نماز اور مراقبہ
مکمل کتاب : اسم اعظم
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=267
نماز اور مراقبہ
عالم رنگ و بو میں جتنی اشیاء موجود ہیں وہ سب روشنیوں کے تانے بانے پر نقش ہیں۔ اور اس نقش کی مثال یہ ہے جیسے کپڑے پر کوئی پرنٹ اور قالین میں کوئی تصویر بنی ہوئی ہوتی ہے۔ جس طرح کسی کپڑے کو دیکھنے کے بعد اس کے اوپر رنگ اور نقش و نگار ہمیں نظر آتے ہیں اور تانے بانے کے جن باریک تاروں سے کپڑا بُنا ہوا ہے وہ ہمیں نظر نہیں آتا، اسی طرح انسان بھی مختلف رنگوں اور روشنیوں سے بُنا ہوا ہے۔ مادے سے بنا ہوا گوشت پوست ہمارے سامنے ہے لیکن یہ گوشت پوست کس بساط پر قائم ہے یہ ہماری ظاہری آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ اگر مادہ کی شکست و ریخت کو انتہائی حدوں تک پہنچا دیا جائے تو محض رنگوں کی جداگانہ شعاعیں باقی رہ جائیں گی۔ تمام مخلوقات اور موجودات کی مادی زندگی ایسے ہی کیمیائی عمل پر قائم ہے۔ فی الحقیقت لہروں کی مخصوص مقداروں کے ایک جگہ جمع ہو جانے سے مختلف مراحل میں مختلف نوعیں بنتی ہیں۔ اس فارمولے کو بیان کرنے سے منشاء یہ ہے کہ آدمی کی اصل مادہ نہیں ہے بلکہ آدمی کی اصل لہروں کے تانے سے بُنی ہوئی ایک بساط ہے۔ ایک طرف یہ لہریں انسانی جسم کو مادی جسم میں پیش کرتی ہیں اور دوسری طرف یہ لہریں انسان کو روشنیوں کے جسم سے متعارف کراتی ہیں ۔ جب تک کوئی آدمی مادے کے اندر قید رہتا ہے اس وقت تک وہ قید و بند اور صعوبت کی زندگی گزارتا ہے اور جب وہ اپنی اصل یعنی روشنی کے جسم سے واقف ہو جاتا ہے تو قید و بند، آلام و مصائب، پیچیدہ اور لاعلاج بیماریوں سے نجات حاصل کر لیتا ہے۔ اصلی آدمی یعنی روشنی کے آدمی سے واقفیت، زمان و مکان(Time and Space) سے آزاد ہونے کی علامت ہے۔ یہ وہی زندگی ہے جہاں غیبی علوم منکشف ہوتے ہیں اور قدم قدم اللہ کے عرفان کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی قربت اور اپنا عرفان حاصل کرنے کے لئے قوانین اور ضابطے بنائے ہیں۔ جو لوگ ان قوانین اور ضابطوں پر عمل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں بلاشبہ وہ لوگ اللہ کے دوست ہیں۔ اللہ کی دوستی حاصل کرنے کے لئے قرآن مجید نے جس پروگرام کا تذکرہ کیا ہے اس میں دو باتیں بہت اہم اور ضروری ہیں۔ “قائم کرو صلوٰۃ اور ادا کروذکوٰۃ ” قرآنی پروگرام کے یہ دونوں اجزاء، نماز اور ذکوٰۃ، روح اور جسم کا وظیفہ ہیں۔ وظیفہ سے مراد وہ حرکت ہے جو زندگی کی حرکت کو قائم رکھنے کے لئے لازم ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے:
“جب تم نماز میں مشغول ہو تو یہ محسوس کرو کہ ہم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہیں یا یہ محسوس کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے۔”
اس ارشاد کی تفصیل پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ نماز میں وظیفہ اعضاء کی حرکت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع رہنے کی عادت ہونی چاہئے۔
ذہن کا اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہونا روح کا وظیفہ ہے۔ اور اعضاء کا حرکت میں رہنا جسم کا وظیفہ ہے۔ قیام صلوٰۃ کے ذریعے کوئی بندہ اس بات کا عادی ہو سکتا ہے کہ اس کے اوپر زندگی کے ہر شعبے میں اللہ کی طرف متوجہ رہنے کا عمل جاری و ساری ہے۔
اس کتابچہ میں سوال و جواب کے آسان طریقے پر بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا عرفان کس طرح حاصل کر سکتے ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 29 تا 30
اسم اعظم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔