مخلوق کو کیوں پیدا کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کو پہچاننے کا طریقہ کیا ہے؟
مکمل کتاب : اسم اعظم
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=274
سوال: مخلوق کو کیوں پیدا کیا گیا؟
جواب: اللہ تعالیٰ ایک چھپا ہوا خزانہ تھا۔ اس کا دل چاہا کہ وہ پہچانا جائے سو اس نے اپنی محبت خاص سے تمام مخلوق کو پیدا کیا۔
(حدیث قدسی)
سوال: اللہ تعالیٰ کو پہچاننے کا طریقہ کیا ہے؟
جواب: پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم خود کو پہچانیں اور ہمیں یہ بات معلوم ہو کہ ہم مخلوق ہیں۔ اور ہمارا پیدا کرنے والا اللہ ہے اور جو آدمی پیدا ہوتا ہے بالآخر مر جاتا ہے۔ جب مر جاتا ہے تو گوشت پوست کے جسم کی حیثیت کچھ نہیں رہتی۔ مطلب یہ ہے کہ خود کو پہچاننا اس وقت ممکن ہے جب ہمیں اس بات کا یقین ہو جائے کہ گوشت پوست کا جسم (Fiction) اور مفروضہ ہے۔ گوشت پوست کے آدمی کا دماغ دو حصوں سے مرکب ہے۔ ایک دماغ سیدھی طرف اور دوسرا الٹی طرف ہے۔ سیدھی طرف کے دماغ کا نام لاشعور اور الٹی طرف کے دماغ کا نام شعور ہے۔ سیدھی طرف کے دماغ میں وہ علوم محفوظ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آدم کو سکھائے اور الٹی طرف کے دماغ میں وہ علوم محفوظ ہیں جو نافرمانی کے ارتکاب سے وجود میں آتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
“اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین ایک نائب بنانے والا ہوں تو فرشتوں نے کہا کیا تو زمین میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو فساد پھیلائے اور خون بہائے حالانکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتے اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں۔” فرمایا میں جو کچھ جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ اور اللہ نے آدم کو سب چیزوں کے نام سکھائے پھر ان سب چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا، پھر فرمایا مجھے ان کے نام بتاؤ اگر تم سچے ہو۔ انہوں نے کہا تو پاک ہے۔ ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے ہمیں بتایا ہے۔ بے شک تو بڑا علم والا، حکمت والا ہے۔ فرمایا اے آدم! ان چیزوں کے نام بتا دو، پھر جب آدم نے ان کے نام انہیں بتائے تو فرمایا کہ میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی چیزیں جانتا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے اور جو چھپاتے ہو اسے بھی جانتا ہوں۔”
(آیت ۳۰۔۳۳، سورہ البقرہ)
آیت مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو وہ علوم سکھا دیئے جو فرشتے نہیں جانتے۔ اس علم کی اگر درجہ بندی کی جائے تو چھ عنوان بنتے ہیں اور ہر عنوان ایک دائرہ ہے۔ اس طرح یہ علم چھ دائروں پر محیط ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 32 تا 34
اسم اعظم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔