یہ تحریر العربية (عربی) میں بھی دستیاب ہے۔

کفن دفن

مکمل کتاب : تجلیات

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2961

ہمارے ایک دوست حاجی صاحب پژمردہ دل نم ناک آنکھوں کے ساتھ سڑک پر تیز قدموں سے چل رہے تھے۔ میں نے سلام کیا اور پژمردہ دلی اور گھبراہٹ کے ساتھ تیز رفتاری کی وجہ پوچھی۔ بولے، میرے دوست حاجی رمضان کا انتقال ہو گیا ہے۔ میں نے تعزیت کی اور کہا کُلُّ نَفْسٍ ذَاءِقَۃُ الْمَوْت یہ مرحلہ ہر شخص کے ساتھ پیش آتا ہے۔ آپ اور میں بھی عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں زندگی کے دھارے موت کی طرف بہنے لگتے ہیں۔ آج حاجی رمضان صاحب اپنے پس ماندگان کو داغ مفارقت دے گئے، کل یہی سب کچھ ہم کرینگے۔ یہ ایک ایسا مسلسل اور متواتر عمل ہے جو یوم آفرینش سے جاری ہے اور یوم قیامت تک جاری رہے گا۔ حاجی صاحب بہت خوب اور مرنجان مرنج مزاج کے آدمی تھے۔ میری تقریر آمیز گفتگو سن کر بولے، بات یہ نہیں ہے کہ حاجی رمضان کیوں مرا، بات یہ ہے کہ اس کے ورثا سفر آخرت میں اس کے لئے دیوار بن گئے ہیں۔ حاجی رمضان کی چار لڑکیاں اور ایک لڑکا ہے۔ مال و اسباب اتنا ہے کہ صحیح معنوں میں اس کا اندازہ بھی نہیں ہوتا۔ موت کی خبر سن کر چاروں لڑکیاں، چاروں داماد اور دوسرے عزیز و اقربا تجہیز و کفن کے لئے کوٹھی میں جمع ہو گئے۔ اس وقت مسئلہ یہ درپیش ہے کہ جائیداد کی تقسیم ہو جائے تب جنازہ اٹھے گا۔ میں ان کا دوست ہوں۔ عمر میری اتنی ہے کہ بھنویں بھی سفید ہو گئی ہیں۔ میں نے چاہا کہ تقسیم کا معاملہ کفن دفن کے بعد طے ہو جائے مگر صاحب وہاں تو کوئی سنتا ہی نہیں ہے۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ دونوں طرف کے وکیل ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہیں اور دھن دولت کے ساتھ ساتھ گھر میں موجود زیورات و جواہرات اور دوسرے اثاثوں کی فہرست تیار ہو رہی ہے۔ سب لوگوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ جب تک بھائی بہنوں کو باپ کا چھوڑا ہوا اثاثہ تقسیم نہ کر دے اس وقت تک جنازہ نہیں اٹھے گا۔ اس نفسا نفسی میں حالات یہ ہیں کہ حاجی رمضان کی لاش پانی بن کر بہنے لگی ہے۔ برف کی سیلوں سے کمرہ بھرا ہوا ہے۔ ایک طرف برف کا جگر پانی بن کر بہہ رہا ہے اور دوسری طرف حاجی رمضان کے جسم کے اندر کی چکنائیاں سڑاند بن کر پانی بن رہی ہیں۔ حاجی رمضان میرا دوست ہے۔ ظاہر ہے کوئی بھی دوست کسی دوست کی اتنی زیادہ بے حرمتی برداشت نہیں کر سکتا۔ میں پریشان ہوں۔ میں بہت غمگین ہوں۔ اتنا اداس ہوں کہ لگتا ہے کہ عقل و شعور نے مجھ سے اپنا ناطہ توڑ لیا ہے۔ حاجی صاحب کا کیا بنا، کب ان کا جنازہ گھر سے رخصت ہوا اس کے بارے میں کھوج لگانے کی ہمت نہیں ہوئی۔یہ واقعہ سننے کے بعد میرے دل کی دنیا زیر و زبر ہو گئی۔ میں نے جب اس بھیانک صورت حال پر غور کیا تو قرآن پاک کی ایک آیت ذہن میں دور کرنے لگی:
’’اور وہ لوگ جو سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کر ڈالتے ان کے لئے عذاب الیم کی بشارت ہے۔‘‘
قرآن پاک کی اس آیت کا مفہوم ذہن میں آیا تو دماغ کے اندر موجود تفکر کا ایک دروازہ کھلا اور یقین محکم یہ بنا کہ دولت کے انبار جمع کرنے کے نتائج الم ناک ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ عموماً اپنی صحت کا جنازہ نکال دیتے ہیں۔ دل کمزور، جگر ناکارہ، ذیابیطس، فشار خون، جنسی بیماریاں، گردوں میں ریت، پھیپھڑوں میں زخم، پتے میں پتھری، آنتوں میں پیچش کے جراثیم اور نہ جانے کن کن مصیبتوں میں پھنس جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی نیند اڑ جاتی ہے، سکون روٹھ جاتا ہے اور دوسروں کی محبت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ دوستوں میں، رشتہ داروں میں اور عوام میں ان کا کوئی احترام نہیں ہوتا۔ لوگ اگر محبت کا اظہار کرتے ہیں تو وہ دراصل ان کی ذات کا احترام نہیں ہوتا، ان کے پاس جو آنی جانی دولت ہے اس کا احترام کرتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ ان کا خاتمہ عبرت ناک ہوتا ہے۔ پس ماندگان میں اولاد پر جوانی کا بھوت سوار ہو جاتا ہے تو وہ مادر پدر آزاد ہو کر تعلیم کو طاق نسیاں میں سجا کر حسن آباد کی طرف نکل جاتے ہیں۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ ماں باپ زندہ ہوتے ہیں اور ماں باپ کے بڑھاپے کا واحد سہارا برخوردار کے دو بڑے ٹھکانے بن جاتے ہیں، ایسے دو بڑے ٹھکانے جہاں سے بے شمار برائیوں کے دھارے بہتے ہیں۔ ماں باپ سمجھاتے ہیں، منت کرتے ہیں، خون کے آنسو روتے ہیں، پوری پوری رات بیٹے کے انتظار میں ٹہل ٹہل کر گزارتے ہیں لیکن بیٹے پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ کب دنیا کا کوئی ایک فرد بھی کہہ سکتا ہے کہ اس طرح کی اولاد اور ایسی دولت زندگی میں مسرت اور شادمانی کا پیغام دے سکتی ہے۔ نہیں، ہرگز نہیں!
ایسی دولت اور ایسی اولاد بلاشبہ ایک عذاب ہے۔ دولت کے دو رخ ہیں۔ دولت کا ایک رخ تو یہ ہے کہ انسان کو دولت عذاب بن کر، جہنم بن کر خاکستر کر دیتی ہے۔ دولت کا دوسرا روپ یہ ہے کہ دل و دماغ رنگینیوں، رعنائیوں، قناعت، مسرت اور شادمانیوں سے معمور ہو جاتا ہے۔ اس روپ کا دولت مند بیواؤں اور یتیموں کے لئے پناہ گاہیں تعمیر کرتا ہے، سینکڑوں بپتاؤں اور مصیبتوں سے دوسروں کے لئے نجات کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ وہ حیوان محض بن کر زندہ نہیں رہتا۔ دل کی دنیا میں جگ مگ روشن قمقمے سجا کر دل کی دنیا کو آباد کر لیتا ہے۔ وہ عقل کے لحاظ سے احمق اور آنکھوں کے لحاظ سے اندھا نہیں ہوتا۔ حیوانیت سے دور ہوتا ہے اور اس عادت کو اپنا لیتا ہے جو عادت اللہ رب العالمین سازق کی ہے۔
حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے مسلمانوں پر حیرت ہے کہ ہر شخص دولت مند بننا چاہتا ہے لیکن حضرت عثمانؓ کوئی نہیں بننا چاہتا۔ ان کے لئے سورۂ توبہ میں وعید ہے:
ترجمہ: تمہیں ان کے مال و اولاد پر حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ ہمارا ارادہ یہ ہے کہ اس دنیا میں مال و اولاد کو ان کے لئے ایک مستقل عذاب بنا دیں اور وہ اسی کا فرانہ زندگی کے ساتھ اس جہان سے رخصت ہو جائیں۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت پاک ہمیں بتاتی ہے کہ حضورﷺ نے کبھی دولت جمع نہیں کی۔ حضورﷺ اور آپﷺ کے صحابہ کرامؓ کا عمل یہ تھا کہ ایران و روم کی دولت کے انبار ان کے سامنے تھے لیکن یہ قدسی نفس حضرات پچیس لاکھ مربع میل قلمرو پر حکومت کرنے کے باوجود مزدوری کر کے بچوں کا پیٹ پالتے تھے اور مزدوری سے جو کچھ بچتا تھا وہ خیرات کر دیتے تھے۔
دنیا میں دولت سے زیادہ بے وفا کوئی چیز نہیں ہے۔ دولت نے کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں کی۔ دولت ہر جائی ہے۔ دولت ایک ایسا بزدلانہ تشخص ہے کہ جو دولت کو پوجتا ہے دولت اس کو تباہ و برباد کر دیتی ہے لیکن جو بندہ دولت کی تحقیر کرتا ہے، سر پر رکھنے کے بجائے دولت کو پیروں کی خاک سمجھتا ہے دولت اس کے آگے پیچھے دوڑتی ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے ہر چیز کو معین مقداروں کے ساتھ تخلیق کیا ہے۔ یہ معین مقداریں ہی تشخص بناتی ہیں۔ یہ معین مقداریں ہی باوجود یہ کہ ایک انسان دوسرے انسان میں اپنے ارادے اور اختیار سے جذب ہو جاتا ہے لیکن سینٹی میٹر کے ہزارویں حصے کے برابر خلا نہ ہونے کے باوجود دونوں انسان الگ الگ رہتے ہیں۔ قانون یہ بنا کہ مقداروں میں تعین ہی انفرادیت اور تشخص قائم کرتا ہے۔ کوئی انسان اس تخلیقی قانون کو توڑ نہیں سکتا۔ جس طرح ایک انسان ادراک رکھتا ہے
اسی طرح دولت بھی ادراک سے خالی نہیں ہے۔ جب کوئی انسان دولت کے تشخص سے فرار اختیار کرتا ہے تو مقداروں کے قانون کے مطابق توازن برقرار رکھنے کے لئے دولت اس کے پیچھے بھاگتی ہے اور جب کوئی انسان دولت کے پیچھے بھاگتا ہے تو دولت اس کے ساتھ بے وفائی کرتی ہے اور عذاب بن کر اس کے اوپر مسلط ہو جاتی ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 29 تا 34

یہ تحریر العربية (عربی) میں بھی دستیاب ہے۔

تجلیات کے مضامین :

1 - قرآن 2 - زمین پر اندھیرا 3 - آسمانوں میں اعلان 4 - ہماری تصویر 5 - تسخیرِ کائنات 6 - دولت کی محبت بت پرستی ہے 7 - ترقی کا محرم غیر مسلم؟ 8 - کفن دفن 9 - آگ کا سمندر 10 - روح کی آنکھیں 11 - سوکھی ٹہنی 12 - پرخلوص دل 13 - تبلیغ 14 - مشعل راہ 15 - تخلیقی فارمولے 16 - توبہ 17 - بھلائی کا سرچشمہ 18 - عظیم احسان 19 - طرزِ فکر 20 - حج 21 - شیریں آواز 22 - دو بیویاں 23 - صراط مستقیم 24 - ماں باپ 25 - محبت 26 - خود داری 27 - بیداری 28 - قطرۂ آب 29 - خدا کی تعریف 30 - زندگی کے دو رُخ 31 - علم و آگہی 32 - جھاڑو کے تنکے 33 - رزق 34 - مُردہ قوم 35 - پیغمبر کے نقوشِ قدم 36 - نیکی کیا ہے؟ 37 - ضدی لوگ 38 - سعید روحیں 39 - توفیق 40 - سورج کی روشنی 41 - رب کی مرضی 42 - دُنیا اور آخرت 43 - بیوی کی اہمیت 44 - خود شناسی 45 - دماغ میں چُھپا ڈر 46 - روزہ 47 - مناظر 48 - دُعا 49 - مساجد 50 - علیم و خبیر اللہ 51 - مایوسی 52 - ذخیرہ اندوزی 53 - بھائی بھائی 54 - اللہ کی کتاب 55 - اونگھ 56 - انسان کے اندر خزانے 57 - اللہ کی صناعی 58 - ناشکری 59 - آئینہ 60 - مُردہ دلی 61 - خدا کی راہ 62 - غرور 63 - رمضان 64 - قبرستان 65 - قرآن اور تسخیری فارمولے 66 - اچھا دوست 67 - موت سے نفرت 68 - خطاکار انسان 69 - دوزخی لوگوں کی خیرات 70 - معاشیایات 71 - آدابِ مجلس 72 - السلامُ علیکُم 73 - گانا بجانا 74 - مخلوق کی خدمت 75 - نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم 76 - صبر و استقامات 77 - مہمان نوازی 78 - مسکراہٹ 79 - بلیک مارکیٹنگ 80 - دوست 81 - مذہب اور نئی نسل 82 - معراج 83 - انسانی شُماریات 84 - جائیداد میں لڑکی کا حصہ 85 - دعوتِ دین 86 - فرشتے نے پوچھا 87 - سونے کا پہاڑ 88 - مچھلی کے پیٹ میں 89 - بچوں کے نام 90 - صدقہ و خیرات 91 - اپنا گھر 92 - غیب کا شہُود 93 - حقوق العباد 94 - فقیر دوست 95 - بے عمل داعی 96 - عید 97 - جذب وشوق 98 - موت کا خوف 99 - فرشتوں کی جماعت 100 - اعتدال 101 - مشن میں کامیابی
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)