معاشرہ اور عقیدہ
مکمل کتاب : قلندر شعور
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=9363
آدمی جس معاشرے میں تربیت پا کر جوان ہوتا ہے وہ معاشرہ اس کا عقیدہ بن جاتا ہے۔ اُس کا ذہن اِس قابل نہیں رہتا کہ اُس عقیدے کا تجزیہ کر سکے، چنا نچہ وہ عقیدہ یقین کا مقام حاصِل کر لیتا ہے حالانکہ وہ محض فریب ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہم بتا چکے ہیں کہ آدمی جو خود کو ظاہر کرتا ہے حقیقتاً وہ ایسا نہیں ہے…. بلکہ اس کے برعکس ہے۔
اس قسم کی زندگی گزارنے میں بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں….. ایسی مشکلات جن کا حل اُس کے پاس نہیں ہے۔ اب قدم قدم پر اسے خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ اس کا عمَل تلف ہو جائے گا اور بےنتیجہ ثابت ہو گا۔ بعض اوقات یہ شک یہاں تک بڑھ جاتا ہے کہ آدمی یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اُس کی زندگی تلف ہو رہی ہے اور اگر تلف نہیں ہو رہی تو سخت خطرے میں ہے…. اور یہ سب ان دماغی خلیوں کی وجہ سے ہے جن میں تیزی سے ٹُوٹ پُھوٹ واقع ہو رہی ہے۔
جب آدمی کی زندگی وہ نہیں ہے جسے وہ گزار رہا ہے یا جسے وہ پیش کر رہا ہے تو جس پر اس کا عمَل ہے، وہ اس عمَل سے وہ نتائج برآمد کرنا چاہتا ہے جو اس کے حسبِ خواہ ہوں…. لیکن دماغی خلیوں کی تیزی سے ٹُوٹ پُھوٹ اور ردّ و بدل قدم قدم پر اس کے عمَلی راستوں کو بدلتی رہتی ہے، اور وہ یا تو بے نتیجہ ثابت ہوتے ہیں یا ان سے نقصان پہنچتا ہے یا ایسا شک پیدا ہوتا ہے جو قدم اٹھانے میں رکاوٹ بنتا ہے۔
آدمی کے دماغ کی ساخت دراصل اس کے اختیار میں ہے۔ ساخت سے مراد دماغی خلیوں میں :
1. تیزی سے ٹُوٹ پُھوٹ…
2. اعتدال میں ٹُوٹ پُھوٹ… یا
3. کم ٹُوٹ پُھوٹ ہونا ہے….
یہ محض اِتفاقیہ امر ہے کہ دماغی خلیے کی ٹُوٹ پُھوٹ کم سے کم ہو جس کی وجہ سے وہ شک سے محفوظ رہتا ہے لیکن جس قدر شک اور بے یقینی دماغ میں کم ہو گی اسی قدر آدمی کی زندگی کامیاب گزرے گی اور جس مُناسبت سے شک اور بے یقینی کی زیادتی ہو گی، زندگی ناکامیوں میں بسر ہو گی۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 121 تا 122
قلندر شعور کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔