ہمارا ماحول ہمیں کس حد تک متاثر کرتا ہے؟
مکمل کتاب : اسم اعظم
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=619
سوال: ہمارا ماحول ہمیں کس حد تک متاثر کرتا ہے؟
جواب: طبیعات یعنی روزمرہ کی زندگی، رہن سہن اور معاشرے میں رائج اخلاقی قوانین و ضوابط سے ہر شخص اپنے علم کی حدود میں واقفیت رکھتا ہے۔ طبیعات کے بعد دوسرا علم جو عام ذہن سے اوپر کے درجے کا ہے، اہل دانش نے اس کا نام نفسیات رکھا ہے۔ نفسیات میں وہ باتیں زیر بحث آتی ہیں جن پر طبیعیات یا شعور کی بنیادیں قائم ہیں۔ یہ مختصر تمہید بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم اس صحن میں ایک دو مثالیں پیش کرنا چاہتے ہیں۔ نفسیات کی دنیا میں ایک بہت بڑا مشہور واقعہ وہ یہ کہ ایک انگریز ماں کے بطن سے ایک ایسا بچہ تولد ہوا جس کے سارے نقش و نگار اور رنگ حبشی نژاد بچوں کی طرح تھا۔ ناک نقشہ موٹا، بال گھونگریالے اور رنگ سیاہ، ویسے ہی چوڑا چکلا سینہ اور مضبوط اعصاب۔ بچہ کی پیدائش کے بعد باپ نے اس حقیقت کو کہ بچہ اس کا اپنا ہے قبول نہیں کیا۔ جب معاملہ بہت زیادہ الجھ گیا اور تحقیق و تفتیش اپنی انتہا کو پہنچ گئی تو راز یہ کھلا کہ ماں حمل کے زمانے میں جس کمرے میں رہتی تھی وہاں دیوار پر ایک حبشی بچے کا فوٹو آویزاں تھا۔ بڑے بڑے نفسیات داں، دانشوروں اور ڈاکٹروں کا بورڈ بیٹھا اور باہمی صلاح مشورے اور افہام و تفہیم سے یہ بات طے پائی کہ چونکہ اس کمرے میں ایک حبشی بچے کا فوٹو لگا ہوا ہے اور عورت حمل کے زمانے میں بچے سے فطری اور طبعی طور پر قریب رہی ہے اور بار بار حبشی بچے کو دیکھتی رہی، دیکھنے میں اتنی گہرائی پیدا ہو گئی کہ اس کی سوچ(Feeling) پیٹ میں موجود بچے کو منتقل ہو گئی۔ دوسرا تجربہ یہ کیا گیا کہ آئندہ وہ جب امید سے ہوئی تو وہاں ایک بہت خوبصورت بچے کا فوٹو لگایا گیا اور تجرباتی بنیاد پر ماں کو ہدایت کی گئی کہ اس فوٹو کو زیادہ سے زیادہ دیکھا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمدہوا کہ پیدا ہونے والے بچے کے نقوش تقریباً وہی تھے جو دیوار میں لگے ہوئے فوٹو کے تھے۔
دوسری مثال اللہ تعالیٰ کے قانون کے تحت ہمارے سامنے یہ ہے کہ ہر نوع میں بچے اپنی مخصوص نوع کے نقش و نگار پر پیدا ہوتے ہیں۔ ایک بلی آدمیوں سے کتنی ہی مانوس ہو لیکن اس کی نسل بلی ہی ہوتی ہے۔ کبھی یہ نہیں دیکھا گیا کہ بکری سے گائے پیدا ہوئی ہو یا گائے سے کبوتر پیدا ہو گیا ہو۔
کہنا یہ ہے کہ شکم مادر میں ایک طرف نوعی تصورات بچے کو منتقل ہوتے ہیں اور دوسری طرف ماں کے یا باپ کے تصورات بچے کو منتقل ہوتے ہیں۔ ان تصورات میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق مقداریں معین ہیں۔ تیسویں پارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’پاک اور بلند مرتبہ ہے وہ ذات جس نے تخلیق کیا اور مقداروں کے ساتھ ہدایت بخشی۔‘‘
یہ مقداریں ہی کسی نوع کو الگ کرتی ہیں۔ تخلیقی فارمولوں میں جب یہ معین مقداریں بکری کے رنگ و روپ میں بدلتی ہیں تو بکری بن جاتی ہے اور جب آدم کے نقش و نگار میں تبدیل ہوتی ہیں تو آدمی بن جاتا ہے۔
تیسری مثال سیدنا حضورﷺ کی ذات اقدس کی ہے۔ حضورﷺ کی بعثت کے بارے میں جب ہم غور کرتے ہیں تو یہ بات واضح طور پر ہمارے سامنے آ جاتی ہے کہ سیدنا حضورﷺ حضرت ابراہیمؑ کی اولاد ہیں۔ حاصل کائنات ﷺ کو حضرت ابراہیمؑ سے حضرت عیسیٰؑ تک تمام انبیائے کرام کی معین مقداریں منتقل ہوئیں۔ انبیاء کا وہ ذہن جس میں اللہ بستا ہے۔ حضورﷺ کو بطور ورثہ کے منتقل ہوا۔ اس بات کو اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذہن مبارک بعثت سے پہلے ہی تمام انبیائے کرامؑ کی منازل طے کر چکا تھا۔ یہ بہت زیادہ غور طلب ہے کہ قرآن پاک میں جتنے انبیاءؑ کا تذکرہ ہوا ہے۔ تقریباً وہ سب حضرت ابراہیمؑ کی اولاد ہیں۔ یعنی ایک نسل میں طرز فکر برابر منتقل ہوتی رہی۔ اس قانون سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ روحانی دراصل ایک مخصوص طرز فکر کا نام ہے۔
نبوت ختم ہو چکی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا قانون جاری و ساری ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سنت میں تعطل واقع ہوتا ہے، نہ تبدیلی ہوتی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کی اس سنت کو جاری رکھنے کا پروگرام حضورﷺ نے اپنے ورثاء کو منتقل کیا۔ جو اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں اور جن کو عرف عام اولیاء اللہ اور روحانی استا دکہا جاتا ہے۔
ٹیگ: مرشد، روحانی استاد، اولیاء اللہ، اولیاء کرام، انبیاء کے وارث، اللہ کی سنت، ماحول کے اثرات، شعور کی بنیاد، مابعد نفسیات، انبیاء کا ذہن،
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 89 تا 91
اسم اعظم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔