ملک الموت اورایک عورت کا مکالمہ
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=24972
میں نے مراقبہ موت میں دیکھا کہ کھیت کے کنارے ایک کچا کوٹھا بنا ہوا ہے۔ کوٹھے کے باہر چہار دیواری ہے۔ چہار دیواری کے اندر صحن ہے۔ صحن میں ایک گھنا درخت ہے۔ غالباً یہ درخت نیم کا ہے۔ اس درخت کے نیچے بہت سے لوگ جمع ہیں۔ میں بھی وہاں پہنچ گیا۔ میں نے دیکھا ایک عورت کھڑی ہے اور ایک صاحب سے الجھ رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ تم میرے خاوند کو نہیں لے جاسکتے۔ وہ صاحب کہتے ہیں کہ میں اس معاملے میں تمھاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ یہ تو اﷲتعالیٰ کے معاملات ہیں۔ وہ جس طرح چاہتے ہیں اسی طرح ہوتا ہے۔ عورت نے ’’ہائے‘‘کہہ کر زور سے اپنے دونوں ہاتھ سینے پر مارے اور زارو قطار رونے لگی۔
میں آگے بڑھا اور پوچھا ’’ کیا بات ہے؟آپ اس عورت کو کیوں پریشان کررہے ہو ‘‘ ان صاحب نے کہا’’ مجھے غور سے دیکھو اور پہچانو کہ میں کون ہوں؟‘‘
میں نے مراقبہ کیا تو مراقبہ میں دیکھا کہ یہ حضرت ملک الموت ہیں۔ میں نے بہت ادب سے سلام کیا او ر مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھا دیئے۔ حضرت عزرائیل ؑ نے مصا فحہ کیا۔ جس وقت میں نے ان سے ہاتھ ملائے تو محسوس ہوا کہ پورے جسم میں بجلی کا کرنٹ دوڑ رہا ہے۔ کئی جھٹکے بھی لگے ان جھٹکوں کی وجہ سے میں کئی کئی فٹ اوپر اچھل گیا۔ آنکھوں میں سے چنگاریاں نکلتی نظر آئیں۔
میں نے پوچھاـ: ’’اس عورت کے خاوند کا کیا معاملہ ہے؟‘‘
حضرت عزرائیل ؑ نے کہا: ’’یہ صاحب اﷲ تعالی کے برگزیدہ بندے ہیں۔ یہ عورت ان کی بیوی ہے اور یہ بھی اﷲ کی برگزیدہ بندی ہے۔ دنیا میں ان کا وقت ختم ہوگیا ہے۔ لیکن مجھے یہ ہدایت ہے کہ اگر ہمارا بندہ خود آنا چاہے تو روح قبض کرنا۔ اﷲتعالیٰ کا یہ بندہ راضی برضا ہے اور اس دنیا سے سفر کرنے کے لئے بیقرار ہے لیکن بیگم صاحبہ کا اصرار ہے کہ میں اپنے شوہر کو نہیں جانے دوں گی تاوقتیکہ ہم دونوں پر ایک ساتھ موت وارد ہو ‘‘۔
اس احاطہ میں مٹی اور پھونس کے بنے ہوئے ایک کمرے کے اندر ملک الموت میرا ہاتھ پکڑکر لے گیا۔ وہاں ایک خضر صورت بزرگ بھورے رنگ کے کمبل پر لیٹے ہوئے ہیں۔یہ کمبل زمین پر بچھا ہوا ہے۔ سرہانے چمڑے کا ایک تکیہ رکھا ہوا ہے۔
کہیں کہیں سے سلائی ادھڑی ہوئی ہے ا س میں سے کھجور کے پتے دکھائی دے رہے ہیں۔ داڑھی گول اور چھوٹی ہے۔ لمبا قد اور جسم بھرا ہواہے، پیشانی کھلتی ہوئی،آنکھیں بڑی بڑ ی اور روشن ہیں۔ پیشانی سے سورج کی طرح شعائیں نکل رہی ہیں۔
حضرت ملک الموت نے کمرے میں داخل ہو کر کہا:’’السلام وعلیکم یا عبداﷲ!‘‘
میں نے بھی ملک الموت کی تقلید میں: ’’ السلام و علیکم یا عبداﷲ کہا‘‘
حضرت عبداﷲ (غالباً ان کا نام عبداﷲ ہی ہو گا ) نے ملک الموت سے پوچھا : ’’ہمارے خالق کا کیا حکم لائے ہو؟‘‘
ملک الموت نے سرجھکا کر عرض کیا:
’’اﷲتعالیٰ نے آپ کو یاد فرمایا ہے‘‘۔ ملکِالموت دو ذانو ہو کر ان بزرگ کے پاؤ ں کی طرف بیٹھ گیا۔ بزرگ خوشی خوشی عاجزی کے ساتھ لیٹ گئے۔ جسم نے ایک جھرجھری لی او راس برگزیدہ ہستی کی روح پرواز کر گئی۔ فرشتہ آسمان میں اڑگیا۔اتنا اونچا، اتنا اونچا کہ نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 236 تا 238
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔