کائنات کی رکنیت
مکمل کتاب : قلندر شعور
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=9208
اللہ یہ چاہتا ہے کہ کائنات کے اندر مَوجود ہر شئے مسلسل حرکت میں رہے۔ جو بندے اللہ کے اس فرمان، اس خواہش اور اس وصف کو قبول کرکے جدّوجہد کرتے ہیں وہ کائنات کے رکن بن جاتے ہیں اور یہ رکنیت کائنات کو متحرّک اور فعال رکھتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ نَوعِ انسانی کے افراد کو پیدائش کے وقت ذہنی طور پر پس ما ندہ، پاگل یا مخبوط الحواس کر دے تو انسان کیا کر سکتا ہے اور اس سے کون سی ترقی ممکن ہے۔ کیا ہم نہیں دیکھتے کہ ایسے بھی بچے پیداہوتے ہیں جو ترقی اور تنزلی سے واقف ہی نہیں ہوتے۔
ابھی ہم نے بتایا کہ وہ لوگ جن کے اندر اللہ کی ذات کے ساتھ وابستگی ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کے ہر عمَل پر اللہ محیط ہے۔ جس کسی بندے کے اندر یہ طرزِ فکر پوری طرح قائم ہو جاتی ہے تو روحانیت میں ایسے بندے کا نام مُستغنی ہے۔ جب کوئی بندہ مُستغنی ہو جاتا ہے تو اس کے اندر ایسی طرزِ فکر قائم ہو جاتی ہے کہ وہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ میرا تعلّق ایک ہستی کے ساتھ قائم ہے جو میری زندگی پر محیط ہے۔ با ر بار جب یہ احساس اُبھرتا ہے تو یہ احساس ایک مَظاہراتی شکل اِختیار کر لیتا ہے اور وہ یہ دیکھنے لگتا ہے کہ رَوشنی کا ایک دا ئرہ ہے اور میں اس دائرے میں مَوجود ہوں۔ یہ دائرہ ایک رَوشنی ہے اور اس رَوشنی میں بشمول انسان ساری کائنات بند ہے۔ اس بات کو تمام آسمانی کتابوں نے بہت وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ آسمانی کتابیں بتاتی ہیں کہ آسمان اور زمین جس بساط پر قائم ہے وہ ایک رَوشنی ہے۔ جو ہر لمحہ ہر آن کائنات کی ہر چیز کو اللہ کے ساتھ وابستہ کئے ہُوئے ہے۔ مستغنی آدمی کی نظر جب اس دائرے یا رَوشنی کے ہالے پر ٹھہرتی ہے تو اس کی نظروں کے سامنے وہ فارمولے آ جاتے ہیں جن فارمولوں سے تخلیق عمَل آتی ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 67 تا 68
قلندر شعور کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔