نسبتِ جذب
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=20209
یہ وہ نسبت ہے جس کو تبع تابئعین کے بعد سب سے پہلے حضرت بہاؤالدین نقشبندؒ نے نشان ِبے نشانی کا نام دیا ہے اِس ہی کو نقشبندی جماعت ‘‘یادداشت’’ کا نام دیتی ہے۔جب عارف کا ذہن اس سمت میں رجوع کرتا ہے جس سمت ازل کے انوار چھائے ہوئے ہیں اور ازل سے پہلے کے نقوش موجود ہیں۔یہی نقوش عارف کے قلب پر بار بار دور کرتے ہیں اور صرف ’’وحدت‘‘ عارف کی فکر اور سوچ کا احاطہ کرلیتی ہے اور ہر طرح ہوئیت کا تسلط ہوجاتا ہے۔اس نسبت کی شعاعیں روح پر نزول کرتی ہیں اور جب عارف ان میں گِھر جاتا ہے اور کسی طرف نکلنے کی راہ نہیں پاتا تو عقل ِشعور سے دستبردار ہو کر خود کو اِس نسبت کی روشنیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔
نسبت کی بہت سی قسمیں ہیں ہم نے نسبت سے آگاہی اور نسبت کے مفہوم سے باخبر ہونے کے لئے چند نسبتوں کا ذکر کیا ہے۔
نسبت سے مراد یہ ہے کہ جس بزرگ سے آپ کا روحانی تعلق قائم ہوجائے آپ کی طرز ِفکر اس کی طرزِفکر کے مطابق ہوجائے۔
اللہ والوں کی تعریف یہ ہے کہ ان کا ہر عمل اورہر کام اللہ کے لئے ہوتا ہے یعنی وہ اللہ کی معرفت سوچتے ہیں۔اللہ کے لئے سوتے ہیں۔اللہ کے لئے جاگتے ہیں۔ایسے الوالعزم بندوں کی زندگی اللہ کے لئے وقف ہوتی ہے وہ کہتے ہیں کہ:
’’ہمارا یقین ہے ہر اَمر اللہ کی طرف سے ہے‘‘۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 68 تا 69
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔