پتھر کی مورتیاں
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=26517
ایک روز انہوں نے اپنے والد آذرسے پوچھا:
’’اے میرے باپ! کیوں پوجتا ہے جو چیز نہ سنے، نہ دیکھے اور نہ کام آوے تیرے کچھ۔‘‘
(سورۃمریم آیت نمبر ۴۲)
حضرت ابراہیم ؑ کے والد نے جو کچھ جواب میں کہا حضرت ابراہیم ؑ کے علم نے اس کی نفی کردی، حضرت ابراہیم ؑ کے اندر علم کے بعد تفکر اورتفکر کے بعد یقین کا پیٹرن متحرک ہوا تو انہوں نے سوچا کہ:
ہر شے مقررہ قاعدے اور ضابطے کے تحت خود بخود کیسے متحرک ہے؟
کون ہے جو روزانہ سورج کو طلوع کرتا ہے؟
کون ہے جو دن کے اجالے کو تاریکی میں بدل دیتا ہے؟
کون ہے جو درختوں کی شاخوں میں سے پھل نمودار کرتا ہے؟
بارش کون برساتا ہے؟
لہلہاتی کھیتیاں کون اگاتا ہے؟
کون ہے وہ ہستی جس کی عمل داری میں کائنات کا ہر فرد اپنے کام میں لگا ہوا ہے، آپس میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہوتا اور کبھی کوئی اختلاف واقع نہیں ہوتا۔
نتیجہ میں حضرت ابراہیم ؑ نے لکڑی سے بنائے ہوئے بتوں ، پتھر سے بنائی ہوئی مورتیوں اور مٹی چونے سے بنائی ہوئی دوسری چیزوں کو خدا ماننے سے انکار کردیا ۔
’’میں اپنا رخ اس طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا،میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘ (سورۃانعام آیت نمبر ۷۹)
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 314 تا 315
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔