محمد حسین میموریل ہال مزنگ میں عظیمی صاحب کا خطاب

مکمل کتاب : خطباتِ لاہور

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=15904

۱۳ مارچ ۱۹۸۲؁ء بروز اتوار مراقبہ ہال مزنگ لاہور کے ساتھ واقع محمد حسین میموریل ہال سے مرشدِ کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے خطاب کیا۔ اس ہال میں سلسلۂِ عظیمیہ کے اراکین اور شہر کے معززین کی بڑی تعداد نے شرکت کی ۔ مرشدِ کریم عظیمی صاحب کا ہال میں پر تپاک استقبال کیا گیا۔ میاں مشتاق احمد عظیمی صاحب نے مقصود اختر عظیمی، محمد اسلم عظیمی، رشید شاہین عظیمی اور محترمہ سلمیٰ مشتاق عظیمی صاحبہ کے ہمراہ ایک ٹیم ورک کے تحت پروگرام کو بہترین انداز سے پیش کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ مرشدِ کریم کے فکر انگیز خطاب کے بعد میاں مشتاق احمد عظیمی صاحب نے تمام مہمان خواتین و حضرات اور انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا۔
خطاب:
معزز حضرات و خواتین اور میرے عزیزفرزند میاں مشتاق احمد عظیمی صاحب!
آپ سب حضرات بلاشبہ شکریہ کے مستحق ہیں کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کے مشن کی پیش رفت میں جدوجہد اور سعی کرنے کی سعادت حاصل کی۔
سلسلے آج سے نہیں صدیوں سے قائم ہیں ۔ مشہور سلاسل جو ہندوستان ، پاکستان اور بر صغیر میں پوری آب و تاب کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے روحانی مشن کو عام کرنے میں مصروف ہیں وہ سلسلۂ چشتیہ ، سلسلۂ نقشبندیہ ، سہروردیہ اور قادریہ ہیں۔ یہ ایسے سلسلے ہیں کہ جن سے ہر آدمی جو ذرا سا بھی روح سے مانوس ہے ان کو جانتا ہے ، پہچانتا ہے۔
دنیا میں روحانی علوم کو پھیلانے کیلئے اب تک جو سلسلے تواریخ میں ملتے ہیں ان کی تعداد تقریباًدو سو(۲۰۰) ہے۔
یہ دو سو (۲۰۰) سلاسل مختلف ممالک میں اپنے اپنے مرکز کے ساتھ قائم رہ کر رسول اللہ ﷺ کے مشن کیلئے کوشش اور جدوجہد کر رہے ہیں۔
“سوال یہ ہے کہ جب ہمارے پاس اللہ کی کتاب مَوجود ہے، شریعت کے تمام قوانین ہمارے پاس مَوجود ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ خاتم النبیین کی ذاتِ اقدس ہمارے پاس مَوجود ہے پھر یہ تمام سلاسل کیوں وُجود میں آئے ، ان کی کیوں ضرورت پیش آئی؟
رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں صحابۂِ کرام کی زندگی کے اوپر جب غور و فکر کیا جاتا ہے تو ایک بات پورے یقین کے ساتھ سامنے آتی ہے کہ صحابۂِ کرام کی زندگی رسول اللہ ﷺ کی ذات مبارکہ سے اس طرح وابستہ تھی کہ ان کا جینا ، ان کا مرنا، ان کا بیٹھنا، ان کا اٹھنا، ان کا کوئی بھی کام رسول اللہ ﷺ کی ذات سے کسی نہ کسی طرح وابستہ ہوتا تھا، حضور پاک ﷺ نے پانی کس طرح پیا ، اخلاق کا مظاہرہ کس طرح فرمایا، مہمانوں کی میزبانی کس طرح کی ، دوستوں کے ساتھ ان کا رویہ کیسا رہا، دشمنوں نے جب دشمنی کی اور اذیت کا کوئی پہلو ایسا نہیں چھوڑاکہ جس سے حضور پاک ﷺ دو چار نہ ہوئے ہوں، وہ اذیتیں، وہ تکلیفیں، وہ پریشانیاں برداشت کر کے دشمنوں کے ساتھ حضور پاک ﷺ کا کیسا سلوک رہا ، کس طرح حضور پاکﷺ نے لوگوں کو معاف کیا ، لوگوں کو سینے سے لگایا، قتل جیسے جرم کو معاف فرمایا۔
یہ سب چیزیں صحابۂِ کرام کے سامنے تھیں ۔ ان کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس سے الگ ہو کر کسی گوشے میں بیٹھ کر ریاضت اور مجاہدہ کریں اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کو الگ سے سمجھیں۔ ان کی ساری زندگی کا محور اور مرکز رسول پاک ﷺ تھے۔ صحابۂِ کرام کے بعد تابعین کا دَور آیا۔ تابعین کی زندگی پر جب ہم غور و فکر کرتے ہیں اور تاریخ پڑھتے ہیں تو یہ نظر آتا ہے کہ تابعین نے رسول پاک ﷺ کے تربیت یافتہ صحابۂِ کرام کی زندگی کا تجزیہ کر کے پوری زندگی صحابۂِ کرام کے مطابق گزاردی ۔ تابعین میں وہ بات نہیں رہی جو بات صحابۂِ کرام میں تھی ۔ صحابۂِ کرام کی زندگی اگر سَو فیصد رسول اللہ ﷺ کی طرزِ فکر کے مطابق تھی تو تابعین کی زندگی میں وہ Percentage کم ہوگیا۔ اس کی بہت ساری وجوہات بھی ہیں وہ یہ، ایک تو حضور پاک ﷺ کی حیات مبارکہ کا جو زمانہ تھا اس میں دُوری واقع ہوئی پھر صحابۂِ کرام بہر حال کچھ بھی ہو وہ رسول اللہ ﷺ کے قائم مقام تو تھے لیکن ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی ان کے اندر اِس طرح تھی کہ وہ حضور ﷺ ہی تھے۔(نعوذ باللہ)۔
تابعین کے بعد تبع تابعین آئے تو رسول اللہ ﷺ کی طرزِ فکر میں اور دُوری واقع ہوئی اور اس کے بعد مسلمان اُمّتِ مسلمہ یا عالَمِ اسلام کے پاس جو مذہب رہا اس مذہب یا اسلام میں تو کوئی فرق نہیں پڑا، قرآن بھی وہی رہا، قرآن کے الفاظ بھی وہی رہے، نماز بھی وہی رہی جو آج تک ہے، روزہ، حج، زکوٰۃ کسی بھی چیز میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ لیکن تبع تابعین کے بعد جب آپ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو یہ بات آپ کو نظر آئے گی کہ مسلمانوں میں ایسا اِنحطاط پیدا ہو گیا کہ ان کی نظر روحانیت کے مقابلے میں مادّیت میں زیادہ ہوگئی اور اسلامی ارکان کی جو حکمت تھی ، اسلامی ارکان میں جو روح تھی اس روح سے دُوری واقع ہوگئی۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ اسلام جو ایک جسم تھا وہ جسم رسول اللہ ﷺ کی بتائی ہوئی تعلیمات کے مطابق روح سے دُور ہو گیا اور اس کے اوپر مادّیت غالب آگئی ، بادشاہتیں آگئیں ، خلفاء کا زمانہ آ گیا، غربت اور امیری کی دیواریں کھڑی ہوگئیں۔ یعنی رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جو اسلامی معاشرہ تھا، وہ پوری طرح قائم نہیں رہا۔ پھر بادشاہوں کا زمانہ آ گیا ۔ بادشاہوں نے اپنی مصلحتوں کے مطابق اپنی حکومت کو بچانے کیلئے ایسی ایسی اختراعات کیں کہ جس سے اسلام کی روح کے اوپر ایک پردہ آ گیا….. ایک وقت ایسا آیا کہ انسان سب کچھ کرنے کے باوجود …. مسلمان سب کچھ کرنے کے باوجود ، جسمانی تقاضے تو اس نے پورے کئے لیکن روح کا تقاضا پورا نہیں ہوا…. وہ آج بھی ہے۔ مثلاً ہم نماز قائم کرتے ہیں ۔ عشاء کی نماز میں سترہ رکعتیں ہوتی ہیں اور چونتیس (۳۴) سجدے ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو توفیق دی ہے نماز قائم کرنے کی وہ چونتیس(۳۴) سجدوں میں سے ایک سجدے میں بھی ان کا ذہن اللہ کے ساتھ قائم نہیں ہوتا۔ اِس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ نماز میں کوئی تبدیلی ہوگئی یا نماز میں کوئی فرق واقع ہو گیا ہے۔ نماز تو وہی ہے لیکن مسلمان روح سے دُور ہو گیا اس لئے اس کی ذہنی مرکزیت غیب کے اندرنہیں ہوتی۔
اس سے ملتی جلتی صورت جب تبع تابعین کے زمانے میں ہوئی اور بڑے پیر صاحب حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ نے جب محسوس کیا کہ اگر انسانوں کے لئے خصوصاً مسلمانوں کیلئے روح سے واقف ہونے کیلئے ، روح سے متعارف ہونے کیلئے قاعدے اور ضابطے مقرر نہیں کئے گئے تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ مسلمان روح سے بالکل ہی دُور ہو جائیں گے…. لہٰذا انہوں نے اس صورتحال (Situation)کو سمجھتے ہوئے ایسے اسباق متعیّن کئے ، ایسے قاعدے اور ضابطے بنائے کہ جن قاعدوں اور ضابطوں سے مسلمان مادّی (جسمانی) عبادت کے ساتھ ساتھ اپنی روحانیت سے بھی قریب ہو سکتا ہے۔ اس قربت کیلئے جو چیز بڑی اہم تھی، ظاہر ہے کہ قرآن پاک تھا، حضور پاک ﷺ کی زندگی تھی ۔ تو وہاں یہ دیکھا گیا کہ نبوت سے پہلے رسول اللہ ﷺ نے کون سا ایسا عمل کیا ، کون سی ایسی مثال چھوڑی اپنی اُمّت کیلئے کہ جس کو بنیاد بنا کر روحانی اسباق تجویز کئے جائیں۔ تو سامنے یہ بات نظر آئی کہ رسول اللہ ﷺ مکے میں رہتے ہوئے، بیت اللہ شریف کے ہوتے ہوئے سات آٹھ کلومیٹر دُور پہاڑ…. غارِ حرا میں تشریف لے جاتے تھے اور وہاں اللہ کے اوپر ، اللہ کی نشانیوں کے اوپر ، کائنات کے اوپر غور و فکر کرتے تھے۔ یہ تفکر جب بڑے پیر صاحب کے سامنے اور دوسرے بزرگوں کے سامنے پھیلا تو انہوں نے بنیاد ہی اس بات پر رکھی کہ….
قرآن بھی یہی کہتا ہے کہ قرآن پڑھنے کے ساتھ ساتھ غور و فکر کی بھی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
: تَفَکَّرُوْنَ، تَعْقِلُوْنَ، تَعْلَمُوْنَ، یَعْلَمْوُنْ ، یَا اُولِی الْاَلْبَاب، فَبِایِّ اَلٓا ءِ رَبِّکُمَاتُکَذِّبٰنِ
غور و فکر کرو، عقل سے کام لو، جو لوگ عقلمند ہیں وہ اللہ کی نشانیوں پر غور و فکر کرتے ہیں ، قرآن کو سمجھ کر پڑھو، موت و حیات کے بارے میں غورو فکر کرو کہ….
جب تم پیدا نہیں ہوئے تھے تو کہاں تھے؟
کیوں پیدا ہوئے… اس زمین کے اوپر؟…. اور
پیدا ہونے کے بعد تم مرنا نہیں چاہتے تو مر کیوں جاتے ہو؟
قرآن پاک میں بھی غور و فکر کا حکم ہے اور سیدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام نے غارِ حرا میں جا کر انہی باتوں پر غور و فکر کیا۔ اسی غور و فکر کا نام مراقبہ ہے۔
٭ مراقبہ کا مطلب ہے اللہ کی نشانیوں میں تفکر کرنا۔
٭ مراقبہ کا مطلب ہے مادّی جزیات و احساسات سے نکل کر روح کا کھوج لگانا۔
٭ مراقبہ کا مطلب ہے ظاہری دنیا میں رہتے ہوئے غیب کی دنیا میں داخل ہونے کی جدوجہد اور کوشش کرنا۔
٭ مراقبہ کا مطلب ہے انسان اس زندگی سے واقفیت حاصل کرلے جہاں وہ پیدا ہونے سے پہلے تھا۔
٭ مراقبہ کا مطلب ہے انسان اس زندگی سے واقف ہوجائے کہ جس زندگی میں اس کو مرنے کے بعد دوبارہ جانا ہے اور وہاں زندہ رہنا ہے۔
حضور پاکؐ کا ارشاد ہے۔‘‘ مُوْتُوا قَبْلَ اَنْ تَمُوتُوا ’’ …. ترجمہ: (مر جاؤ مرنے سے پہلے)
‘‘مرجاؤ مرنے سے پہلے’’ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ خودکشی کرلیں، خودکشی تو حرام ہے۔ ‘‘مرجاؤ مرنے سے پہلے ’’ کا مطلب یہ ہے کہ مرنے سے پہلے اس عالَم میں… جہاں مرنے کے بعد آپ کو رہنا ہے… اُس سے آپ واقفیت حاصل کرلیں۔
ان احادیث کی روشنی میں، قرآن پاک کے تدبر و فکر کے حکم کی روشنی میں اور سیدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کے غارِ حرا کے مراقبہ کی روشنی میں ایسے اسباق تجویز کئے گئے کہ انسان بالعموم اور مسلمان بالخصوص اس دنیا میں رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا تعارف حاصل کرے ، اپنا تعارف حاصل کرے جو کہ انسان کی پیدائش کا مقصد ہے۔
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (سورۃ الذّاریات – 56)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے جنات کو اور انسان کو اس لئے تخلیق کیا تاکہ وہ ہمیں پہچانیں ۔ انسان اور جنات کی تخلیق کی بنیاد ہی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کو پہچانے۔
حدیث قدسی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
کُنْتُ کَنْزَاً مَخْفِّیاً فَاَحْبَبْتَ اَنْ اُعْرَفْ فَخَلَقْتُ الْخَلَقَ لِاُعْرَفْ (حدیث قدسی)
ترجمہ: میں چھپا ہوا خزانہ تھا۔ میرا دل چاہا کہ مخلوق مجھ سے واقف ہو، مخلوق مجھے پہچانے ، مخلوق میرے قریب آئے تو میں نے اس خواہش کو پورا کرنے کیلئے محبت کے ساتھ مخلوق کو تخلیق کیا۔
انسان کی زندگی کا مقصد اگر کھانا پینا ، سونا جاگنا، بچوں کی پرورش کرنا، کاروبار کرنا ہی ہے تو یہ تو سب جانور بھی کرتے ہیں حیوانات بھی کرتے ہیں….
کون سا ایسا جانور ہے جو اپنے بچوں کو پیدا کر کے ان کو غذا فراہم نہیں کرتا؟
ان کی تربیت نہیں کرتا…..
کون سا ایسا حیوان ہے جو سوتا نہیں ہے؟
کون سا ایسا حیوان ہے جسے بھوک نہیں لگتی؟
گرمی سردی کا احساس نہیں ہوتا….
کون سا ایسا پرندہ ہے جو اپنا گھر نہیں بناتا؟
کون سی ایسی گائے ، بھینس، بیل، بکری، بھیڑ ہے جس کو اپنے گھر کا پتہ نہیں ہوتا؟
بتائیے!
سب کو اپنا گھر کا ٹھکانے کا پتہ ہوتا ہے۔۔۔۔
صبح کو آپ چھوڑتے ہیں شام کو خود بخود اپنے ٹھکانے پر پہنچ جاتے ہیں۔
تو انسان کی زندگی کا مقصد محض سونا جاگنا، کھانا پینا نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق انسان کی زندگی کا مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ کو پہچاننا ، بحیثیت مخلوق کے خالق کا تعارف حاصل کرنا ہے۔
جب یہ مقصد فوت ہو گیا تو حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ بڑے پیر صاحب نے سلسلے کی بنیاد رکھی اور لوگوں کیلئے ریاضت کے، عرفان کے، روحانی علوم سیکھنے کے قاعدے اور ضابطے بنائے اور اسی طرح ہر ملک کے لحاظ سے ، لوگوں کی ذہنی صلاحیت کے مطابق نئے نئے سلسلے قائم ہوتے رہے۔ لیکن ! اِن سب سلسلوں کا محور قرآنی تعلیمات کے علاوہ کبھی اور کچھ نہیں رہا اور ان سلسلوں کا محور رسول اللہ ﷺ کی ذات ِ اقدس سے ہٹ کر بھی کچھ نہیں رہا۔
دو سَو (۲۰۰) سلسلے قائم ہونے کے بعد ایک وقت پھر ایسا آ گیا کہ اُمّتِ مسلمہ مادّیت کی دوڑ میں داخل ہوگئی۔
کیسے….؟
اب دیکھئے آج کا دَور ہے ۔ آج کا دَور مادّیت کا دَور کہلاتا ہے۔ ترقی کا مطلب ہی یہ ہے کہ مادّیت کا دَور۔ یعنی مادّے نے کتنی ترقّی کی جب ہم یہ کہتے ہیں کہ آج کا دَور ترقی کا دَور ہے تو ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ مادّے نے اتنی ترقی کرلی ہے۔ لیکن جیسے جیسے مادّی ترقی ہوئی انسان اپنی روح سے بھی دور ہوگیا، روحانی علوم سے بھی آشنا نہیں رہا، بے سکون ہوگیا، پریشان ہوگیا، عَدم تحفّظ اس کے اندر داخل ہوگیا۔
اگر ہم یہ غور کریں کہ انسان اور حیوان کی زندگی کیا ہے؟ اس کا تجزیہ کریں تو اس مادّی دَور میں یہ بات بالکل واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ حیوانات کی زندگی آج کے دَور کے انسان کی زندگی سے زیادہ افضل اور بہتر ہے۔ وہ بھی اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں اور انسان بھی اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں ۔ لیکن….
آپ نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا کہ کسی بھیڑ کو کینسر ہوگیا…..
کسی گائے کی آنکھ میں موتیا اتر آیا…..
کسی جانور کو ٹی بی ہوگئی….
کبھی نہیں ایسا ہُوا….
اُن کو آپ پر سکون بھی دیکھتے ہیں۔
کبھی آپ نے اُن کو دیکھا نہیں ہوگا کہ روزی کمانے کیلئے اتنے پریشان ہیں کہ راتوں کی نیند اُڑ گئی…. دن کا چین ختم ہوگیا….
تو اس ترقی یافتہ دَور میں انسان اس بری طرح دنیا میں غرق ہو گیا کہ ایسا لگتا ہے کہ کہیں روحانیت کا وُجود ہی نہیں رہا ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ذہنی ترقی ہوئی عقل و شعور میں اضافہ ہوا۔ آج کے آٹھ سال کا بچہ پہلے دَور کے اٹھارہ سال کے نوجوانوں سے زیادہ ذہین اور ہوشیار ہے۔ نئی نئی چیزیں ایجاد ہوئی ہیں اور یہ ذہنی ترقی ہوئی ہے۔
تو بڑے پیر صاحب نے اپنے دَور کے مطابق رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کو ، روحانی تعلیمات کو، اللہ سے قریب ہونے والی تعلیمات کو اِس طرح مرتّب کیا، اس طرح تَدوین کِیا کہ اس زمانے میں لوگ اللہ کے عارف ہوئے ۔
اب اس زمانے میں جبکہ ذہن بہت ترقی یافتہ ہو گیا ہے، پہلے جو چیزیں ہمارے لئے کرامت سمجھی جاتی تھیں، اب عام ہوگئیں ہیں۔ تو زمانے کے مطابق ، زمانے کی نشونما کے مطابق جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ‘‘اللہ نے جو ایک نظام مرتّب کردیا ہے ، جو ایک سسٹم بنا دیا ہے اس سسٹم میں تبدیلی نہیں ہوتی۔’’
تو ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کا آنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ایک سسٹم ہے۔ رسول اللہ ﷺ خاتم النبیّین ہیں تو کیا یہ سسٹم ختم ہو گیا…. نہیں یہ سسٹم ختم نہیں ہوا۔
رسول اللہ ﷺ کے وارث، عُلماءِ حق آتے رہے ہیں… اور آتے رہیں گے۔
اس لئے اس مشن کو قائم رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضور قلندر بابا اولیاءؒ کو اس دنیا میں بھیجا اور انہوں نے معاشرے کی بد ترین حالت کو سامنے رکھ کر مادّی اعتبار سے دنیا کو اسفل السافلین میں گرتے ہوئے دیکھ کر ، زمانے کے حساب سے، شعور کے اعتبار سے ، ذہانت کے اعتبار سے،عقل و فہم کے اعتبار سے، جو شعور انسان کو اس وقتِ حاضر میں مل گیا اس کے حساب سے سلسلۂ ِعظیمیہ کی بنیاد رکھی۔
سلسلہ ٔ عظیمیہ کوئی نیا سلسلہ نہیں ہے کہ یہ سلسلہ کوئی نئی بات کہتا ہے….. کوئی نئی بات نہیں ہے…. بات وہی کہہ رہا ہے جو بڑے پیر صاحبؒ نے کہی …. بات وہی کہہ رہا ہے جو شیخ شہاب الدین سہروردیؒ نے کہی ۔
سلسلہ ٔ عظیمیہ بات وہی کہہ رہا ہے جو حضرت ممشاد دِینوری ؒ نے کہی …. سلسلۂ عظیمیہ بات وہی دہرا رہا ہے جو دو سَو (۲۰۰) سلسلے اب تک دہراتے چلے آرہے ہیں…. اور وہ بات یہ ہے کہ…
‘‘انسان کی زندگی کا مقصد یہ نہیں ہے کہ وہ غمگین رہے، پریشان رہے۔ انسان کی زندگی کا مقصد جو ہے سکون سے رہنا ہے خوش رہنا ہے’’۔
اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ:
أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (سورۃ یونس – 62)
ترجمہ: اللہ کے دوستوں کو غم اور خوف نہیں ہوتا۔
اللہ کے دوستوں کو غم اور خوف نہیں ہوتا کا مطلب ہی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ کوئی میرا بندہ ناخوش نہ رہے ۔ غمگین نہ رہے، پریشان نہ رہے۔
حضور قلندر بابا اولیاؒ نے سائنسی علوم کو سامنے رکھ کر سلسلۂِ عظیمیہ کی بنیاد رکھی کہ انسان کا ذہن چونکہ سائنسی علوم سے بہت زیادہ تیز ہو گیا ہے۔ وقت جو ہے بہت سمٹ گیا ہے، رفتار تیز ہوگئی ہے اس لئے اسی مناسبت سے سائنسی علوم کو سامنے رکھ کر سلسلہ ٔ عظیمیہ کے اسباق مرتّب کئے گئے ہیں۔ لیکن اس ترتیب میں بنیادی بات وہی ہے…. غارِ حرا کا مراقبہ۔
ہر سلسلہ میں کسی نہ کسی طرح آپ کو مراقبہ کا عرص ضرور ملے گا۔ مراقبہ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دنیاوی علائق سے ، دنیاوی معاملات سے ، دنیاوی پریشانیوں سے اپنا ذہن ہٹا کر کچھ عرصہ کیلئے … ۱۰ منٹ کیلئے…. ۱۵ یا ۲۰ منٹ کیلئے…. اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے۔ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ بات اس میں کوئی زیادہ گہرائی کی نہیں ہے۔ ہر آدمی یہ جانتا ہے کہ اللہ ہر چیز کو دیکھ رہے ہے، اللہ حاضر اور ناظر ہے ۔
کیوں بھئی کسی آدمی کا یہ یقین ہے کہ اللہ ہمیں نہیں دیکھ رہا…..!
ہر آدمی جانتا ہے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے…. بات اتنی سی ہے کہ ہم اللہ کے دیکھنے کو نہیں دیکھ رہے۔ اللہ کے دیکھنے کو دیکھنے کیلئے جو بہت ہی آسان طریقہ ہے وہ مراقبہ ہے یعنی اللہ کی طرف متوجہ ہونا ۔
یہ تو ہوئی ایک بات، اب دوسری بات جو ہے بہت زیادہ غور طلب ہے اور ہم سب کو اس پر بہت ہی زیادہ غورو فکر کرنا چاہیے اور وہ بات یہ ہے کہ ہمارا ایک جسمانی وُجود ہے۔ اس جسمانی وُجود کی مشینری پر اگر آپ غور کریں تو اس میں دل بھی ہے ، پھیپھڑے بھی ہیں، گُردے بھی ہیں، آنتیں بھی ہیں، دماغ بھی ہے، کان بھی ہیں، آنکھ بھی ہے۔ اور آنتیں بھی ہیں جسم میں کوئی حرکت نہیں رہتی۔
آپ روز دیکھتے ہیں کوئی نہ کوئی تو مرتا ہی رہتا ہے۔ لاش پڑی ہوئی ہے اس کے ساتھ پیر ، ناک ، کان اور آنکھ سبھی کچھ ہے۔
اس کا پوسٹ مارٹم کریں دل بھی اس طرح مَوجود ہوگا۔
ایسے نہیں ہوگا کہ آدمی مرگیا تو دل غائب ہوگیا….
آدمی مرے گا تو اس کے اندر سے گردے ہی نہیں نکلے…!
آدمی مرگیا اس کی چیر پھاڑ کی… پتہ چلا اس کے اندر تو آنتیں ہی نہیں تھیں….
ہر چیز مَوجود ہے لیکن حرکت نہیں ہے…..!
اس کا مطلب کیا ہوا؟
وہ یہ کہ حرکت تابع ہے روح کے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جسم اصل نہیں ہے…. اصل روح ہے۔
جب تک روح جسم کے اندر ہے حرکت ہے۔ جب تک روح جسم کے اندر ہے آپ کو بھوک بھی لگ رہی ہے…. آپ کو پیاس بھی لگ رہی ہے، آپ کے بچے بھی ہورہے ہیں، آپ بچوں کو دودھ بھی پلا رہے ہیں۔ کیا کبھی کسی نے دیکھا ہے کہ کسی مُردہ ماں نے اپنے بچوں کو دودھ پلایا ہو؟ کیا کبھی کسی نے دیکھا ہے کہ باپ مر گیا ہو اور اس نے بچے کی انگلی پکڑ کر بازار سے جا کر کوئی چیز دلائی ہو؟ کیا کبھی کسی مُردہ آدمی کو آپ نے کھانا کھاتے ، پانی پیتے، چائے پیتے، اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے دیکھا ہے؟
ایک مُردہ جسم ہے، اگر آپ کسی مُردہ جسم اور زندہ جسم کا موازنہ کرنا چاہیں تو ایک زندہ آدمی کے پَیر کے انگوٹھے میں سوئی چبھوئیں… کیا ہوگا؟ …. تکلیف ہوگی…. وہ کہے گا بھئی کیوں میرے سوئی چبھوئی؟ اور ایک مُردہ آدمی کی ٹانگ لے کر آپ اس کے گَنڈاسے سے دس ٹکڑے کردیں…. کیا ہوگا؟…. کچھ بھی نہیں….
تو اصل چیز کیا ہوئی؟…. اصل چیز جسم ہوا یا روح ہوئی؟ ….. اصل چیز روح ہوئی…
تو اب جو اصل ہے وہ تو ہماری روح ہے اور ہم جسموں کو ہی سب کچھ سمجھ رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سے زیادہ بیوقوف ، ہم سے زیادہ جاہل، ہم سے زیادہ احمق کوئی نہیں ہے۔ آپ کسی بھی طرح جسم کو الٹ پلٹ کر دیکھئے اگر روح نے جسم کو سنبھالا ہوا ہے تو جسم کے اندر حرکت ہے اور اگر روح نے جسم کو نہیں سنبھالا ہوا تو جسم کی کوئی حرکت نہیں ہے۔
ایک آدمی جینیئس ہے۔ نئی نئی اختراعات کرتا ہے…. لیکن اگر اس کے اندر سے آپ روح نکال لیں۔ تو نہ کوئی اختراعات ہںن نہ کوئی اس میں ایجاد ہے، نہ کوئی عقل ہے، نہ کوئی شعور ہے۔ ایک شاعر شعر کہتا ہے۔ کیا کبھی کسی مُردہ آدمی سے آپ نے شعر سنا ہے؟ ایک بڑھئی چارپائی بناتا ہے، کُرسی بناتا ہے، لوہار دروازہ بناتا ہے، کسان کھیتی باڑی کرتا ہے۔ کیا کبھی کسی مُردہ آدمی کو آپ نے چارپائی بناتے ، دروازہ بناتے یا کھیتی باڑی کرتے دیکھا ہے؟
یعنی جس طرح بھی آپ زندگی کی چھان پھٹک کریں گے آپ کو ایک ہی بات نظر آئے گی کہ….
‘‘اگر روح ہے تو سب کچھ ہے اور اگر روح نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے۔’’
لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ آدمی یہ کہتا ہے کہ جسم ہے تو سب کچھ ہے روح کا کسی کو پتہ ہی نہیں ہے۔ جوسراسر دھوکا ہے، فریب ہے، غلطی ہے، جہالت ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں…. ‘‘انسان ظالم، جاہل اور جلد باز ہے’’
جتنے بھی سلاسل ہیں، ان سلاسل کی تعلیمات کا محور ، ان سلاسل کی تعلیمات کا مرکز، ان تمام سلاسل کی تعلیمات کی بنیاد صرف یہ ہے کہ:
‘‘انسان روح کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ جب تک روح ہے انسان ہے اور جب روح نہیں ہے تو اس کا نام انسان نہیں ہوتا اس کا نام لاش ہوتا ہے، اس کا نام (Dead Body) ہوتا ہے…. اس کا نام مُردہ جسم ہوتا ہے۔’’
یہ جو تعلیم ہے کہ انسان روح کے علاوہ کچھ نہیں ہے یہ انسانوں کیلئے مخصوص ہے۔ حیوانات اس تعریف میں نہیں آتے۔ جب انسان اور حیوان کا آپ تجزیہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ بکری کے اندر بھی روح ہے اور جب تک بکری کے اندر روح ہے بکری بھی کھاتی ہے، پیتی ہے ، سوتی ہے، جاگتی ہے، اس کے بچے ہوتے ہیں، بچوں کو دودھ پلاتی ہے۔ لیکن جب بکری کے اندر سے روح نکل جاتی ہے تو ایک مُردہ انسان اور ایک مُردہ بکری دونوں برابر ہیں۔ اس کے اندر بھی روح کے بغیر حرکت نہیں ہوتی۔ اب فرق کیا ہوا بکری اور انسان میں؟کھانے پینے میں دونوں مشترک ہیں، بیماری ،دکھ درد، اولاد کی تربیت کرنےمیں انسان حیوان دونوں مشترک ہیں، سونے جاگنے میں انسان حیوان دونوںمشترک ہیں اور اس بات میں بھی مشترک ہیں کہ جب تک روح حیوان کے اندر یا بکری کے اندر مَوجود ہے اس وقت تک اس کے اندر بھی حرکت ہے اور بکری کے اندر سے جب روح نکل جائے گی تو بکری کے اندر کوئی حرکت نہیں رہے گی…
‘‘انسان اور حیوان میں فرق یہ ہے کہ اس قانون کو، اس علم کو صرف انسان جانتا ہے کہ “روح ہے تو حرکت ہے اور روح نہیں ہے تو حرکت نہیں ہے۔’’
اور یہی وہ بنیادی فلسفہ ہے، یہی وہ بنیادی نقطہ ہے اور یہی وہ بنیادہ بات ہے کہ جس کی وجہ سے انسان اشرف المخلوقات ہے۔ انسان کے تجربے میں یہ بات آتی ہے کہ روح انسان میں بھی ہے اور روح حیوان میں بھی ہے لیکن انسان اگر اپنی روح سے واقفیت پیدا کرنے میں یہ بات آتی ہے کہ روح انسان میں بھی ہے اور روح حیوان میں بھی ہے لیکن اگر انسان اپنی روح سے واقفیت پیدا کرنے کیلئے جدوجہد اور کوشش نہیں کرتا تو انسان اور حیوان دونوں برابر ہیں۔ انسان کا اعزاز یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو…. ‘‘وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا’’…. کہہ کر علم الاسماء کا علم سکھا کر یہ بتادیا ہے کہ مادّی جسم ، گوشت پوست کا جسم… ہڈیوں کا ڈھانچہ… یہ ایک عارضی چیز ہے… ایک(Fiction) چیز ہے۔
بچہ پیدا ہوتا ہے۔ ایک سال گزرنے کے بعد ہم خوش ہورہے ہیں کہ ہمارا بچہ ایک سال کا ہُوا ہم سالگرہ منا رہے ہیں دس سال کا ہُوا ہم اور زیادہ خوش ہورہے ہیں۔ لیکن آپ غور و فکر کریں کہ جو بچہ آج پیدا ہُوا، اس بچے کی عمر اگر ۷۰ سال ہے…. دس سال جب اس کی عمر کے گزر گئے تو اس کی ۷۰ سال کی عمر میں سے دس سال گھٹ گئے اور اب وہ بیچارہ ۶۰ سال کا رہ گیا اور آپ اس کی خوشی منا رہے ہیں…. بھئی‘‘ہیپی برتھ ڈے ٹو یو’’ …. بھئی بڑی خوشی کی بات ہے کہ ہمارے بچے کے دس سال گھٹ گئے…. یعنی ہر چیز الٹ ہے۔
ایک بچہ پیدا ہوتا ہے اگر بچہ پہلے دن مر نہیں جاتا بچہ دوسرے دن پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔ اگر بچے کا ایک سال فنا نہیں ہوجاتا تو کوئی بچہ دو سال کا نہیں ہوسکتا تھا۔ تو جب ہم مادّی گوشت پوست کے جسم کا تذکرہ کرتے ہیں یا مادّی زندگی کا تذکرہ کرتے ہیں تو وہاں اگر غور و فکر کیا جائے تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ہم بالکل جاہلانہ ، بیوقوفانہ باتیں کرتے ہیں۔ اس کے پیچھے نہ کوئی (Logic) ہے…. اس کے پیچھے نہ تو کوئی علم ہے… اس کے پیچھے نہ کوئی حقیقت ہے…. یہ تو ایک(Fiction)ہے عارضی چیز ہے جس کے پیچھے سب بھاگ رہے ہیں۔
سادھو کبیر داس نے ایک دفعہ ایک دوھا کہا تھا۔
‘‘رنگی کو کہیں نارنگی…. تنت مال کو کھویا
چلتی کو کہیں گاڑی …….. دیکھ کبیراؔ رویا’’
نارنگی کینو کو بھی کہتے ہیں اور سنگترے کو بھی۔ سادھو صاحب کہتے ہیں کہ کینو ہو یا سنگترہ اس کی کوئی چیز بھی بے رنگ ہے ہی نہیں۔ اوپر سے چھلکا بھی رنگین ہے اندر سے کھولو تو سفید وہ بھی رنگ ہے پھر اس کی قاش کھولو تو وہ بھی رنگین ہے پھر اس کا بیج وہ بھی رنگین ہے۔ بیج کو بیچ میں سے توڑو وہ بھی رنگین ہے اس کا نام رکھا ہے نارنگی یعنی جس کا کوئی رنگ نہیں یعنی رنگی کو کہیں نارنگی۔
تنت مال کو کھویا …. سیروں دودھ پکا کے…. پانچ سیر چھ سیر دودھ پکا کے آپ ایک پاؤ کھویا نکالتے ہیں‘‘جَوہر’’ یعنی دودھ کو جلا کے… پکا کے… پانچ چھ سیر دودھ آپ نے پکایا…. حاصل آپ کو کیا ہوا؟ اس کا نام رکھا ہے ‘‘کھویا’’ …. یعنی کھودیا۔ یعنی جو چیز حاصل ہے اس کا نام رکھ دیتے ہیں کھودیا…. کھویا۔
جو چیز رنگین ہے اس کا نام رکھ رہے ہیں… نارنگی…. جس کا کوئی رنگ نہیں اور جو چیز حاصل ہے اس کا نام رکھ دیتے ہیں… کھودیا۔ چلتی کو کہیں گاڑی۔ جو چیز چلنے والی ہے وہ ریڑھا ہو، چھکڑا ہو، کار ہو، سائیکل ہو، موٹر سائیکل ہو اس کا نام رکھ دیا ہے گاڑی یعنی… ‘‘گاڑدی’’…. چلتی کو کہیں گاڑی… دیکھ کبیر رویا… کہ یہ دنیا جو ہے ہر چیز کی الٹ ہے اور اس الٹ پھیر کے چکر میں سوائے رونے کے اور کوئی چیز انسان کو حاصل نہیں۔
آپ یہاں کچھ بھی کرلیں ، کتنی بھی جائیدادیں بنالیں، کتنی بھی زمینیں خریدلیں نتیجہ اس کا یہ ہے کہ آپ کو یہاں سب کچھ چھوڑ کے جانا ہے۔ آپ کا کچھ نہیں ہے اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ زمین نہ خریدیں، مکان نہ بنائیں، کھیتی باڑی نہ کریں، فیکٹری نہ لگائیں۔ اگر یہ سب کچھ نہیں ہوگا تو دنیا کی رونق ختم ہوجائے گی۔ یہ سب کچھ کریں اچھے سے اچھا مکان بنائیں۔ اچھے سے اچھا آرام و آسائیش کا اہتمام کریں ۔ لیکن جو آپ کا اصل ہے… اُس سے آپ ضرور واقف ہوں اور آپ کو معلوم ہو کہ ہم یہاں تھوڑے وقفے کے لئے آئے ہیں۔ یہ ایک مسافر خانہ ہے۔ مسافر ضانے میں آپ کھلی چارپائی پر بھی سو سکتے ہیں ، مسافر خانے میں آپ (BED) پر بھی سو سکتے ہیں ۔ مسافر خانے میں آپ (A.C)بھی لگاسکتے ہیں لیکن وہ مسافر خانہ ہی رہے گا۔ ایک کسان کیلئے ضروری ہے کہ وہ غلہ اگائے۔ اگر وہ غلہ نہیں اگائے گا، اناج پیدا نہیں کرے گا تو قحط پڑ جائے گا۔ ایک بڑھئی کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے لئے اپنے بھائیوں کیلئے دروازہ بنائے تاکہ گرمی سردی سے اس کے بھائی محفوظ رہ سکیں۔
آپ کے پاس چار پیسے ہوں ۔ چار پیسے آپ کے پاس اس لئے ہونے چاہئیں کہ آپ اپنے بچوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلوائیں۔ چار پیسے آپ کے پاس اسلئے ہونے چاہئیں کہ آپ غریبوں کی مدد کریں۔ چارپیسےآپکےپاس اسلئےہونےچاہئیں کہ دکھ درد میں آپ کے کام آئیں ۔ آپ دوسروں کے کام آئیں دوسرے آپ کے کام آئیں۔ لیکن پیسہ اکھٹا کرنا اگر زندگی کا مقصد بن گیا تو آپ نے اپنی پیدائش کا مقصد کھودیا۔
تو یہ جتنے بھی اولیاء اللہ آئے ہیں کیا آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ ولی اللہ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ کپڑے نہیں پہنتا۔ ولی اللہ کا مطلب یہ ہے کہ اس کی روح ختم ہوجاتی ہے۔ ولی اللہ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے بچے نہیں ہوتے… کیا کسی ولی اللہ نے اپنے بچوں کو جنگلوں میں بھیج دیا؟کیا ان کی تعلیم و تربیت نہیں کی؟
مقصد یہ ہے کہ اس دنیا کی ہر چیز کو آپ خوش ہو کر استعمال کریں اس لئے استعمال کریں کہ اللہ چاہتا ہے کہ آپ زمین پر رہیں ۔ زمین کی رونق آپ کے دم قدم سے بحال رہے لیکن مقصد آپ کا یہ ہونا چاہیے کہ… ہمیں اللہ نے یہاں بھیجا ہے… اور ہماری زندگی کا مقصد ہے کہ… اللہ ہمیں جانتا ہو اور ہم اللہ کو جانتے ہوں۔
حضور قلندر بابا اولیاؒ نے مجھ سے فرمایا کہ جب حضرت علیؓ اور حضرت عمر ؓ حضور پاکؐ کا جبہ مبارک لے کر حضرت اویس قرنیؓ کے پاس گئے تو انہیں ڈھونڈا وہ مل گئے۔ انہیں سلام کیا اور کہا کہ حضور پاکؐ نے فرمایا ہے کہ جب تم اویس قرنی کو پاؤ تو میری امانت وہاں تک پہنچادینا اور میری اُمّت کیلئے ان سے دعا کرانا ۔ تو انہوں نے دعا کی۔ پھر حضرت عمر ؓ نے کہا آپ مجھے کچھ نصیحت کریں۔ حضرت علیؓ تو ادب کی وجہ سے خاموش رہے ۔ حضرت اویس قرنی ؓ نے فرمایا کہ اے عمرؓ! تم اللہ کو جانتے ہو؟ توحضرت عمر نے فرمایا میں اللہ کو جانتا ہوں…. پھر حضرت اویس ؓ نے فرمایا اے عمرؓ! اللہ بھی تمہیں جانتا ہے؟ تو حضرت عمرؓ نے فرمایا… اَلْحَمْدُ لِلّٰہ… اللہ بھی مجھے جانتا ہے… حضرت اویس قرنی ؓ نے فرمایا اب تمہیں کسی نصیحت کی ضرورت نہیں۔
مصدا یہ ہے کہ… ایک آدمی جب اس دنیا میں پیدا ہو گیا اگر اس کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ….
اس کی ماں کون ہے؟ اس کا باپ کون ہے؟…. کیا اس کی زندگی پر سکون گزرسکتی ہے؟
تو جب آپ کو یہ پتہ ہی نہیں ہے کہ آپ کا خالق کون ہے… تو کیسے آپ کی زندگی پر سکون گزرسکتی ہے…
مقصد دنیا کا یہی ہے کہ دنیا میں رہیں، اخلاق کی حدود میں رہتے ہوئے سب کچھ کریں، لیکن آپ کی زندگی کامقصد صرف یہ ہونا چاہیئے کہ اللہ آپ کو جانتا ہو اور آپ اللہ کو جانتے ہوں۔ یہ اللہ کو جاننا اس کے بغیر ممکن نہیں ہے، جب تک آپ اپنی ذات سے ، اپنی اصل سے ، اپنی روح سے واقف نہیں ہوجاتے۔
حضورؐ کا ارشاد ہے: مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ۔
ترجمہ: وہ بندہ جو اپنے آپ سے واقف نہیں ہوتا وہ اللہ کو نہیں پہچان سکتا۔
آپ کی اصل کیا ہے؟ ہماری اصل روح ہے۔ اگر آپ روح کو نہیں جانتے تو آپ اصل سے واقف نہیں ہیں۔ تو جب اصل سے ہی واقف نہیں ہیں تو آپ تو کسی چیز سے بھی واقف نہیں ہیں۔ اس اصل سے واقفیت کیلئے ضروری ہے کہ جس طرح آپ دنیاوی کاموں میں دلچسپی لیتے ہیں جیسے ایک بچہ ہے آپ اسے تعلیم دلانا چاہتے ہیں تو دس سال تک تو آپ اسے اسکول میں بھیجتے ہیں۔ دس سال میں میٹرک کا (Subject)کلیئر(Clear)ہوتا ہے۔ اورمیٹرک کوئی تعلیم نہیں ہے۔ میٹرک کرنے کے بعد تو تعلیم کے دروازے کھلتے ہیں کہ بچہ کس طرف جائے گا تو بچے کے آپ دس سال صرف اس بات میں صرف کردیتے ہیں کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ تو اسی طرح آپ اللہ کیلئے بھی کچھ وقت صرف کریں۔ اگر آپ اللہ کیلئے روزانہ دس منٹ بھی نہیں دے سکتے تو یہ تو سراسر ناشکری ہے۔
جیسے اللہ نے آپ کو پیدا کیا ہے….. میں جب لندن گیا تو مجھے یہ شوق ہوا کہ معلوم کروں کہ سائدشکانوں نے یہ جو جسم کی تمام ہڈیاں بنائی ہیں ، تمام اعضاء بنالئے ہیں ان کی کیا قیمت ہے؟ تو میں نے ایک چارٹ لیا اور جہاں جہاں یہ بکتی تھیں وہاں پہنچ گیا ۔ کئی ہسپتالوں میں گیا، کئی اداروں میں گیا کہ بھئی اس ہڈی کی کیا قیمت ہے؟ گھٹنے کی ہڈی کی کیا قیمت ہے؟ کندھے کے مہرے کی کیا قیمت ہے؟ جو کمر کے مہرے ہیں ان کی کیا قیمت ہے؟ تو وہ سارا حساب کتاب پاکستانی روپوں کے مطابق ڈھائی کڑور روپے کا بنا ۔ یعنی انسان جس(Structure)پر جس ہڈیوں کے ڈھانچے پر کھڑا ہوا ہے ان ہڈیوں کی قیمت جو سائنس نے پلاسٹک اور دوسرے مصالحے سے بنائی ہیں ڈھائی کروڑ روپے ہے۔
پھر میں آپریشن کی طرف گیا کہ بھئی دماغ کے آپریشن کے کتنے پیسے ہوئے ؟ دل کے آپریشن کے کتنے پیسے ہوئے؟ وہ بانوے لاکھ روپے بنے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر انسان جو یہاں بیٹھا ہوا ہے اور ہر وہ انسان جو دنیا میں آباد ہے ہر روز اللہ تعالیٰ کے تین کروڑ روپے خرچ کرتا ہے۔ یہ جو آپ بیٹھے ہوئے ہیں یہ اللہ کی تین کروڑ کی مشینری ہے۔ یعنی آپ اللہ کی دی ہوئی تین کروڑ یا ساڑھے تین کروڑ روپے کی مشین کو روز استعمال کر رہے ہیں اور اللہ کیلئے آپ کے پاس شکر ادا کرنے کیلئے ۱۰ منٹ کا وقت بھی نہیں ہے۔
اس سے زیادہ بے حسی کیا ہوسکتی ہے، اس سے زیادہ کفرانِ نعمت کیا ہو سکتا ہے، اس سے زیادہ ناشکری کیا ہو سکتی ہے، اس سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات سے مذاق اڑانا کیا ہو سکتا ہے….!!!
آپ دماغ کو دیکھئے، دماغ فیل (Fail) ہوجائے تو کچھ بھی نہیں ہے ۔ آپ نے وہ ذہنی معذور بچے نہیں دیکھے ۔ ساری دنیا میں ان کا علاج ہی نہیں ہو سکتا۔ تو اگر آپ کا کوئی بچہ تعلیم حاصل کر کے کسی بڑے عہدے پر فائز ہوجاتا ہے تو وہ اس لئے ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا دماغ اس کے اندر کام کر رہا ہے اگر اللہ کا دیا ہوا دماغ اناان کے اندر کام نہ کرے ، آدمی پاگل ہوجائے تو کیا کوئی ایسا آدمی تعلیم حاصل کرسکتا ہے؟ اچھا صاحب اللہ میاں بھوک نہ لگائے ہم روٹی کھاسکتے ہیں۔ پھر اگر بھوک لگ گئی اور آپ کا ہاضمہ خراب ہوجائے کیا آپ دوبارہ روٹی کھا سکتے ہیں؟
مجھے ایک قصہ یاد آیا وہ یہ تھا کہ ایک بادشاہ تھا۔ اس کو پیشاب کی تکلیف ہوگئی۔ ان کا پیشاب بند ہوگیا۔ بڑا علاج کیا ہر قسم کی تدبیر کی لیکن کوئی علاج بھی کارگر نہ ہوا۔ تو لوگوں کو تلاش ہوئی کہ اللہ کا کوئی ایسا بندہ ملے جو علاج کر دے۔ جب آدمی دنیا سے مایوس ہوجاتا ہے تو پھر اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ ‘‘جب بندہ دنیا سے مایوس ہوجاتا ہے تو ہماری طرف آتا ہے، پھر جب ہم آسانیاں فراہم کر دیتے ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تومیں نے کیا ہے’’…. تو کوئی فقیر آدمی مل گیا۔ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے بھئی صورت یہ ہے کہ اگر بادشاہ ہمارے پاس خود چل کر آئے تو ہم علاج کرتے ہیں۔ مرتا کیا نہ کرتا، بادشاہ وہاں پہنچ گیا تو انہوں نے کہا کہ بھئی تمہاری پیشاب کی تکلیف ختم ہوجائے گی لیکن ہماری شرط یہ ہے کہ تم اپنی آدھی سلطنت ہمیں دے دو۔ تو بادشاہ نے وہ آدھی سلطنت اس فقیر کے نام لکھ دی ۔ پیشاب کا راستہ کھل گیا۔ لیکن اب وہ اس طرح کھلا کہ بند نہیں ہوتا تھا۔ یہ ایک نئی بیماری شروع ہوگئی۔ بتایا گیا کہ اس شہر میں جتنے کپڑے کے تھان تھے وہ سارے خراب ہوگئے ۔ یہ کیا مصیبت آگئی بھئی بادشاہ نے سوچا۔ انہوں نے کہا کہ بھئی پھر وہیں چلتے ہیں فقیر کے پاس۔ وہ پھر وہاں فقیر کے پاس پہنچ گئے تو فقیر نے کہا کہ بھئی اب تمہارا پیشاب نارمل (Normal) ہوجائے گا لیکن جو مزید آدھی سلطنت ہے وہ بھی لکھ دو۔ بادشاہ نے وہ بھی لکھ دی۔ اب بادشاہ گھر جا کر بالکل ٹھیک ہوگیا۔ جب وہ ٹکھی ہو گاہ تو وہ توھار اور تاج لری فرار کی خدمت مںا حاضر ہُوا اور کال کہ صاحب…. مرلا تو کھی ہے ہی نںو۔، میں تو سب کچھ لکھ چکا ہوں ، اب میرے لئے کیا حکم ہے؟
اس فقیر نے وہ کاغذات جو بادشاہ نے لکھ کر دیئے تھے اس کو واپس کئے اور کہا کہ میاں ہمیں سلطنت سے کیا سرکار۔ ہم تو تمہیں دکھانا چاہتے تھے کہ…‘‘تمہاری اس سلطنت کی قیمت پیشاب جتنی بھی نہیں ہے… تم نے پیشاب کیلئے پوری سلطنت لکھ دی… جاؤ اللہ کی مخلوق کی خدمت کرو اور انہیں دکھ درد اور تکلیف نہ دو۔
سیدھی سی بات ہے کہ ہم میں سے اگر کسی کا اللہ تعالیٰ پیشاب بند کردیں تو ہم ہر چیز لکھ دیں گے پھر زیادہ کھل جائے تو ہم ہر چیز لکھ دیں گے۔ اس دنیا کی قیمت کیا ہوئی بھئی؟
یہ دنیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اسلئے دی ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کھائیں ، پئیں، پہنیں، اوڑھیں لیکن خوش رہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ دنیا میں ہمارا اتنا زیادہ اِنہماک ہو گیا ہے کہ ہم اللہ ہی کو بھول گئے ہیں۔ کھانا پینا تو ہمیں یاد ہے، کپڑے پہننا بھی ہمیں یاد ہے، پیسہ جمع کرنا بھی ہمیں یاد ہے لیکن اگر کوئی چیز یاد نہیں تو اللہ تعالیٰ یاد نہیں۔
یہی وہ طرزِ فکر ہے جس کو حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے ایک مربوط شکل میں پیش کیا اور اس کا نام ‘‘سلسلہ’’ رکھا۔ سلسلہ کا مطلب ہے …. ایک طریقہ کار… سلسلہ کا مطلب ہے… راستہ…. ایک متعیّن کردہ راستہ۔
تو یہ جتنے بھی سلاسل ہیں یہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کو عام کرنے کیلئے جدوجہد اور کوشش کرتے ہیں اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غارِ حرا میں مراقبہ کیا۔
مراقبہ کا مطلب پہلے ہی بیان ہو چکا ہے۔ مراقبہ کا مطلب آنکھیں بند کر کے بیٹھ جانا نہیں ہے۔ مراقبہ کا مطلب ہے غور و فکر کرنا کہ میں کون ہوں؟ مجھے کیوں پیدا کیا گیا؟ میرا پیدا کرنے والا کون ہے؟ مجھے اتنے سارے وسائل جو اللہ نے دیئے ہیں وہ کیا ہیں؟ اور یہ وسائل کیوں دیئے ہیں؟
مثلاً دھوپ نکل رہی ہے اب بتائیے اگر اس دھوپ کی قیمت اللہ تعالیٰ لگا دے تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟ پانی پیتے ہیں، کتنا پانی پیتے ہیں کنؤوں کے حساب سے پانی پیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اگر کہے کہ تم جب تک تین دفعہ اللہ اللہ نہیں کہو گے پانی نہیں دوں گا تو ہر آدمی اللہ ہی اللہ کرتا رہے گا کوئی کام اس کو ہوگا ہی نہیں۔ یہ زمین ہے اس میں ہوا ہے وہ بھی مفت، آکسیجن ہے وہ بھی مفت یہ زمین جس کی قیمت آپ ایک ایک لاکھ روپے مرلہ دیتے ہیں۔ اللہ کو آپ نے اس زمین کے کتنے پیسے دئیے۔ بتائیں! یہ زمین آپ کی ہے یا اللہ کی ہے۔ اچھا آپ کہتے ہیں میری ہے تو پھر قبر میں کیوں نہیں ساتھ لے کر جاتے اگر آپ کی ہے تو۔ الغرض اللہ کے بیشمار انعامات ہیں آپ کے اوپر۔ جیسے ساڑھے تین کروڑ روپے کی تو مشینری ہے، بتاؤ اللہ کو آپ نے کتنے پیسے دئیے؟ زمین آپ کو مفت ملی، پانی آپ کو مفت ہے، ہَوا آپ کو مفت ہے، دھوپ آپ کو مفت ملی ہے۔ چاند ہے جب تک چاند نہ نکلے ساری کھیتی باڑی خراب ہوجائے گی۔ ہر چیز کڑوی ہوجائے گی۔ چاند ہوگا تو آپ کے جَو میں، باجرہ میں، سبزیوں میں، پھلوں میں مٹھاس پڑے گی اور اگر چاند نہیں ہوگا تو ہر چیز کڑوی ہوجائےگی۔ اگر دھوپ نہیں نکلے گی تو گندم کچی ہو کے خراب ہوجائے گی، سڑجائے گی۔ آپ کی گندم پک کے گیلی ہوگئی تو اس کا آٹا نہیں بن سکتا۔ کیا آپ نے کبھی اس دھوپ کا اللہ تعالیٰ کو پیسہ دیا ہے؟ آپ چکیوں میں آٹا پیستے ہیں اللہ تعالیٰ پتھر نہ بنائے آپ آٹا پیس سکتے ہیں؟ آپ روٹی کھاتے ہیں اللہ میاں اگر لوہار نہ بنائے… تَو ا بن سکتا ہے…. آپ کی روٹی پک سکتی ہے؟
جتنا بھی غور کریں وہاں یہی بات آپ کو نظر آئے گی کہ اللہ تعالیٰ اتنا بڑا رحیم و کریم خالق ہے کہ ہر چیز جو آپ کی زندگی میں کسی بھی طرح داخل ہے وہ آپ کو مفت مل رہی ہے۔ اور اس کے با وُجود بھی آپ اللہ کی طرف متوجہ نہیں ہوتے کہ اس خالق کو مالک کو خودمختار کو جس نے آپ کو ہر چیز مفت دی ہوئی ہے آپ پہچاننے کی کوشش کریں جدوجہد کریں۔
یہی وہ عمل ہے… کفرانِ نعمت کا… جس کی وجہ سے پورے انسان دردناک عذاب میں مبتلا ہیں۔ کوئی گھر ایسا نہیں ہے جہاں بے سکونی نہ ہو کوئی گھر ایسا نہیں ہے کہ جہاں بیماریاں نہ ہوں کوئی گھر ایسا نہیں ہے جہاں نفرت نہ ہو۔ کوئی گھر ایسا نہیں ہے کہ جہاں آپس میں ایک دوسرے کی غیبت نہ کرتے ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے کی پیرہن نہ کھینچتے ہوں۔
وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ ہم اللہ کی نعمتیں تو استعمال کرتے ہیں لیکن نعمت دینے والے کو یاد نہیں کرتے ، نعمت دینے والے سے اپنا تعلق قائم نہیں کرنا چاہتے نتیجہ میں پریشانی تو ہوگی ہی۔ اور اس پریشانی سے نجات حاصل کرنے کا طریقہ بھی بہت آسان ہے۔ وہ یہی ہے کہ جب آپ پانی پئیں تو اللہ کو یاد کریں کہ ایسا اچھا اللہ ہے جس نے ٹھنڈا میٹھا پانی فراہم کیا۔ یہ آپ کی جو زمین ہے اگر اس میں سارا پانی کھارا ہوجائے تو پوری پوری آبادیاں وہاں چلی جائیں گی جہاں ٹھنڈا اور میٹھا پانی ہوگا۔ اب جن زمینوں میں میٹھا پانی نہیں ہوتا وہاں آبادی ہوتی ہی نہیں۔ کیوں نہیں ہوتی آبادی اس لئے کہ اللہ نے وہاں پانی میٹھا نہیں کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ زمین میں جہاں میٹھا پانی ہے وہاں کھارا پانی بھی ہے تو یہ پانی جو اللہ میٹھا پانی پیدا کرتا ہے کھارا پانی بھی پیدا کرسکتا ہے۔ وہ چاہے تو ساری زمین کا پانی کھارا کر سکتا ہے۔ کیا آپ کچھ کرسکتے ہیں؟ کھیتی اُگ سکتی ہے؟ آ پ زندہ رہ سکتے ہیں؟ آپ کے جانور زندہ رہ سکتے ہیں؟ درخت قائم رہ سکتے ہیں؟
ہر چیز آپ کو اللہ کی طرف سے مفت مل رہی ہے اور وہ اس لئے کہ … اللہ تعالیٰ یہ کہتا ہے کہ… میں نے مخلوق کو محبت کے ساتھ تخلیق کیا کہ مخلوق مجھے پہچانے، میرا عرفان حاصل کرے، مجھ سے عرض و معروضات پیش کرے….
‘‘اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ’’ (سورۃ غافر-60)….
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ مخلوق جب مجھ سے مانگتی ہے تو میں اسے قبول کرتا ہوں، اسے دیتا ہوں۔
سلسلۂِ عظیمیہ کا مختصر تعارف یہ ہے کہ سلسلۂِ عظیمیہ نے رسول اللہ ﷺ کے مشن کی ترویج کیلئے ایسے اسباق مرتّب کئے ہیں جن اسباق کو پڑھ کر آدمی اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بن جاتا ہے اور جب ان تعلیمات پر عمل کر کے آدمی غور و فکر کرتا ہے، اپنے آپ کو ڈھونڈتا ہے، اللہ تعالیٰ کو ڈھونڈتا ہے یعنی مراقبہ کرتا ہے تو اس مراقبے کے نتیجے میں انسان کی زندگی کا جو مقصد ہے وہ اسے حاصل ہوجاتا ہے یعنی وہ اللہ کا عرفان حاصل کرلیتا ہے۔
ما شا ء اللہ ، آپ کے شہر میں بچوں نے کوشش کر کے مراقبہ ہال کے نام سے مزنگ میں جگہ بنالی ہے۔ یہ ایک روحانی درسگاہ ہے۔ یہ ایک مدرسہ ہے۔ یہ ایک اسکول ہے۔ دنیاوی علوم کیلئے تو آپ اپنے بچوں کو اسکول میں بھیجتے ہیں، فیسیں بھی بھرتے ہیں، یونیفارمز بھی بناتے ہیں اور پتہ نہیں کیا کچھ کرتے ہیں لیکن یہ ایک ایسا اسکول ہے کہ اگر آپ یہاں تشریف لائیں ، اپنے بچوں کو بھیجیں تو یہاں آپ کو ایسی تعلیمات ملیں گی کہ جس سے آپ کو پتہ چل جائے گا کہ آپ اللہ کو کس طرح ڈھونڈ سکتے ہیں، اپنے آپ سے کس طرح واقف ہوسکتے ہیں۔
حضور پاکؐ کا ارشاد ہے: ‘‘ مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ ’’ جس نے خود کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا اس حدیث مبارکہ کی عملی تفسیر آپ کے سامنے آسکتی ہے… اس اسکول میں اس مدرسے میں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ ہم اپنی زندگی کا جو مقصد ہے یعنی اللہ کا عرفان ، اللہ کے رسولؐ کا عرفان ، اللہ کے پیغمبروں کا عرفان ، نیک روحوں کا عرفان حاصل کرنے کیلئے جدوجہد اور کوشش کریں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے”جو لوگ میرے لئے جدو جہد کرتے ہیں یعنی مجھے جاننے کی کوشش کرتے ہیں، مجھے پہچاننے کیلئے اقدامات کرتے ہیں میں ان کو ضرور اپنے راستے کی طرف روشنی دکھاتا ہوں۔”
یہ وعدہ ہے اللہ تعالیٰ کا ۔ اللہ تعالیٰ دور نہیں ہے، اللہ تو بہت قریب ہے۔ قرآن شریف میں ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ”میں تمہاری رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہوں۔”یعنی جتنی آپ کی جان ہے اس سے بھی زیادہ قریب اللہ تعالیٰ ہیں۔
‘‘ أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيطٌ ’’ (سورۃ فُصِّلَت – 54)
اللہ ایک ایسا دائرہ ہے جس دائرے کی اندر انسان اور ہر چیز مَوجود ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جہاں تم ایک ہو وہاں میں دوسرا ہوں، جہاں تم دو ہو ، وہاں میں تیسرا ہوں۔ جو تم چھپاتے ہو وہ میں جانتا ہوں۔ جو تم کرتے ہو وہ میں دیکھتا ہوں اور اس سے زیادہ اللہ کیا فرمائیں گے….
‘‘ وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ’’ (سورۃ الذّارِیات – 21)
میں تمہارے اندر ہوں تم مجھے دیکھتے نہیں ہو۔
اللہ تعالیٰ سے قریب کوئی چیز نہیں ہے اور اگر کوئی چیز قریب ہے تو وہ انسان ہے جو اللہ سے قریب ہے باقی ہر چیز دور ہے۔”ماں”کتنی بھی بچے سے قریب ہو لیکن ماں کو ایک دن مر جانا ہے۔ بچہ کتنا بھی قریب ہو ماں سے، بچہ کو ایک دن مر جانا ہے۔ باپ اور اولاد کا رشتہ اسی وقت تک قائم ہے جب تک موت نہیں آجاتی ۔ اور موت لازم آنی ہے۔
بھئی میرے باپ کے باپ مرگئے پھر میرے ابا جی مر گئے اب میں عمر کے اس حصے میں ہوں میں بھی جہاں آکے مرجاؤں گا۔ میری اولاد آئے گی، وہ ماں باپ دادا دادی بنے گی وہ بھی مر جائے گی۔
یہ کیسا رشتہ ہے کہ ہر آدمی مر رہا ہے اور اپنے پیچھے لوگوں کو چھوڑ کر جارہا ہے نہ وہ خود یہاں رہ سکتا ہے اور نہ ہی دوسرے لوگ کسی اور کو روک سکتے ہیں۔ یہ زندگی ہے… اس زندگی کا کوئی اعتبار ہے…!!؟
آپ آدمؑ سے لے کر اب تک دیکھیں ۔ ہر بچہ جو پیدا ہُوا تھا بڑا ہو کر مرگیا ۔ ہر وہ ماں جو ماں بنی وہ نانی دادی ہوکے مرگئی۔ یہ کیسے رشتے ہیں؟ یہ عارضی رشتے ہیں۔ ان رشتوں کا اعتبار صرف یہ ہے کہ:
آپ کو اللہ تعالیٰ نے ماں بنایا، باپ بنایا ، اولاد بنائی اور اللہ تعالیٰ نے ماں باپ اور اولاد کے حقوق متعیّن کر دیئے ۔ اگر آپ نے وہ حقوق پورے کردیئے تو منشاء پورا ہو گیا لیکن آپ کی ذات کا منشاء اسی وقت پورا ہوگا جب آپ اللہ تعالیٰ کو جان لیں گے اور پہچان لیں گے۔ اور اللہ تعالی کو پہچاننے اور جاننے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے آپ خود کو پہچانیں۔
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ …. یعنی جس نے اپنی روح کو پہچان لیا….
فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ …. پس اس نے اللہ کو پہچان لیا….
روح کو پہچاننے کیلئے ضروری ہے کہ روح تو اندر ہے آپ باہر دیکھنے کی بجائے اندر دیکھنے کی کوشش کریں تو جب آپ اندر دیکھنے کی کوشش کریں گے تو اس کوشش میں آپ کو کامیابی حاصل ہوجائے گی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے تو جب آپ اپنی روح کو دیکھ لیں گے، روح سے واقف ہوجائیں گے تو آپ اللہ تعالیٰ سے بھی واقف ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ:
ہم دنیاوی زندگی کے ساتھ ساتھ اپنی اصل سے بھی واقفیت حاصل کریں۔ ہمارا خالق و مالک اللہ جس نے ہمیں ہر قسم کے آرام و آسائش عطا فرمائے ہیں اس کو جاننے اور پہچاننے کی جدو جہد اور کوشش کریں اور اس میں کامیابی حاصل ہوجائے۔(آمین)
السّلام علیکم!
٭٭٭٭٭

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 31 تا 49

خطباتِ لاہور کے مضامین :

0.01 - اِنتساب 0.02 - ترتیب و پیشکش 1 - شہرِِ لاہور 2 - لاہور کے اولیاء اللہ 3 - مرشدِ کریم کی لاہور میں پہلی آمد 4 - مراقبہ ھال مزنگ کے افتتاح پر خطاب 5 - محمد حسین میموریل ہال مزنگ میں عظیمی صاحب کا خطاب 6 - جامعہ عظیمیہؔ کاہنہ نَو کے افتتاح سے خطاب 7 - دوسری بین الاقوامی رُوحانی کانفرنس سے خطاب 8 - جامعہ مسجد عظیمیہؔ کے افتتاح سے خطاب 9 - سہہ ماہی میٹنگ سے خطاب 10 - قلندر شعور 11 - شعور اور لاشعور 12 - کُن فیکُون 13 - تقریبِ رُونمائی کتاب”مراقبہ”سے خطاب 14 - مراقبہ ہال برائے خواتین کے افتتاح پر خطاب 15 - کتاب “محمدؐ رسول اللّٰہ ﷺ”کی تقریب ِ رُونمائی سے خطاب 16 - روحانی سیمینار سے خطاب 17 - حضرت ابو الفیض قلندر علی سہر وردیؒ کے مزار پر حاضری 18 - لاہور بار ایسوسی ایشن سے خطاب 19 - کتاب “ہمارے بچے “کی تقریب ِ رُونمائی سے خطاب 20 - لاہور ہائیکورٹ بار سے خطاب 21 - اوریئنٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور میں خطاب 22 - محفلِ میلاد سے خطاب بمقام جامع عظیمیہ لاہور 23 - ایوانِ اقبال میں پہلی سیرت کانفرنس سے خطاب 24 - سیرتِ طَیّبہؐ پر اَیوانِ اِقبال میں خطاب 25 - اراکینِ سلسلۂِ عظیمیہ لاہور سے خطاب 26 - سیشن برائے رُوحانی سوال و جواب
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)