مراقبہ کے لیے بہترین اوقات
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=23019
۱) تہجد کے وقت
۲) فجر کی نمازسے پہلے یا بعد میں
۳) ظہر کی نماز کے بعد
۴) عشاء کی نمازکے بعد
مراقبہ کس طرح کیا جائے:
۱) مراقبہ کی بہترین نشست یہ ہے کہ سالک نماز کی طرح بیٹھے۔
۲) آلتی پالتی مار کر بیٹھا جائے۔
۳ ) دونوں زانوں پر ہاتھ رکھ کر حلقہ بنالیا جائے۔کپڑا یا پٹکا بھی کمر اور ٹانگوں پر باندھا
جاسکتا ہے۔
۴ ) مراقبہ میں مرشد سے رابطہ قائم ہوناضروری ہے۔
۵) آنکھیں بند ہوں اور نظر دل کی طرف متوجہ ہو۔
۶) نما ز کی طرح بیٹھ کر آسمان کی طرف دیکھا جائے۔آنکھوں کی پتلیاں اوپر کی طرف ہوں۔
۷) ․ ناک کی نوک پر نظر جمائی جائے۔
۸ ) کمر اور گردن سیدھی رہنی چاہئے۔لیکن سیدھا رکھنے میں کمر اور گردن میں تناؤ نہ ہو۔
۹) سانس آنے جانے میں ہم آہنگی ہو۔سانس دھونکنی کی طرح نہ لیا جائے۔
۱۰) مراقبہ خالی پیٹ کیا جائے۔
۱۱ ) نیند کا غلبہ ہو تو نیند پوری کرلی جائے پھر مراقبہ کیا جائے۔
۱۲ ) مراقبہ کے ذریعے لوگوں کے دلوں کی باتیں معلوم ہوسکتی ہیں۔دوسرے کسی آدمی کو ماورائی
چیزیں دکھائی جاسکتی ہیں۔مطلب براری کے لئے لوگوں کو متاثر کیا جاسکتا ہے۔مگر یہ سب
استدراج کے دائرے میں شمار ہوتا ہے اور استدراج شرعاََ ناجائز ہے۔اور بالآخر آدمی خسارہ
میں رہتا ہے۔دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔خلاف ِ شرع باتوں سے لازماََ اجتناب کرنا
چاہئے۔
۱۳) مراقبہ سے پہلے اگر کچھ پڑھنا ہو تو وہ پڑھ کر شمال رخ آنکھیں بند کر کے بیٹھ جائے
(اگر مغرب کی طرف منہ کیا جائے تو شمال سیدھے ہاتھ کی طرف ہو گا۔ کسی بھی رخ منہ کر
کے مراقبہ کیا جاسکتا ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ شمال رخ منہ رہے)ذہن اس طرف متوجہ رکھا
جائے جس چیز کا مراقبہ کیا جا رہا ہے۔
۱۴) مراقبہ کے دوران خیا لات آتے ہیں۔ خیالات میں الجھنا نہیں چاہئے ان کو گزر جانے
دیں اور پھر ذہن کو واپس اسی طرف متوجہ کرلیں جس چیز کا مراقبہ کیا جا رہا ہو۔کم سے
کم ۱۵ سے ۲۰ منٹ مراقبہ کے لئے کافی ہیں۔ زیادہ دیر بھی مراقبہ کیا جا سکتا ہے لیکن
ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ جس وقت دل چاہا مراقبہ کے لئے بیٹھ گئے یا تمام کام چھوڑ کر
مراقبہ ہی کرتے رہیں۔
۱۵) مراقبہ تخت یا فرش پر کرنا چاہئے۔ کرسی،صوفے، گدے یا کسی ایسی چیزپر بیٹھ کر مراقبہ نہیں کر نا
چاہئے جس سے ذہنی سکون میں خلل پڑنے کا امکان ہو۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہر امتی یہ بات جانتا ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے غار حرا میں طویل عرصے تک مراقبہ کیا ہے۔
دنیاوی معاملات، بیوی بچوں کے مسائل، دوست احباب سے عارضی طور پر رشتہ منقطع کرکے یکسوئی کے ساتھ کسی گوشے میں بیٹھ کر اﷲ کی طرف متوجہ ہونا ’’ مراقبہ‘‘ ہے۔
’’اور اپنے رب کا نام یاد کرتے رہو۔ اور سب سے قطع تعلق کر کے اس ہی کی طرف متوجہ رہو‘‘
(سورۂ المزمل آیت نمبر۸)
صاحبِ مراقبہ کے لئے ضروری ہے کہ جس جگہ مراقبہ کیا جائے وہاں شور و غل نہ ہو اندھیرا ہو۔ جتنی دیر کسی گوشے میں بیٹھا جائے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ ذہن کومقصود کی طرف متوجہ رکھا جائے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 228 تا 230
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔