کہکشانی نظام
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=26625
باباتاج ا لدینؒ اس وقت ستاروں کی طرف دیکھ رہے تھے ۔ کہنے لگے ’’ کہکشانی نظاموں اور ہمارے درمیان بڑا مستحکم رشتہ ہے۔ پے در پے جو خیالات ہمارے ذہنوں میں آتے ہیں۔ وہ دوسرے نظاموں اور ان کی آبادیوں سے ہمیں وصول ہو تے رہتے ہیں۔ یہ خیالات روشنی کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں۔ روشنی کی چھوٹی بڑی شعاعیں خیالات کے لاشمار تصویر خانے لے کر آتی ہیں۔ ان ہی تصویر خانوں کو ہم اپنی زبان میں توہم، خیال، تصّور اور تفکر وغیرہ کا نام دیتے ہیں۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ یہ ہماری اپنی اختراعات ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ بلکہ تمام مخلوق کی سوچنے کی طرزیں ایک نقطہ مشترک رکھتی ہیں وہی نقطہ مشترک تصویرخانوں کو جمع کرکے ان کا علم دیتا ہے۔ یہ علم نوع اور فرد کے شعور پر منحصرہے۔شعور جو اُسلوب اپنی انا کی اقدار کے مطابق قائم کرتا ہے تصویر خانے اس ہی اُسلوب کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں‘‘
اس موقع پر یہ بتانا ضروری ہے کہ تین نوعوں کے طرزِ عمل میں زیادہ اشتراک ہے۔ ان ہی کا تذکرہ آسمانی کتابوں اور قرآن پاک میں انسان، فرشتہ اور جنّات کے نام سے کیا گیاہے۔ یہ نوعیں کائنات کے اندر سارے کہکشانی نظاموں میں پائی جاتی ہیں۔ قدرت نے کچھ ایسا نظام قائم کیا ہے جس میں یہ تین نوعیں تخلیق کارکن بن گئی ہیں۔ ان ہی کے ذہن سے تخلیق کی لہریں خارج ہو کر کائنات میں منتشر ہو تی ہیں اور جب یہ لہریں معّین مسافت طے کر کے معّین نقطہ پرپہنچتی ہیں تو کائناتی مظاہر کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 329 تا 330
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔