یہ تحریر العربية (عربی) میں بھی دستیاب ہے۔
گانا بجانا
مکمل کتاب : تجلیات
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=3025
خوشی انسان کے لئے ایک طبعی تقاضا اور فطری ضرورت ہے۔ اسلام یہ نہیں چاہتا کہ مسلمان مصنوعی وقار، غیر فطری سنجیدگی، مردہ دلی اور افسردگی سے قوم کے کردار کی کشش کو ختم کر دیں۔ اسلام چاہتا ہے کہ مسلمان بلند حوصلوں، نت نئے ولولوں اور نئی نئی امنگوں کے ساتھ تازہ دم رہ کر اپنا وقار بلند رکھیں۔
قوم کے کسی فرد کو علم و فضل میں کمال حاصل ہو، کوئی عزیز دوست یا رشتہ دار دور دراز کے سفر سے واپس آئے، کوئی معزز مہمان آپ کے گھر میں رونق افروز ہو، شادی بیاہ یا بچے کی ولادت کی تقریب ہو، کسی عزیز کو اللہ تعالیٰ صحت عطا کریں، کوئی خبر ایسی ہو جس میں اسلام کی فتح و نصرت کی خوش خبری ہو، کوئی تہوار ہو تو ایسے تمام مواقع پر بھرپور خوشی کا اظہار کرنا ایک مسلمان پر فرض ہے۔ اسلام نہ صرف خوش رہنے اور خوشی منانے کی اجازت دیتا ہے بلکہ اس کو عین دینداری قرار دیتا ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ عید کا دن تھا۔ کچھ کنیزیں بیٹھی اشعار گا رہی تھیں کہ اسی دوران حضرت ابو بکرؓ تشریف لے آئے۔ بولے۔ ’’نبیﷺ کے گھر میں یہ گانا بجانا کیسا؟‘‘
نبئ برحق صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ ’’ابو بکر! رہنے دو۔ ہر قوم کے لئے تہوار کا ایک دن ہوتا ہے اور آج ہماری عید کا دن ہے۔‘‘
ایک مرتبہ تہوار کے دن کچھ حبشی بازیگر کرتب دکھا رہے تھے۔ آپﷺ نے یہ کرتب خود بھی دیکھے اور حضرت عائشہؓ کو بھی دکھائے۔
أنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان بازیگروں کو شاباش بھی دی۔
خوش رہنا اور دوسروں کو خوش رکھنا مسلمان کا اخلاقی کردار ہے۔ مسلمان کی یہ شان ہے کہ وہ خوشی میں بھی اسلامی و روحانی ذوق اور حفظ مراتب کا خیال رکھتا ہے۔ جب اسے خوشی ملتی ہے تو اس بندہ کا صدق دل سے شکر ادا کرتا ہے۔ خوشی کے ہیجان میں ایسا کوئی عمل یا رویہ اختیار نہیں کرتا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات کے خلاف ہو۔ ہر حال میں اعتدال کا راستہ اس کے سامنے رہتا ہے۔
خوشی میں وہ اتنا مست و بے خود نہیں ہو جاتا کہ اس سے فخر و غرور کا اظہار ہونے لگے، نیاز مندی اور بندگی کے جذبات دبنے لگیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 161 تا 162
یہ تحریر العربية (عربی) میں بھی دستیاب ہے۔
تجلیات کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔