نسبت نامہ شاہ عبدالعزیزؒ
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=21953
شاہ عبد العزیز ،شاہ ولی اﷲ کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے ، شاہ عبدالرحیم ، شاہ عبد العزیز کے دادا تھے۔جو حسب و نسب میں فاروقی تھے۔
عصر کا وقت تھا۔دہلی کی مسجد فتح پوری میں عصر کی جماعت کھڑی ہوگئی تھی۔جیسے ہی امام نے نیت باندھی مسجد کے باہر ایک شور بلند ہوا۔لوگ چیخ رہے تھے اورکہہ رہے تھے۔’’ اس شخص کو مار دو‘‘بہت سے نمازیوں نے نیت توڑ دی اور یہ دیکھنے کے لئے باہر نکل آئے کہ کیا ہورہا ہے اور یہ لوگ کون ہیں۔
بہت سے لوگ لاٹھیاں گھمارہے تھے۔کچھ لوگوں کے پاس خنجر تھے۔کچھ کے پاس تلواریں تھیں،کچھ لوگ نہتے بھی تھے اور سب نعرے لگارہے تھے۔
’’ مار دو……قتل کردو……ٹکڑے اڑادو۔‘‘
شاہ ولی اﷲ ؒ جو ان لوگوں کا ہدف تھے۔اطمینان سے نماز ادا کررہے تھے۔آپ نے پوری نما ز بلاخوف و خطر پڑھنے کے بعد چاروں طرف دیکھا۔
آپ کے معتقدین برابر یہ کہہ رہے تھے کہ: ’’ نکل چلئے،یہ لوگ دشمن ہیں۔خدا نہ کرے کیا کرجائیں۔آپ چھوٹے دروازے سے نکل جائیے۔
شاہ ولی اﷲ ؒ نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔
’’کیا یہ لوگ خدا کے گھر کو مقتل بنانا چاہتے ہیں۔اگر ہمار ا وقت نہیں آیا ہے تو کوئی ہمارا با ل تک بیکا نہیں کرسکتا اور اگر وقت آگیا ہے تو ہر شخص کو جانا ہے۔ ’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘
شور بلند ہوا !
’’ پکڑ لو ، جانے نہ پائے، بچ کر نہ جائے، اس نے ہمارے دین کو خراب کیا ہے، اس نے دین میں پیوند کاری کی ہے، اس کے ساتھی بھی اس سزا کے مستحق ہیں…یہ کافر ہیں…مرتد ہیں…انہیں قتل کردو…جہنم واصل کردو ‘‘
نعروں کے اس شور میں کچھ لوگ آگے بڑھے اور مسجد کے صحن میں گھس آئے۔ان کے تیور بگڑے ہوئے تھے۔شاہ ولی اﷲ ؒنے ان سے پوچھا:
’’کیا تم ہمیں قتل کرنے کے لئے یہاں آئے ہو؟‘‘
ان میں سے ایک شوریدہ سر نے کہا :
’’ہاں‘‘!ہم آپ کو قتل کرنے کے لئے آئے ہیں۔ آپ اس قابل نہیں ہیں کہ آپ کو زندہ چھوڑا جائے۔‘‘
شاہ صاحب ؒ نے پوچھا: ’’ ہمارا جرم کیا ہے؟‘‘
ایک شخص نے نہایت حقارت اور طنز سے بھر پور لہجے میں جواب دیا۔
’’ آپ کو اپنا جرم معلوم نہیں ہے۔کیا واقعی آپ اپنے جرم سے لاعلم ہیں، اوکافر! اب میں تجھے آپ کی بجائے تو سے مخاطب کروں گا، کیا تونے کلام پاک کا فارسی میں ترجمہ نہیں کیا، کیا یہ کتا بُ اﷲ کی توہین نہیں ہے، تونے لوگوں کو گمراہ کردیا ہے، تیری سزا پھانسی یا قتل ہے، ہم تیری گردن اڑا دیں گے۔‘‘
اس جواب پر شاہ صاحب ؒ کو غصہ آگیا۔
ان کے ہاتھ میں ایک پتلی سی چھڑی تھی انہوں نے چھڑی اٹھائی اور’’ اﷲ ہو‘‘ کا نعرہ مستانہ بلند کیا۔
کیا اثر تھا اس نعرے میں، شاہ صاحب اور ان کے ساتھی بھی یکے بعد دیگرے مسجد سے نکل گئے۔مجمع کائی کی طرح پھٹ گیا۔
اب شاہ صاحب ؒ کھاری باؤلی تک پہنچ گئے تھے کسی نے زور سے پکارا۔
’’یہ بہروپیا بھاگنے نہ پائے‘‘
لیکن یہ نعرہ بے اثر ثابت ہوا۔لوگ بت بنے کھڑے تھے جیسے پتھر کے مجسمے ہوں۔
شاہ صاحب ؒ گھر پہنچے تو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ؒ اپنے لڑکپن کی بناء پر شاہ ولی اﷲؒ سے لپٹ گئے۔اور رونے لگے کیونکہ اس ’’ہاؤہو‘‘ کی اطلاع پوری دلی میں پھیل چکی تھی اور گھر والوں کوبھی اس کی خبرمل گئی تھی۔
شاہ ولی اﷲ ؒ نے کہا ’’ بیٹے! تجھے معلوم نہیں کہ دنیا والے میرے اور تیرے نبی صلیِاﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو کیا کیا اذیتیں دے چکے ہیں۔بیٹے! آنسو پونچھ لو۔ہم عنقریب جانے والے ہیں، ہماری میراث علم ہے، تم اسے سنبھال لو۔‘‘
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ؒ نے جو اس وقت لڑکپن کے دور سے گزر رہے تھے اپنی گردن جھکا لی اور عرض کیا۔
’’ جو اﷲ کی مشیٔت،اگر اﷲ ہم سے یہ خدمت لینا چاہتا ہے تو ہم اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس علمی اور عملی خدمات میں خرچ کردیں گے۔‘‘
سن ۱۱۷۷ہجری میں شاہ ولی اﷲ ؒنے وصال فرمایا۔وصال کے وقت شاہ عبدالعزیز ؒ کی عمر اٹھارہ برس تھی۔
واضح رہے کہ بر صغیر میں محدثین کا جو سلسلہ ہے وہ یا تو شاہ عبدالعزیز ؒ سے براہ راست پہنچا ہے یا ان کے کسی بزرگ کے واسطے سے۔شاہ ولی اﷲ ؒکے والد شاہ عبدالرحیم بھی فتاویٰ عالمگیری لکھنے میں شریک تھے۔
شاہ عبدالعزیز ؒ سن ۱۱۵۹ہجری میں پیدا ہوئے ان کا تاریخی نام غلام علیم تھا۔اس نا م کے اعداد ۱۱۵۹ بنتے ہیں۔
تیس پشتوں کے بعد ان کا نسب نامہ حضرت عمر فاروق ؓ سے جاملتا ہے۔ان کے دادا شاہ عبدالرحیم ؒنے دہلی میں ’’مدرسہ رحیمیہ‘‘ قائم کیا تھا۔شاہ عبدالرحیم ؒ عالمگیر کے دور میں جلیل القدر علماء میں شمار ہوتے تھے۔آپ ؒ کو شاہ ولی اﷲ ؒ کے پیدا ہونے کی بشارت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ نے دی تھی۔
شاہ عبدالرحیم ؒ فرماتے ہیں:
’’ ایک مرتبہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ کے مزار پر زیارت کے لئے گیا۔میں ایک اونچی جگہ کھڑا تھا۔دفعتاََ نظر اٹھی اور دیکھا،خواجہ قطب الدین ؒ کی روح ظاہر ہوئی اور فرمایا ، ’’ تیرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوگا۔اس کا نا م میرے نام پر رکھنا یعنی قطب الدین‘‘ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ کا یہ ارشاد سن کر میں حیران رہ گیا اور سوچا۔میری بیوی تو اس عمر کو پہنچ چکی ہے جہاں اولاد نہیں ہوتی۔
کچھ عرصے بعد میرے دل میں دوسرے نکاح کی خواہش پیدا ہوئی اور اس بیوی سے جو لڑکا پیدا ہوامیں نے اس کا نام ولی اﷲ رکھ دیا……خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ کا ارشاد میرے ذہن میں نہیں رہا اور میں بالکل بھول گیا۔لیکن چند سال بعد جب مجھے یہ واقعہ یاد آیا تو میں نے ولی اﷲ کا نام قطب الدین احمد رکھ دیا۔‘‘
المختصر شاہ ولی اﷲ ؒ کی پیدائش اس پس منظر میں واقع ہوئی۔شاہ ولی اﷲ ؒ چھوٹی سی عمر میں نہایت ذہین الطبع تھے۔آپ کو اﷲتعالیٰ نے ایسا جدید ذہن عطا کیا تھا جس کے نتیجہ میں آپ نے ’’ حجتہ اﷲ البالغہ‘‘ اور دوسری کتابیں لکھیں۔
جب جوانی کو پہنچے تو ان کے اندر ایک خاص طرزِ فکر اور مخصوص فراست موجود تھی۔رفتہ رفتہ وہ بڑھتی گئی۔اگر شاہ ولی اﷲ ؒ کی تمام زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو ’’الف سے ے‘‘ تک ایک سیاسی اور روحانی نظام سامنے آجائے گا۔یہ ان کی زندگی کے بارے میں ایک مختصر پس منظر تھا۔
ان کی سب سے بڑی اولادشاہ عبدالعزیزدہلوی ؒ سے ایسے کمالات ظاہر ہوئے جو شاہ ولی اﷲؒ سے رہ گئے تھے۔ مثلاََ ان کا جنوں کے لڑکوں کو تعلیم دینا۔ایسے انکشافات جوصاحبان خدمت سے متعلق انہوں نے کئے۔بہر کیف یہاں ان کا جنات سے جو تعلق تھا اس کو بیان کرنا مقصود ہے۔
حکیم صاحب،لڑکی کے کہنے کے مطابق سوداگر کے گھر گئے اور اس کمرے میں کافی دیر تک بیٹھے رہے اور اس لڑکی سے پوچھتے رہے۔
لڑکی اشاروں سے بتاتی رہی کہ وہ میرے سامنے کھڑا ہے۔اب وہ میرے قریب آرہاہے۔اب وہ دیوار سے لگا ہو ا میری طرف دیکھ رہا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 100 تا 104
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔