اتر کر حرا سے سوئے قوم اۤیا

مکمل کتاب : محمد الرّسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) جلد اوّل

مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=314

حضورؐ کی عمرِ مبارک جب چالیس برس کی ہوئی تو طبیعت کا میلان تنہائی کی طرف زیادہ ہوگیا۔ ستّو اور پانی لے کر مکہ سے دو میل دور غارِ حِرا میں تشریف لے جاتے اور کائناتی امور اور قدرت کی پھیلائی ہوئی نشانیوں پر تفکر کرتے، مظاہرِ قدرت کے پسِ پردہ کام کرنے والے حقائق کا کھوج لگاتے۔ اس ہی غار میں اۤپؐ کے جدِ امجد حضرت عبد المطّلب ہر سال ایک ماہ کا عرصہ گزارتے تھے۔

غارِ حِرا میں ایک رات جبرائیلِ امینؑ تشریف لائے اور اۤپؐ سے کہا ”پڑھو!”

اۤپؐ نے فرمایا ”میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ ”

جبرائیلِ امینؑ نے اۤپؐ کو اپنے سینے سے لگاکر بھینچا اور کہا ”پڑھو”۔ اۤپؐ نے وہی جواب دھرایا۔ جبرائیل نے دوبارہ بھینچ کر سینے سے لگایااور کہا ”پڑھو”۔ اۤپؐ نے فرمایامیں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ جبرائیلِ امین نے تیسری مرتبہ بازوؤں کے حلقہ میں لے کر دبایا اور کہا۔

”پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے بنایا۔

اۤدمی لہو کی پھٹکی سے۔

پڑھ اور تیرا رب بڑا کریم ہے۔

جس نے علم سکھایا قلم سے۔

سکھایا اۤدمی کو جو نہ جانتا تھا۔ ” (علق)

اس واقعہ کے بعد حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام گھر کی جانب روانہ ہوئے۔ جس وقت اۤپ ؐ گھر تشریف لائےآپؐ کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑچکا تھا اور طبیعت میں ضعف اس قدر غالب تھا کہ اۤپؐ دیوار کا سہارا لے کر چل رہے تھے۔ حضرت خدیجہؓ نے اۤپؐ کو سہارا دیا اور اس تھکان کی وجہ دریافت کی۔ اۤپؐ نے جواب میں کہا، ”مجھے چادر اڑھادو، مجھے چادر اڑھادو”۔ انہوں نے اۤپؐ کو چادر اڑھادی۔ جب طبیعت سنبھلی تو اۤپؐ نے سارا واقعہ بیان کیا اور خدشہ ظاہر کیا کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔ حضرت خدیجہؓ نے اۤپؐ کو تسلی دی اور کہا، ”اﷲ تعالیٰ اۤپؐ کو رسوا نہ کرے گا، اۤپؓ صلۂ رحمی کرتے ہیں۔ درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ تہی دستوں کا بندوبست کرتے ہیں۔ مہمان نوازی کرتے ہیں”۔ حضرت خدیجہؓ اۤپؐ کو اپنے چچا زاد ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ حضورؐ نے غارِ حِرا میں پیش اۤنے والا واقعہ بتایا تو ورقہ بن نوفل نے کہا کہ خدا کا یہ کلام بلاشبہ وہی ”ناموس” ہے جو اس سے پہلے حضرت موسیٰؑ پر نازل ہوا تھا۔ لغوی اعتبار سے ناموس خدا کے ان احکام کا نام ہے جو بنی نوع انسان کے لئے وضع کئے جاتے ہیں۔ ورقہ بن نوفل نے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ تم لائے ہو اس کی بناء پر لوگ تمہارے دشمن بن جائیں گے اے کاش کہ میں اتنا زندہ رہوں کہ دشمنوں کے مقابلے میں تمہاری مدد کرسکوں۔

تین سال تک حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام راتوں کو غارِ حِرا میں جاتے رہے اور وہاں صبح تک غور و خوض میں ڈوبے رہتے اور دائم خدا کے بارے میں سوچتے رہتے تھے۔ کبھی کبھی جبرائیلؑ کی اۤواز بھی سنائی دیتی جو صرف یہ کہتے کہ یا محمدؐ! اۤپؐ اﷲ کے رسول ہیں اور میں اس کا فرشتہ جبرائیلؑ ہوں۔ لیکن اس کے علاوہ جبرائیلؑ کوئی اور بات نہ کہتے تھے۔ ایک رات جبرأئیلؑ غار میں حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس آے اور سورۃ الضحیٰ تلاوت کی۔

عربی زبان میں والضحیٰ کا مفہوم یہ ہے قسم اس وقت کی جب سورج کی شعاعیں افق سے نمودار ہوں اور رفتہ رفتہ یوں پھیلنے لگیں کہ زمین کا گوشہ گوشہ سورج کی روشنی سے چمک اٹھے اور پھر ساری کائنات اۤنکھوں کو خیرہ کردینے والے سورج کے نور سے منوّر ہوجائے۔

والیل اذا سجیٰ” اس اۤیت کی دوسری سوگند ہے۔ پہلی سوگند کی طرح اس کے مجازی معنی بھی بہت وسیع ہیں۔ قسم اس وقت کی جب تاریکی چھا جاتی ہے اور دنیا تاریکی میں ڈوب جاتی ہے اوراس جہاں پر طاری ہونے والا سکوت اتنا گہرا ہوتا ہے کہ کہیں دور سے اٹھنے والی ہلکی سی اۤواز بھی بہت قریب سے سنائی دیتی ہے۔ مذکورہ سورۃ کی تیسری اۤیت میں خدا نے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد کیا ہے، ”ما ودّعک ربک وما قلیٰ” اس اۤیت میں حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذہن میں ابھرنے والی تشویش کا جواب دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اۤپؐ پریشان تھے اور یہ تصور کر رہے تھے کہ خدا نے اپنی شناسائی کے بعد اۤپؐ کو اکیلا چھوڑ دیا ہے اور اۤپؐ سے اپنی دوستی اور محبت واپس لے لی ہے۔ حالانکہ ایسا ہر گز نہیں اور خدا نے اۤپؐ کو چھوڑا نہیں اور اۤپؐ بدستور خدا کے محبوب ہیں۔

حضورؐ پر ایمان لانے والی پہلی شخصیت ان کی زوجہ حضرت خدیجہؓ تھیں اور اس کے بعد ان کے چچا کے بیٹے حضرت علی ابن ابی طالبؓ مسلمان ہوئے۔ جنہیں حضورؐ نے اپنی اولاد کی طرح پالا پوسا تھا۔ تیسرے مسلمان حضورؐ کے غلام زیدؓ تھے۔ جنہیں رسولِ خداؐ نے اۤزاد کردیا تھا لیکن وہ اپنے والدین کے پاس جانے پر رضا مند نہ ہوئے اور انہوں نے کہا کہ میں حضورؐ کو اپنے ماں باپ سے زیادہ عزیز رکھتا ہوں۔ حضرت خدیجہؓ، حضرت علیؓ اور حضرت زیدؓ کے بعد کوئی اور شخص حضورؐ پر ایمان لانے پر اۤمادہ نہ ہوا۔ تین سال کی مدت میں یعنی۶۱۰ عیسوی سے ۶۱۳ عیسوی تک مسلمانوں کی تعداد خود حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے علاوہ، انہی تین افراد پر مشتمل تھی۔ اس سال حضرت ابوبکرؓ بھی مسلمان ہوگئے اور یوں مسلمانوں کی تعداد چار ہوگئی۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 26 تا 30

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)