نسبتِ عِلمیّہ
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=20215
* صحابہ کرام کے دور میں اور قرونِ اولیٰ میں لوگوں کو مرتبہ احسان حاصل تھا ان کے لطائف حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت سے رنگین تھے۔ان کی توجہ زیادہ تر حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق غورو فکر میں صرف ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے روحانی قدروں کے جائزے زیادہ نہیں لیے چونکہ ان کی روحانی تشنگی حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اقوال پر توجہ صرف کرنے میں پوری ہوجاتی تھی۔ ان کو احادیث میں بہت زیادہ شغف تھا ا ِ س انہماک کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ لوگوں کے ذہن میں احادیث کی صحیح ادبیت، ٹھیک ٹھیک مفہوم اور پوری گہرائیاں موجود تھیں۔ صحابہ کرام اور صحابیات احادیث پڑھنے کے بعد اور احادیث سننے کے بعد حدیثوں کے انوار سے پورا استفادہ کرتے تھے۔ اس طرح انہیں الفاظ کے نوری تمثلات کی تلاش کی ضرورت نہیں پڑتی تھی وہ الفاظ کے نوری تمثلات سے روشناس تھے۔
صحابیات اور صحابہ کرام کی روحیں قرآن پاک کے انوار۔نورِقدس اور نورِنبوت سے لبریز تھیں۔ ا س دور میں روحانی قدروں کا ذکر نہ ہونا غالباً اس ہی وجہ سے تھا کیونکہ صحابہ کرام کو لطائف کے رنگین کرنے میں الگ سے جدوجہد نہیں کرنا پڑتی تھی۔
البتہ تبع تابعین کے بعد لوگوں کے دلوں سے قرآن پا ک اور احادیث کے انوار جب معدوم ہونے لگے تو اُ س دور کے لوگوں نے تشنگی محسوس کرکے وصول الی اللہ کے ذرائع دریافت کیے چناچہ شیخ نجم الدین کبریٰ اور ان کے شاگرد مثلاً شیخ شہاب الدین سہروردیؒ، شیخِعبدالقادر جیلانیؒ، خواجہ معین الدین چشتی ؒ اور ان کے رفقاء ایسے لوگ تھے جنہوں نے قرب نوافل کے ذریعے وصول الی اللہ کی طرزوں میں لاشمار اختراعات کیں اور طرح طرح کے اذکار اشغال کی ابتداء کی۔یہ طرزیں شیخ حسن بصری کے دور میں نہیں ملتیں۔
باذوق وبا مراد اِن قدسی نفس لوگوں نے اللہ تعالی ٰ کی صفات جاننے میں انہماک حاصل کیا اور پھر ذات کو سمجھنے کی قدریں قائم کیں اسی ربط کانام صوفی حضرات نسبتِ علمیہ رکھتے ہیں کیونکہ اس ربط یا ضبط کے اجزاء زیادہ تر جاننے پر مشتمل ہیں۔
جب اللہ تعالیٰ کی صفات کو سمجھنے کے لئے کوئی صوفی فکر کا اہتمام کرتا ہے اِس وقت وہ معرفت کی ان راہوں پر ہوتا ہے جو ذکر کے ساتھ فکر کے اہتمام سے لبریز ہوتی ہیں ۔ اِس راستے کو قربِ نوافل کہتے ہیں۔
* لوح و قلم
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 68 تا 68
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔