نظریہ رنگ و روشنی
مکمل کتاب : اسم اعظم
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=143
انسان نے اب تک رنگ کی تقریباً ساٹھ قسمیں معلوم کی ہیں، ان میں بہت تیز نگاہ والے ہی امتیاز کر سکتے ہیں، جس چیز کو اس کی نگاہ محسوس کرتی ہے، اس کو رنگ، روشنی ، جواہرات اور آخر میں کم و بیش پانی سے تعبیر کرتا ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ آسمانی رنگ کیا ہے؟ کس طرح بنا ہے؟ آیا وہ صرف خیال ہے یا کوئی حقیقت ہے۔ بہرکیف انسان کی نگاہ اسے محسوس کرتی ہے اور اسے جو نام دیتی ہے وہ آسمانی ہے۔
جب فضا گرد و غبار سے بالکل پاک ہوتی ہے تو آسمانی رنگ کی شعاعیں اپنے مقام کے اعتبار سے رنگ بدلتی ہیں۔ مقام سے مراد وہ فضا ہے جس کو انسان بلندی، پستی، وسعت اور زمین سے قربت یا دوری کا نام دیتا ہے۔ یہی حالات آسمانی رنگ کو ہلکا، گہرا اور زیادہ گہرا، زیادہ ہلکا یہاں تک کہ مختلف رنگوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
حد نگاہ سے زمین کی طرف آیئے تو آپ کو نیلے رنگ کی لاتعداد رنگین شعاعیں ملیں گی، یہاں اس لفظ رنگ کو “قِسم‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ دراصل قِسم ہی وہ چیز ہے جو ہماری نگاہوں میں رنگ کہلاتی ہے، یعنی رنگ کی قسمیں، صرف رنگ نہیں بلکہ رنگ کے ساتھ فضا میں اور بہت سی چیزیں ملی ہوتی ہیں وہ اس میں تبدیلی پیدا کر دیتی ہیں، اس چیز کو “قسم” کے نام سے بیان کرنا ہمارا منشاء ہے۔
رنگ کا جو منظر ہمیں نظر آتا ہے اس میں روشنی آکسیجن گیس، نائیٹروجن گیس اور قدرے دیگر گیسیں(Gases) بھی شامل ہوتی ہیں ان گیسوں کے علاوہ کچھ سائے (Shades) بھی ہوتے ہیں جو ہلکے ہوتے ہیں یا دبیز، کچھ اور بھی اجزاء اسی طرح آسمانی رنگ میں شامل ہو جاتے ہیں ان ہی اجزاء کو ہم مختلف قسمیں کہتے ہیں یا مختلف رنگوں کا نام دیتے ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ان میں ہلکے اور دبیز سایوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔
جس فضا سے ہمیں رنگ کا فرق نظر آتا ہے اس فضا میں نگاہ اور حدِّ نگاہ کے درمیان، باوجود مطلع صاف ہونے کے بہت کچھ موجود ہوتا ہے۔
ٹیگ: رنگ ، آسمانی رنگ، رنگ و روشنی
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 1 تا 13
اسم اعظم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔