو سر کے بائیں طرف ہے۔ دونوں حصے یا دونوں دماغ ہر وقت کام کرتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ایک حصہ کی کارگزاری بیداری کے حواس بناتی ہے اور دوسرے حصہ کی کارگزاری سے رات کے حواس بنتے ہیں۔
سیدھی طرف کا دماغ شعور ہے اور الٹی طرف کا دماغ لاشعور ہے جب تک کوئی بات یا کوئی عمل صرف شعور کے دائرہ کار میں رہتا ہے وہ چیز زیادہ دیر محفوظ نہیں رہتی۔ یہ چیز دلچسپی اور بھول کے خانے میں جا پڑتی ہے۔ اگر کوئی کام، کوئی عمل شعور کی سطح سے گزر کر لاشعور میں داخل ہو جاتا ہے تو یہ کام فہم و فراست کے ساتھ حافظہ کے اوپر نقش ہو جاتا ہے۔
ہم جب کوئی سبق، کوئی کتاب، کورس کا کوئی مضمون سطحی طور پر پڑھتے ہیں، اس میں سبق کو رٹنا بھی شامل ہے، تو شعور کی سطح سے وہ آگے نہیں بڑھتا۔ لیکن اگر ہم یہی سبق غور و فکر اور سمجھ بوجھ کے ساتھ پڑھتے ہیں تو وہ لاشعور کی حدود میں چلا جاتا ہے تو اس کا مفہوم یاد رہتا ہے۔ آج کل اکثر طلبہ و طالبات کی یہ عادت بن گئی ہے کہ وہ سمجھ کر پڑھنے کے بجائے اپنی صلاحیتیں حفظ کرنے میں خرچ کر دیتے ہیں۔ جب تک اس سبق کو وہ دہراتے رہتے ہیں، یاد رہتا ہے اور جب دہرانا ترک کر دیتے ہیں، حافظہ میں نہیں رہتے اور امتحان میں متوقع نتائج سامنے نہیں آتے اور جب دماغ پر زور ڈالا جاتا ہے تو تھکن کے احساس میں شدت آ جاتی ہے۔
اس کا علاج بہت سہل اور آسان ہے۔ وقت مقرر کر کے پڑھنے کے اوقات میں پڑھا جائے اور کھیل کود کے اوقات میں دوسرا کوئی کام نہ کیا جائے۔
روحانی طرزوں میں شعور اور لاشعور کو متوازن کرنے کے لئے بہترین عمل ہر وقت باوضو رہنا ہے لیکن اس عمل میں انتہا پسندی کا عمل دخل نہیں ہونا چاہئے۔
بول و براز اور دوسری ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اپنے اوپر جبر نہ کریں کیونکہ جبر کرنے سے دماغ کے اوپر بوجھ پڑتا ہے۔ طبعی تقاضے پورے کرنے کے بعد دوبارہ وضو کر لیا جائے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 140 تا 142
اسم اعظم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔