مراقبہ کس طرح کیا جائے۔ خیالات میں کشمکش
مکمل کتاب : اسم اعظم
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=369
مراقبہ کس طرح کیا جائے
مراقبہ سے پہلے اگر کچھ پڑھنا ہو تو وہ پڑھ کر شمال رخ (اگر مغرب کی طرف منہ کیا جائے تو شمال سیدھے ہاتھ کی طرف ہو گا) ۔
آنکھیں بند کر کے بیٹھ جایئے۔ (بہتر یہی ہے کہ شمال رخ منہ رہے لیکن کسی بھی رخ پر منہ کر کے مراقبہ کیا جا سکتا ہے) ذہن اس طرف متوجہ رکھا جائے جس چیز کا مراقبہ کیا جا رہا ہے۔
چونکہ مراقبہ کے دوران خیالات آتے رہتے ہیں۔ اس لئے خیالات میں الجھنا نہیں چاہئے بلکہ ان کو گزر جانے دینا چاہئے اور پھر ذہن کو واپس اسی طرف متوجہ کر دینا چاہئے۔ جس چیز کا مراقبہ کیا جا رہا ہو۔ کم سے کم ۱۵ سے ۲۰ منٹ مراقبہ کے لئے کافی ہیں۔ زیادہ دیر بھی مراقبہ کیا جا سکتا ہے لیکن ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ جس وقت چاہا مراقبہ کے لئے بیٹھ گئے یا تمام چھوڑ کر مراقبہ میں ہی لگے رہیں۔
مراقبہ تخت یا فرش پر کرنا چاہئے۔ کرسی، صوفے، گدے یا کسی ایسی چیز پر بیٹھ کر مراقبہ نہیں کرنا چاہئے جس سے ذہنی سکون میں خلل پڑنے کا امکان ہو۔
خیالات میں کشمکش
مراقبہ کے لئے جب کوئی شخص آنکھیں بند کر کے بیٹھتا ہے تو اس کے دماغ میں خیالات کا ہجوم ہوتا ہے۔ اِدھر اُدھر کے خیالات اتنے آتے ہیں کہ انسان پریشان ہو جاتا ہے۔نہ ذہنی یکسوئی حاصل ہوتی ہے نہ ہی کچھ نظر آتا ہے۔ اگر آنے والے خیالات کو روکنے یا رد کرنے کی کوشش کی جائے تو برسوں مراقبہ کرنے کے باوجود انسان ناکام رہتا ہے۔ اس لئے خیالات کو روکنے کے بجائے آنے دیا جائے نہ انہیں قبول کرے نہ رد کرے۔ آنے والے خیالات خود ہی گزر جائیں گے۔ رد کرنے سے وہ ذہن کے ساتھ چپک جائیں گے اور مستقل پریشانی کا باعث بن جائیں گے۔ اس کا بہترین حل یہی ہے کہ آنے والے خیالات کو گزر جانے دیا جائے۔
مراقبہ کے ابتدائی دور میں یہ حالت ہوتی ہے کہ بندہ مراقبہ کے لئے بیٹھا اور خیالات کی یلغار شروع ہو گئی۔ خیالت کی رو میں بندہ کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ہے۔ پھر مقصد سے بھٹک جاتا ہے۔ اب بندہ کوشش کرتا ہے کہ ذہن ادھر لائے جس مقصد کے لئے مراقبہ کر رہا ہے مگر دماغ میں تو خیالات کو ہٹانے کی کوشش میں خیالات سے جان چھڑائے نہیں چھوٹتی اور مراقبہ کا سارا وقت اسی طرح کشمکش میں گزر جاتا ہے۔ خیالات آتے ہیں تو آنے دیں۔ خود گزر جائیں گے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 65 تا 67
اسم اعظم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔