مدینتہ النبیؐ
مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد اوّل
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=353
شہر مدینہ بلندی پر واقع ہے۔ اس کے شمال اور جنوب میں دو پہاڑ ہیں مدینہ کے تین طرف یعنی مشرق، مغرب، جنوب میں منجمد شدہ اۤتش فشاں پھیلا ہوا ہے۔ مدینہ کی اۤب و ہوا معتدل ہے اور وہاں جزیرۃالعرب کے دوسرے علاقوں کی نسبت بارشیں زیادہ ہوتی ہیں۔
سیّدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام قصویٰ نامی اونٹنی پر سوار جب مدینہ میں داخل ہوئے تو مدینہ کے باشندوں نے اۤگے بڑھ کر اونٹنی کی مہار تھام لی۔ ہر ایک کی خواہش تھی کہ سیّدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی میزبانی اسے نصیب ہو۔ حضورؐ نے کہا کہ میری اونٹنی کی لگام چھوڑ دو، میری اونٹنی وہاں بیٹھے گی جہاں خدا کی مرضی ہوگی اور میں بھی وہیں قیام کروں گا جہاں خدا چاہے گا۔
ٍسیّدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اونٹنی قصویٰ مدینے کے کئی محلّوں سے گزری اور محلّہ ”النجار” میں داخل ہوگئی۔ مدینہ کے سارے مسلمان پیغمبرؐ کی اونٹنی کے پیچھے چل رہے تھے اور یہ جاننے کی مشتاق تھے کہ اونٹنی کہاں بیٹھے گی۔
قصویٰ کچھ دیر تک قبیلہ نجار کے محلّے میں چکر لگاتی رہی پھر ایسے قطعہ زمین میں داخل ہوگئی جو بالکل خالی تھا۔ اونٹنی وہاں پہنچ کر چند قدم اور اۤگے بڑھی پھر ٹھہر گئی اور زمین پر گھٹنے ٹیک دیئے۔ اس جگہ پر جہاں اونٹنی نے گھٹنے ٹیکے تھے کوئی گھر موجود نہیں تھا اور اس قطعۂ زمین کو کھجوریں خشک کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ البتہ وہاں سے کچھ فاصلے پر ایک گھر تھا اور مسلمانوں نے اپنے پیغمبرؐ کو بتایا کہ یہ گھر ابو ایّوبؓ نامی شخص کی ملکیت ہے۔ جس جگہ اونٹنی بیٹھ گئی تھی وہ زمین دو یتیم بچوں کی تھی۔ حضورؐ نے مالیت سے زیادہ رقم دے کر وہ زمین خرید لی۔ مدینہ پہنچنے کے دوسرے دن پیغمبرِ اسلامؐ نے مسلمانوں کی مدد سے اس جگہ پر مسجد کی تعمیر شروع کردی۔ بلا امتیاز سارے مرد جن میں خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی شامل تھے اپنے ہاتھوں سے مٹی ڈھوتے، پتھر لاتے، گارا بناتے اور مسجد کی تعمیر میں ہمہ وقت مصروف رہتے تھے۔ مذکورہ مسجد کی تعمیر میں سات ماہ کا عرصہ لگا۔ مسجد کا قبلہ بیت المقدس تھا۔
مسجد میں ان مہاجرین کے لئے جن کے پاس رہنے کے لئے جگہ نہ تھی اینٹوں اور گارے کی مدد سے ایک بہت بڑا چبوترا بنایا جو اۤج بھی صُفّہ کے نام سے معروف ہے۔ صُفّہ میں قیام کرنے والے لوگوں کو ”اہلِ صفّہ” کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ مکہ سے اۤنے والے مسلمان چونکہ تہی دست تھے اور ان کے پاس رہنے کے لئے جگہ نہ تھی، پیغمبرِ اسلام حضورؐ نے انصار سے فرمایا کہ مسلمانوں میں کسی ایک کے ساتھ ”عہدِ اخوت” باندھ لیں اور انہیں اپنے گھروں میں جگہ دیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر حصولِ معاش کا کام کریں۔ مکہ سے اۤنے والے ایک سو چھیاسی (۱۸۶) مسلمانوں نے مدینہ کے مسلمانوں یعنی انصار کے ساتھ ”عہدِاخوت” باندھا اور ان لوگوں کے گھروں میں پناہ گزین ہوگئے۔
ترجمہ:
”اور جو لوگ ایمان لاأے اور گھر چھوڑے اﷲ کی راہ میں اور جن لوگوں نے جگہ دی اور مدد کی وہی ہیں تحقیق ایمان والے۔ ان کو بخشش ہے اور روزی عزت کی۔ ”
یہودی قوم حضورؐ سے ناخوش تھی۔ انہوں نے اس بات پر اۤمادگی ظاہر کی کہ بوقتِ ضرورت قریش کا ساتھ دیں گے۔ سیّدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے رفقاء کے ساتھ جب اہلِ مکہ کی دسترس سے دور ہوگئے تو قبیلہ قریش نے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف معاشی حربہ استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ قبیلہ قریش نے جزیرۃالعرب کے شمال میں واقع تجارتی راستوں کو اپنی گرفت میں لت لیا اور مدینہ کو کچھ اس طرح اقتصادی محاصرے میں جکڑ دیا کہ ہر قسم کی اشیائے ضرورت مدینہ پہنچنا بند ہوگئیں۔
حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام مدینہ کی معاشی ناکہ بندی سے بہت ملول خاطر تھے۔ انہیں احساس تھا کہ قریش نے ان کی دشمنی میں شہر کے سارے باشندوں کو بھوکا رہنے کی سزا دے رکھی ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 110 تا 113
محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد اوّل کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔