یہ تحریر العربية (عربی) میں بھی دستیاب ہے۔
ہماری تصویر
مکمل کتاب : تجلیات
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2957
قرآن پاک میں یہ بھی ارشاد ہے۔ ’’آپﷺ کیا سمجھے علیین(نیکو کاروں کا مقام) کیا ہے اور آپ کیا سمجھے سجین(بدکاروں کا مقام) کیا ہے۔ یہ ایک لکھی ہوئی کتاب(فلم) ہے۔‘‘ انسان جو کچھ بھی کرتا ہے، اس کی زندگی کا ہر عمل اور زندگی کی ہر حرکت ریکارڈ ہو جاتی ہے۔ یعنی بندہ جو کچھ کر رہا ہے، ساتھ ساتھ اس کی فلم بھی بن رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’ہم نیکو کاروں کو نہ صرف ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دینگے بلکہ کچھ زیادہ ہی عنایت کرینگے۔ ان کے چہروں کو ذلت اور سیاہی سے محفوظ رکھیں گے اور جنت کی بہاروں میں انہیں دائمی مسکن عطا کرینگے۔ دوسری طرف ہم بدکاروں کو ان کے اعمال کے مطابق سزا دینگے، ان کے چہروں پر ذلت برسائیں گے، انہیں ہماری قاہرانہ گرفت سے بچانے والا کوئی نہ ہو گا۔ ان کے منہ اس قدر سیاہ ہو جائیں گے گویا شب تاریک کا کوئی ٹکڑا کاٹ کر ان کے رخ پر چپکا دیا گیا ہو۔ یہ لوگ سدا جہنم میں رہیں گے۔‘‘(سورہ یونس)
ان آیات پر تفکر کریں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ انسان کے اچھے اور برے اعمال کا عکس چہرے میں منتقل ہوتا رہتا ہے اور جو بندہ جس قسم کے کام کرتا ہے اسی مناسبت سے اس کے چہرے پر تاثرات مرقوم ہوتے رہتے ہیں۔
نفسیات داں یہ بات جانتے ہیں کہ ہر انسان روشنیوں سے مرکب ہے اور روشنی کی یہ لہریں انسان کی ہستی سے غیر محسوس طریقے پر نکلتی رہتی ہیں۔ کوئی چہرہ ہمارے سامنے ایسا آتا ہے کہ ہم اس چہرہ کو دیکھ کر خوش ہو جاتے ہیں اور جس ہستی کا یہ چہرہ ہے ہم اس کے گرویدہ ہو جاتے ہیں۔ کوئی چہرہ ہمارے سامنے ایسا بھی آتا ہے کہ ہم اس چہرے میں سے نکلنے والی لہروں سے بیزار ہو جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جلد از جلد وہ چہرہ ہماری نظروں سے دور ہو جائے۔
جن لوگوں کے دل اللہ کے نور سے معمور ہوتے ہیں اور جن لوگوں کے دماغ میں خلوص، ایثار، محبت، پاکیزگی اور خدمت خلق کا جذبہ ہوتا ہے ایسے لوگوں کے چہرے بھی خوش نما، معصوم اور پاکیزہ ہوتے ہیں۔ ان چہروں میں ایسی مقناطیسیت ہوتی ہے کہ ہر شخص قریب ہونا چاہتا ہے۔ اس کے برعکس ایسے لوگ جو احساس گناہ اور اضطراب میں مبتلا ہیں، ان کے چہروں پر خشونت، خشکی، پیوست، بے آہنگی اور کراہت کے تاثرات پیدا ہو جاتے ہیں اور یہ تاثرات دوسرے آدمی کے دل میں دور رہنے کا تقاضا پیدا کرتے ہیں۔
آیئے ہم دیکھیں کہ ہماری تصویر کیسی ہے؟
سب کاموں سے فارغ ہونے کے بعد رات کو سونے سے پہلے قدم آدم آئینہ کے سامنے کھڑے ہو جائیے۔ چند منٹ آنکھیں بند کر کے یہ تصور کیجئے کہ میری زندگی کے پورے اعمال کا ریکارڈ میرے اندر موجود ہیں اور میں اس ریکارڈ یا اپنے اندر موجود فلم کو دیکھ رہا ہوں۔ آنکھیں کھول لیجئے اور آئینہ کے اوپر بھرپور نظر ڈالیے۔ اگر آپ کا چہرہ روشن ہے، چہرہ پر نور ہے، معصومیت ہے اور چہرے کے خدوخال میں مسکراہٹ کی لہریں دور کر رہی ہیں تو آپ بلا شبہ نیکی کی تصویر ہیں۔ اور اگر آپ کا چہرہ سوگوار ہے، خشک ہے، چہرے پر نفرت و حقارت کے جذبات موجود ہیں، کبر و نخوت کے آثار ہیں اور آپ کا چہرہ خود آپ کو برا لگتا ہے تو آپ برائی کی تصویر ہیں، یاد رکھیئے!
قانون فطرت یہ ہے کہ انسان کے ہر عمل کی فلم بنتی رہتی ہے اور ہر آدمی کی اپنی اس فلم کے لئے اس کا اپنا چہرہ اسکرین ہے۔ کراماً کاتبین کی بنائی ہوئی فلم انسانی چہرے پر چلتی رہتی ہے۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا ایک پریشان حال، مصیبت کا مارا اور غم کی چکی میں پسنے والے آدمی کے چہرے پر پریشانی اور غم و آلام کے پورے پورے تاثرات موجود ہوتے ہیں۔ یقیناً آپ نے ایسے بھی آدمی دیکھے ہیں کہ ایک آدمی خوش باش لوگوں کے ہجوم میں داخل ہوتا ہے تو ساری محفل افسردہ اور پراگندہ ہو جاتی ہے اور یقیناً اس دنیا میں پاکیزہ نفس حضرات بھی موجود ہیں کہ ان کے وجود سے خوشی، مسرت اور سکون قلب کا بھرم پایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۂ آل عمران میں فرماتے ہیں:
’’وہ دن آ کر رہے گا جب بعض چہرے نورانی ہو جائینگے، بعض تاریک سیاہ رو لوگوں سے کہو کہ تم نے اللہ کو تسلیم کرنے کے بعد اس کے احکام سے انحراف کیا۔ اب اس کی سزا بھگتو۔ باقی رہے وہ لوگ جن کے چہرے نورانی ہیں۔ تو یہ مستقل اللہ کی رحمت میں رہیں گے۔‘‘
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 17 تا 20
یہ تحریر العربية (عربی) میں بھی دستیاب ہے۔
تجلیات کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔