پہاڑ اُڑتے ہیں
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=26246
افراد کی طرح زمین بھی عقل وشعوررکھتی ہے۔زمین جانتی ہے کہ انارکے درخت میں امرود نہیں لگتااور امرودکے درخت میں انار نہیں لگتے۔وہ مٹھاس،کھٹاس،تلخ اورشیریں سے بھی واقف ہے۔اس کے علم میں ہے کہ کانٹے بھرے پودے میں پھول زیادہ حسین لگتاہے۔کانٹوں کے بغیر پودے میں کتنا ہی خوش رنگ پھول ہو،پھول میں کتنے ہی رنگوں کا امتزاج ہولیکن پھول کی قیمت وہ نہیں جو کانٹوں کے ساتھ لگے ہوئے پھول کی ہے۔زمین اس بات کا علم بھی رکھتی ہے کہ اس کی کوکھ میں قسم قسم کے بیجوں کی نشوونما ہوتی ہے۔زمین جہاں بیشمار رنگوں سے مزین پھول پیداکرتی ہے تلخ وشیریں پھل اگاتی ہے۔ پرندوں، چوپایوں کی تخلیق کرتی ہے وہاں اپنی حرکت کومتوازن رکھنے کے لئے پہاڑ بھی بناتی ہے۔لیکن یہ میلوں میل طویل اور آسمانوں سے باتیں کرتے ہوئے بلند وبالا پہاڑجب ظاہرالوجود میں نظر آتے ہیں توزمین پرجمے ہوئے نظرآتے ہیں اور جب پہاڑوں کا باطن الوجود نظرآتاہے توپہاڑ اڑتے ہوئے بادل دکھائی دیتے ہیں۔
’’تم گمان کرتے ہو کہ پہاڑ جمے ہوئے ہیں حالانکہ پہاڑ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہیں‘‘
(سورۃنمل آیت نمبر ۸۸)
آدم زاد نہیں تھاتب بھی زمین تھی۔آدم زاد نہیں ہوگا تب بھی زمین رہے گی۔ظاہر الوجود ایک ذرہ تھاذرے میں دوسرا ذرہ شامل ہواتوایک سے دو ذرات ہوئے اورذرات کی تعداد اتنی بڑھی کہ ایک وجود بن گیا۔
قلندر دو حروف جانتا ہے اور وہ دو حروف یہ ہیں:
کوئی نہیں ـ․․․․․․․کبھی نہیں
دانشور، سائنس دان، علامہ،مفتی،مشائخ کہتے ہیں دو لفظ ہیں۔
نفی ـــ․․․․․․اثبات
تصوف بتاتاہے کہ اثبات نہیں صرف نفی ہی مادے کی اصل ہے۔
تجزیہ :
ہمارے سامنے مٹی کا ایک ڈھیلا ہے اسکا وزن دو کلو ہے۔اس دوکلو وزنی ڈھیلے کو کسی آدمی کی کمر پر مارا جائے تو چوٹ لگے گی۔مٹی کے ڈھیلے کو پیس کر آٹے کی طرح کرلیں تو ہوا میں اڑ جائیگا۔سوال یہ ہے کہ دوکلو وزن کدھر گیا؟
کیا اس پسے ہوئے ڈھیلے کے ذرات کو کسی کی کمر پر مارا جائے تو چوٹ لگے گی؟تجربہ شاہد ہے کہ چوٹ نہیں لگے گی۔یہ بھی مشاہدہ ہے کہ مٹی کے ڈھیلے کوکتنا ہی پیس لیا جائے ذرات موجود رہیں گے اور کسی طریقے پر ان ذرات کوپھر جما دیا جائے اور کسی آدمی کی پشت پر مارا جائے تو چوٹ لگے گی۔
حقیقت یہ منکشف ہوئی کہ بہت زیادہ زرات کا جمع ہونا، ایک دوسرے میں پیوست ہوجانایاباہم دیگرہم آغوش ہوجاناکشش ثقل یعنی اثبات (ظاہرالوجود) ہے۔ ظاہر الوجود تو رہے گا مگرظاہر الوجودکی اصل فنا ہے۔قلندر جب فنائیت کا ذکر کرتا ہے تووہ ظاہر الوجود کی نفی کرتاہے۔کیوں نفی کرتاہے اس لئے کہ اس کی نظر باطن الوجود کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتی۔
Mقلندر جزو دو حرف لاالہٰ کچھ نہیں رکھتا
فقیہہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا
¨ جیسے جیسے نفی کا عمل بڑھتا ہے،ظاہر الوجودانسان باطن الوجود انسان میں داخل ہوتارہتاہے۔جب کوئی انسان باطن الوجود بن جاتاہے اور خودکوباطن الوجود میں دیکھ لیتا ہے تو مادی دنیا سے نکل کرنور کی دنیا میں داخل ہوجاتاہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ آدم برادری کا ہر فرد روح اور جسم(مادہ) کا مجموعہ ہے۔ آدم زاد کے اندر تین حصے پانی ہر وقت جسم کی کارکردگی کوبحال رکھتا ہے۔ شریانوں وریدوں میں خون دور کرتارہتاہے۔پھیپھڑوں کا پھیلنااور سکڑنا بھی ہوا اور آکسیجن کے اوپر قائم ہے۔جس زمین پر آدم رہتا ہے چلتا پھرتا ہے مکروفریب کی دنیا بساتاہے کبرو نخوت سے اس کی گردن اونٹ کا کوہا ن بنی رہتی ہے۔جس دھرتی کی کوکھ سے وسائل پیداہوتے ہیں اور جو دھرتی آدم زاد کواس کی تمام تر رعونت اورتعفن کے ساتھ اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے وہ بھی مادیت ہے۔
اس کے بر عکس روح لطیف ہے،پاکیزہ ہے اورعالم قدس سے ہم رشتہ ہے۔تجلی اسے فیڈ کرتی ہے۔روح اﷲ کی محبت اور قربت سے توانا رہتی ہے۔
جس طرح جسم مادی غذا نہ ہونے سے کمزور ہوجاتاہے اس طرح اگر روح کو قربِ الٰہی حاصل نہ ہو توضعیف ہوجا تی ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 275 تا 277
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔