یہ تحریر العربية (عربی) میں بھی دستیاب ہے۔
ناشکری
مکمل کتاب : تجلیات
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=3010
وہ ایسی ذات ہے جس نے تمہارے واسطے آسمان سے پانی برسایا جو تم کو پینے کو ملتا ہے اور اسی سے درخت پیدا ہوئے ہیں جن میں تم چرندے چھوڑ دیتے ہو وہ اس پانی سے تمہارے لئے کھیتی، زیتون، کھجور، انگور اور ہر قسم کے پھل اُگاتا ہے۔ بے شک اس میں سوچنے والوں کے لئے دلیل موجود ہے۔ (قرآن)
بارش کے بعد آسمان کھل جاتا ہے اور ہوا بادلوں کو اڑا کر لے جاتی ہے۔ نہ مسلسل بارش برستی ہے اور نہ آسمان کھلا ہی رہتا ہے۔ دونوں حالتیں یکے بعد دیگرے واقع ہوتی رہتی ہیں۔ اگر بارش لگاتار برستی رہے تو سبزیاں اور ترکاریاں اور ضروریات زندگی پوری کرنے کے لئے درکار غلے جل جائیں گے اور آمد و رفت کے راستے مخدوش ہو جائیں گے۔ کاربار حیات میں رخنہ در آئے گا۔ اس کے برعکس اگر بارش برسنا ہی بند ہو جائے اور آسمان کھلا رہے تو چشموں اور جھیلوں کا پانی سڑ کر خشک ہو جائے گا، ہوا میں زہر ناکی شامل ہو جائے گی اور اس طرح روئے زمین پر بیماریاں پھیل جائیں گی، چراگاہیں سوخت ہو جائیں گی، پھول پھلواری نہیں رہے گی تو مکھیاں پھولوں سے شہد حاصل نہیں کر سکیں گی اور اس طرح شہد کی پیداوار ہی ختم ہو جائے گی جس میں انسانوں کے لئے شفا رکھ دی گئی ہے۔
’’اتارتا ہے اندازہ سے جس کو چاہتا ہے، وہ اپنے بندوں سے باخبر ہے اور ان کو دیکھتا ہے۔‘‘ (قرآن)
ہر جان دار کی زندگی کا مدار ہوا پر ہے۔ اگر ہوا ایک لمحہ کے لئے بھی رک جائے تو ہر جاندار کے اوپر موت وارد ہو جائے۔ پانی جس کی اہمیت کا تذکرہ ہو چکا ہے اس کو آسمان سے لانے میں اسی ہوا کا عمل دخل ہے۔ پہلے حرارت کو سورج کی مدد سے بخارات میں تبدیل کر کے بلندی کی طرف اڑاتی ہے اور ان بخارات کا ذرہ ذرہ کر کے بادل بناتی ہے، پھر ان بادلوں کو فضا میں چلاتی پھراتی ہے اور اِدھر اُدھر لے جاتی ہے۔ اور یہ بخارات بارش کے قطرے بن کر زمین کو جھل تھل کرتے رہتے ہیں۔ امام غزالی فرماتے ہیں:
مشرقی ہوا بادلوں کو اوپر کی جانب جنبش دیتی ہے، شمالی ہوا بادلوں کے ٹکڑوں کو یکجا کرتی ہے، جنوبی ہوا ان کو رسنے کے قابل بناتی ہے۔ پھر مغربی ہوا قطرات کی صورت میں بارش سے زمین کو سیراب کرتی ہے۔
ہم ہی ہواؤں کو بھیجتے ہیں جو کہ بادل کو پانی سے بھر دیتی ہیں اور پھر ہم ہی آسمان سے پانی برساتے ہیں، پھر وہ پانی تم کو پینے کو دیتے ہیں اور تم اتنا پانی جمع کر کے نہ رکھ سکتے تھے۔ (سورۃ الحجر)
ہوا ہی بادلوں کو اڑا کر مختلف مقامات پر لے جاتی ہے اور کاشت کار زمین میں سے غلہ اُگاتے ہیں۔ اگر ہوا نہ ہوتی تو بادل بوجھل بن کر ایک جگہ ٹھہرے رہتے اور زمین ان کے پانی سے سیراب نہ ہوتی۔ نیز کشتیاں بھی ہوا ہی کے رحم و کرم پر چلا پھرا کرتی ہیں۔ ہوا ان کو ایک ملک سے دوسرے ملک لے جا کر جگہ جگہ انسانی ضروریات کا مال و اسباب فراہم کرتی ہیں اور یوں ہر ملک دوسرے ملک کی پیداوار سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اگر ہوا نہ ہوتی تو ہر ملک کی پیداوار سے صرف مقامی مخلوق ہی فائدہ اٹھاتی۔
ہوا صفائی اور پاکیزگی پیدا کرتی ہے۔ گندگی اور عفونت کو اڑا کر لے جاتی ہے۔ ہوا گرد و غبار اور ریت اڑا کر باغوں میں لاتی ہے اور اس سے درخت اپنے لئے انرجی اور توانائی حاصل کرتے ہیں۔
ہوا سطح سمندر پر چلتی ہے تو پانی ہوا کے زور سے کتنی ہی حقیر چیزیں ساحل پر لاڈالتا ہے۔ یہ سب اس خداوند قدوس کی حکمت و مصلحت ہے جس کی زبردست تدبیر سے نظام عالم چل رہا ہے۔
اللہ اکبر!
حیرت کا مقام ہے کہ کارخانۂ قدرت کی ایک ایک چیز کیا کیا حیرت انگیز کام کر رہی ہے اور اشرف المخلوقات انسان کی حیات کے لئے سرگرداں ہے۔
اے انسان!
کچھ تو غور کر کہ تو کن کن طریقوں سے اللہ تعالیٰ کی ناشکری کر رہا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 135 تا 137
یہ تحریر العربية (عربی) میں بھی دستیاب ہے۔
تجلیات کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔