کائناتی فلم
مکمل کتاب : قلندر شعور
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=9034
ایک آدمی جب عاقل، بالغ اور باشعور ہوتا ہے تو اسے زندگی گزارنے کیلئے وسائل کی ضرورت پیش آتی ہے اور وسائل کو حاصِل کرنے کیلئے روپیہ پیسہ ایک میڈیم کی حیثیت رکھتا ہے۔ بات کچھ اس طرح ہے ایک آدمی کیلئے پیدا کرنے والی ہستی نے ایک لاکھ روپے متعیّن کر دیئے اسی طرح جیسے ایک لاکھ روپے کسی بنک میں جمع کر دیئے جاتے ہیں۔ وسائل کو استعمال کرنے کیلئے آدمی کوشش اور جدّوجہد کرتا ہے۔ کوشش اور جدّوجہد جیسے جیسے کامیابی کے مراحِل طے کرتی ہے اس کو روپیہ ملتا رہتا ہے۔ اور ضرورت پوری ہوتی رہتی ہے۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ اٹل ہے کہ اگر کائناتی فلم (لوحِ محفوظ) میں وسائل کا ریکارڈ اور زرِمبادلہ متعیّن نہ ہو تو ڈسپلے (Display) ہونے والی فلم نامکمل رہتی۔ ایک آدمی کے نام سے بنک میں کروڑوں روپے کا زرِ مبادلہ مَوجود ہے لیکن وہ اسے نہ استعمال کرتا ہے اور نہ ہی اس طرف متوجّہ ہوتا ہے تو یہ زرِ مبادلہ اس کے کام نہیں آتا۔
ایک طرزِ فکر یہ ہے کہ ایک آدمی باوُجود اس کے ضمیر مَلامت کرتا ہے اپنی روزی حرام طریقے سے حاصِل کرتا ہے، رزقِ حلال سے بھی دو روٹی کھاتا ہے اور رزقِ حرام سے بھی وہ شکم سَیری کرتا ہے۔ لیکن یہ بات مُسلَّمہ ہے کہ اس دنیا میں اسے جو کچھ مل رہا ہے وہ پہلے سے فلم کی صورت میں مَوجود ہے۔
ایک آدمی محنت مزدوری کرکے ضمیر کی رَوشنی میں روپیہ حاصِل کرتا ہے، دوسرا آدمی ضمیر کی مَلامت کی پرواہ نہ کرتے ہُوئے روپیہ حاصِل کرتا ہے۔ دونوں صورتوں میں اسے وہی روپیہ مل رہا ہے جو لوحِ محفوظ پر اس کیلئے جمع کر دیا گیا ہے۔ یہ بڑی عجیب بات ہے اور اِنتہائی درجہ نادانی ہے کہ ایک آدمی اپنی ہی حلال چیز کو حرام کر لیتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 51 تا 52
قلندر شعور کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔