ایوانِ اقبال میں پہلی سیرت کانفرنس سے خطاب

مکمل کتاب : خطباتِ لاہور

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=25394

ایوانِ اقبال لاہور میں مارچ ۲۰۰۴ء کو مراقبہ ہال لاہور کے زیرِ اہتمام ایک سیرت کانفرنس بعنوان “اُسوۂِ حسَنہ سے معاشرہ میں راہنمائی ” کا انعقاد کیا گیا۔ اس سیرت کانفرنس میں مجیبُ الرحمن شامی صاحب، چیف ایڈیٹر خبریں اخبار و چینل فائیو اور نُور الدین جامی صاحب ڈین فیکلٹی شعبہ اسلامیات بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی صاحبان نے خصوصی طور پر شرکت فرمائی۔ اس کے علاوہ کراچی اور ملک کے دیگر شہروں سے مہمانانِ گرامی اور سلسلۂِ عظیمیہؔ کے اراکین کی کثیر تعداد نے شرکت فرمائی جس کی تعداد تقریباًہزار افراد سے زائد تھی۔ پروگرام کی مینیجمنٹ بہت خوبصورت انداز سے کی گئی تھی۔ نگران مراقبہ ہال لاہور جناب میاں مشتاق احمد عظیمی صاحب نے آغاز میں مرشدِ کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کا خصوصی تعارف پیش کیا اور آپ کی سلسلہ کیلئے اور نوعِ انسانی کیلئے خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ مہمانانِ گرامی نے پروگرام کو بہت پسند کیا اور آئندہ ایسے پروگرام کرنے کیلئے درخواست بھی کی۔ پروگرام کے آخر میں مہمانوں کی گرم گرم بریانی سے تواضع کی گئی۔

مرشدِ کریم نے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا:
أَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ۝
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمـٰنِ الرَّحِيمِ
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ۝
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ۝ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ۝ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ۝ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ۝ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ۝ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ۝
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
(سورۃ الأحزاب – 56)
سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ ۝ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ ۝
(سورۃ الصّافات – 181 – 180)

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰیٓ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیت عَلٰی اِبرَاھِیم وَعَلٰی اٰلِ اِبرَاھِیم اِنَّکَ حَمِید’‘ مَّجِید’‘ ۝
اَللّٰھُمَّ بَارِک عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰل ِمُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکتَ عَلٰی اِبرَاھِیم وَعَلٰی اٰلِ اِبرَاھِیم اِنَّکَ حَمِید’‘ مَّجِید’‘ ۝

آئیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے وہ کچھ کہنے کی توفیق عطا فرمائے جو آپ کے دلوں میں اتر جائے۔
رسول اللہ ﷺ کی نسبت سے میرے الفاظ میں اللہ وہ نُور بھر دے جس نُور سے ظلمتیں دُور ہو جاتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو توفیق عطا فرمائے کہ جو کچھ میں عرض کروں مجھے اور آپ سب کو اس عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)

السّلام علیکم!
آج کی اس رُوحانی، نورانی اور ماورائی مجلس میں آپ لوگوں نے مقررین کی تقریریں سنیں۔ بہت کچھ آپ نے سیکھا۔ بہت زیادہ معلومات کا اضافہ ہوا۔ کافی حد تک عمل کی تشنگی دور ہوئی۔ لیکن․․․․․ یہ جو عنوان ہے ،”اسوۂ حسنہ سے معاشرے میں اصلاح”کا…. یہ اتنا بڑا عنوان ہے کہ اس پر اب تک لاکھوں کتابیں، کروڑیں صفحات لکھے جاچکے ہیں۔ لیکن علم کی پیاس بجھنے کی بجائے اور بھڑک رہی ہے۔ بات یہ ہے کہ “یہاں جو کچھ ہے وہ اللہ ہے۔” کائنات میں․․․․․ اگر ہم، کائنات کے بارے میں غور و فکر کرتے ہیں تو ایک ہی بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ مخلوقات کے مجموعے کا نام کائنات ہے۔ اور ․․․․․
مخلوقات کتنی ہیں؟
اس کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَن تَنفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا
(سورۃ الکھف – 109)

“تمہارے سارے سمندر روشنائی بن جائیں، سارے درخت قلم بن جائیں۔ درخت بھی ختم ہوجائیں گے، سمندر بھی سوکھ جائیں گے لیکن اللہ کی باتیں پھر بھی باقی رہیں گی۔”
رسول اللہ ﷺ
• اللہ کے محبوب ہیں
• باعثِ تخلیق کائنات ہیں
• کائنات کا پہلا نُور ہیں، جیسے ارشاد پاک ہے: أوَّلْ مَا خَلَقَ اللهُ نُورِي
یعنی ایسی ہستی کا تذکرہ جو…. بعد اَز خدا بزرگ توئی…. قصّہ مختصر…. ہے۔
یعنی اللہ کے بعد․․․․․ اگر کوئی ہستی ہے تو وہ حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام ہیں۔
تو اُنؐ کا جتنا بھی تذکرہ کیا جائے، دفاتر لکھ دئیے جائیں، علم کی پیاس نہیں بجھتی۔ بلکہ اور تشنگی بڑھے گی۔

پندرہ سو سال سے رسول اللہ ﷺ کا تذکرہ ہورہا ہے۔ لیکن جب ہم رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد:
أوَّلْ مَا خَلَقَ اللهُ نُورِي
پر غور کرتے ہیں تو بھائی ․․․․․ یہ تو تذکرہ کائنات سے پہلے حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کا ہو رہا ہے۔
ابھی کائنات تخلیق بھی نہیں ہوئی۔ اللہ ہی اللہ ہے۔ اللہ نے رسول اللہ ﷺ کے نُور کو تخلیق کیا۔ اس نُور سے پھر ساری کائنات بنی۔ اسی لئے باعثِ تخلیق کائنات․․․․․ رسول اللہ ﷺ کو کہاجاتا ہے۔

سب نے ایک ہی بات کہی ہے جو میری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ہمیں اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ “اسوۂحسنہ ہے کیا؟”․․․․․․ عمل تو بعد میں ہوگا۔ پہلے یہ تو علم ہونا چاہئے کہ اسوۂ حسنہ کیا ہے اور جب اس کا علم ہوجائے تو پھر عمل کرنے میں آسانی ہوگی۔

حضور پاک ﷺ کی زندگی کھلی کتاب کی طرح ہمارے سامنے ہے۔ تاریخ کے حوالے سے بھی آپ نے سنا کہ رسول اللہ ﷺ تاریخ ساز شخصیت ہیں بلکہ مکمل ایک تاریخ ہیں۔ انبیاءِ کرامؑ علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کے علوم بھی ایک تاریخ ہیں۔ آسمانی صحیفے اور آسمانی کتابیں بھی تاریخ ہیں۔ آپ علیہ الصّلوٰۃ و السّلام قرآن پاکِ کا عملی نمونہ ہیں۔ تو یہ سب کچھ آپ نے سن لیا ہے۔
مختصر یہی ہے کہ:
“جو کچھ حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام نے کیا، اس پر عمل کیا جائے اور جو کچھ حضور پاک ﷺ نے نہیں کیا، کوشش کر کے ان باتوں کو ترک کردیاجائے۔”

یہی بات ہے جو آپ کے سمجھنے کی ہے۔ اسوۂ حسنہ سے معاشرے میں رہنمائی کب ہوگی؟ دو باتیں اس میں میرے خیال میں بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہیں:
1. ایک تو یہ کہ معاشرہ ہے …. اور
2. ایک یہ کہ معاشرے کو روشنی دکھانے والا کوئی ہو….

پہلے تو یہ بات سمجھنے کی ہے کہ:
معاشرے کی تشکیل کب ہوئی؟
یہ معاشرہ بنا کب؟

معاشرے کی بنیاد کو اگر دیکھاجائے تو․․․․․ ہمیں معاشرے کی بنیاد کا علم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السّلام کو تخلیق کیا اور اس لئے تخلیق کیا کہ، زمین میں ایک معاشرہ قائم کر کے، اس معاشرے کو چلانے کیلئے، انتظامی امور قائم کرنے کیلئے، مقصدِ حیات کا تَعیّن کرنے کیلئے، کوئی ہستی پیدا ہو․․․․․ تو ․․․․․ اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کو پیدا کیا اور علم الأسماء سکھایا۔
فرشتوں نے کہا کہ صاحب یہ تو بہت خون خرابا کرے گا۔ فساد برپا کرے گا۔ اللہ نے ان کو کہا کہ بھےء جو ہم جانتے ہیں وہ تم نہیں جانتے۔ پھر آدم ؑ کو عمل الأسماء سکھایا اور سکھا کر آدمؑ سے فرمایا کہ ہم نے جو علم تمہیں سکھادیا ہے اسے فرشتوں کے سامنے بیان کرو۔ فرشتوں کے سامنے جب آدم ؑ نے ان علوم کو بیان کیا تو فرشتوں نے اس بات کا اعتراف کیا۔
قَالُوا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ (سورۃ البقرۃ – 32)
کہ باری تعالیٰ ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا آپ نے ہمیں علم سکا دیا۔
مسجودِ ملائکہ کے بعد دوسرا حصہ یہ بنا کہ:
وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ …. (سورۃ البقرۃ – 35)
اے آدم تو اور تیری بیوی جنّت میں رہو….
لیکن ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے دو شرطیں رکھ دیں:
1. جنّت میں رہنے کی ایک شرط تو یہ ہے کہ تم نے وہاں خوش ہو کر رہنا ہے…. اور
2. دوسری شرط یہ ہے کہ…. یعنی تم نے اس درخت کے قریب نہیں جانا۔
آدم علیہ السّلام جنّت میں رہتے رہے۔ کتنے سال رہے…. کتنے قرَن رہے…. کتنی صدیاں وہاں گذاریں․․․․ اس کے بارے میں ہمیں کچھ پتہ نہیں…. لیکن وہاں وہ رہتے رہے۔
آپ کو پتہ ہے کہ شیطان نے سجدہ نہیں کیا تھا۔ شیطان نے آدم علیہ السّلام اور اماں حوّا کو بہکا دیا اور نتیجے میں انہیں جنّت سے باہر نکلنا پڑا۔

پہلی صورت اس کی یہ ہوئی کہ جنّت میں جب آدم ؑ ․․․․․ اس درخت کے قریب گئے ․․․․․ شیطان کے بہکانے سے تو انہوں نے اپنے آپ کو ننگا محسوس کیا․․․․․ بغیر کپڑوں کے محسوس کیا․․․․․ ستر پوشی کی ضرورت پیش آئی۔
ایک بات میں عرض کروں کہ میں جو کچھ عرض کر رہا ہوں اس کو یاد رکھئیے گا۔ اس لئے کہ یہ پھر ایک دوسرے کے، ایک دوسرے سے ایسے ڈانڈے ملیں گے جیسے چٹائی بُنتی ہے ناں ایسے بُنائی ہوگی…. تو
• پہلی بات تو یہ کہ آدم ؑ سے غلطی ہوئی۔ وہ غلطی سہوا ہوئی تو آدم ؑ نے خود کو عریاں محسوس کیا اور ستر پوشی کی ضرورت پیش آئی اور کیلے کے پتے جو ہیں ان کا لباس بنا۔
• دوسری بات یہ ہوئی کہ آدم ؑ کو حکم دیا گیا کہ اب تم جنّت سے نکل جاؤ۔
قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا – سورۃ البقرۃ – 38
اب تم سب کے سب اتر جاؤ…. اب تم جنّت میں نہیں رہ سکتے۔
• آدم ؑ حسرت و یاس سے، روتے دھوتے، پریشان حال، اس دنیا میں آگئے۔ یہاں کھانے پینے کی پریشانی لاحق ہوئی۔ جنّت میں تو یہ تھا کہ جس چیز کو دل چاہا وہ مَوجود ہوگئی․․․․․ اچھا وہاں کوئی ٹائم اسپیس کا بھی مسئلہ نہیں تھا۔ قرآن کہتا ہے:
رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا (البقرۃ – 35)
آسمانی اسپیس کی پابندی کے بغیر․․․․․ جنّت میں سے جہاں سے دل چاہے کھاؤ…. یعنی اسپیس ہی نہیں ہے۔ جہاں سے دل چاہے ․․․․․․․․․ اب جنّت کوئی ایک ہزار، دو ہزار میل کا رقبہ تھوڑی ہوگا۔ وہ تو لاکھوں کروڑوں میل کا رقبہ ہوگا۔ اس کی تو ہمارے پاس کوئی(Figure) بھی نہیں ہوگی۔
جب آدم ؑ جنّت سے زمین پر آئے تو سب سے پہلے یہ مجبوری لاحق ہوئی کہ اسپیس کی پابندی انہوں نے محسوس کی۔ دوسری ․․․․․․ صورت کھانے پینے کی محتاجی ہوگئی۔ اب بھوک لگی۔ بھوک میں راہنمائی کی اللہ نے تو انہوں نے جڑیں کھانی شروع کردیں۔ پتے کھانے شروع کردئیے، پھل کھانے شروع کردئیے۔
اماں حوّا اور ابّا آدم دونوں ․․․․․ ایک عجیب پریشانی کے حال میں اس دنیا میں رہتے رہے۔
• پھر ان کی اولاد کا سلسلہ شروع ہوا۔ دو سے چار ہوئے، چار سے آٹھ ہوئے آٹھ سے سولہ ہوئے اور اضافہ ہوتا رہا۔ ہابیل قابیل بھی پیدا ہوئے پھر ان کی اولادیں بھی پیدا ہوئیں۔
• جیسے جیسے حضرت آدم ؑ کی اولاد میں اضافہ ہوا تو اولاد کیلئے گھر کی ضرورت پیش آئی۔ اولاد کیلئے محنت مزدوری کی بھی ضرورت پیش آئی۔ تو پھر ․․․․․ قانون وضع ہوا۔ “کہ رہن سہن کس طرح ہوا؟”
• یہ معاشرے کی پہلی بنیاد پڑی۔ یعنی معاشرے کی ابتداء کرنے والی ہستی حضرت آدم ؑ پیغمرن ہیں۔ اور اس کے بعد یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔
• ارتقاء عمل میں آیا۔ پھلوں اور پتوں سے نکل کر کاشت کی طرف رجحان پیدا ہوا۔
• حضرت جبرائیل علیہ السّلام تشریف لائے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں جنّت میں تمہیں حاصل تھیں، ان نعمتوں کی نقل تو تمہیں یہاں ملے گی۔ جیسے انگور وہاں تھا یہاں بھی ملے گا۔ کیلا وہاں تھا کیلا یہاں بھی ہوگا۔ لیکن․․․․․․ وہاں یعنی جنّت میں ارادے کے ساتھ انگور پلیٹ میں رکھ کر آپ کے سامنے آجاتے تھے یہاں ارادے سے کام نہیں چلے گا…. یہاں پہلے زمین میں انگور کی بیل کاشت کرنی ہوگی․․․․․ انتظار کرنا ہوگا․․․․․ اس کی خدمت کرنی ہوگی․․․․․ پھر انگور لگے گا․․․․․․ پھر کھالو۔ گندم آپ کو بونی ہوگی۔
• بولے ! بھائی کس طرح گندم بوئیں؟․․․․․ کیا کریں گندم؟ تو حضرت جبرائیل علیہ السّلام نے حضرت آدم علیہ السّلام کو ساتھ لیا اور کھیت بنایا۔ پیچھے پیچھے حضرت آدم ؑ تھے آگے آگے حضرت جبرائیل ؑ تھے۔ سَو قدم اِدھر…. سَو قدم اُدھر ایک کھیت بنایا۔
• جب کھیت بن گیا تو آدم ؑ نے دو قدم آگے بڑھ کے یہ کہا کہ یہاں حد بنا دو۔ جب دو قدم حضرت آدم ؑ آگے بڑھے تو حضرت جبرائیل ؑ نے افسوس کا اظہار کیا اور یہ کہا ․․․․․․ کہ آپ نے اپنی اولاد میں لالچ کا بیج بو دیا ہے نا دانستہ طور پر۔ آپ نے یہ نہیں سوچا کہ اس زمین میں تو آپ کے علاوہ کوئی ہے ہی نہیں۔ ساری زمین ہی اپنی ہے۔ بہرحال ․․․․․ وہ کھیتی باڑی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
• اب مسئلہ یہ ہوا کہ کتنے کھیت ہوں، پانی کہاں سے آئے، نہر کس طرح سے بنے کہ یہ ایک دوسرے کی کھیتی میں، ایک دوسرے کا تصرف نہ ہو، دوسرے کا حق نہ مارا جائے۔ آہستہ آہستہ یہ قوانین بن گئے۔
• اللہ تعالیٰ نے بھی نوعِ انسانی کے معاشرے کیلئے شریعت کی شکل میں قوانین عطا کر دئیے…. کہ:
 کوئی کسی کا مال ناحق نہیں کھائے گا
 کوئی کسی کی چوری نہیں کرے گا
 کوئی کسی کے حق پر غاصبانہ قبضہ نہیں کرے گا
 آپس میں ایک دوسرے کو قتل نہیں کرے گا، وغیرہ وغیرہ ․․․․․

یہ معاشرے کی تشکیل شروع ہوگئی۔

• پھر حضرت آدم ؑ کے بعد مسلسل ․․․․․ نوعِ انسانی میں سے پیغمبر مبعوث ہوتے رہے۔ اور ان پیغمبروں نے بھی اصلاحِ معاشرہ کیلئے قوانین وضع کئے۔ جب ان قوانین میں ․․․․․ کوئی سقم پیدا ہوگیا، کوئی خرابی پیدا ہوگئی، لوگوں نے مصلحتیں شامل کردیں تو نئے پیغمبر آئے اور انہوں نے اس میں جو نقص واقع ہو گیا تا، اس دور کیا۔ یہ بتاتے ہیں کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس معاشرے کی تشکیل میں مصروف رہے۔

بالآخر سیدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام تشریف لے آئے۔

لیکن ساتھ ساتھ یہ بات بھی آپ ذہن میں رکھیئے گا کہ جتنے بھی پیغمبران علیہم السلام تشریف لائے…. سب نے رسول اللہ ﷺ کے آنے کی پیش گوئی کی۔ کہ ایک نجات دھندہ آئے گا…. ایک نجات دھندہ آئے گا….

جس وقت حضور پاک ﷺ تشریف لائے، اس وقت یہودی شریعت اور عیسائی شریعت نافذ تھی اور اس میں بہت ساری برائیاں داخل ہوگئیں تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سارے قواعد و ضوابط کو دیکھتے ہوئے اس میں اصلاح فرمائی اور اللہ کے حکم سے ہمیں ایک نظام دیا کہ ․․․․․
“ہمیں کس طرح رہنا ہے، کس طرح زندگی گزارنی ہے، اس کا نام شریعت ہوگا”
لیکن․․․․․ ساتھ ساتھ پیغمبروں کی تعلیمات میں ہمیں یہ بات بھی نظر آتی ہے کہ ہم پیغمبر ؑ نے دو دنیاؤں کا تزکرہ کیا۔ ایک دنیا کا ․․․․․ مو جودہ دنیا کا اور ایک آخرت کا۔
کہ جو کچھ تم اس دنیا میں کرو گے، ان اعمال کے نتیجے میں تمہیں جزا ملے گی اور ان اعمال ہی کی وجہ سے تم سزا کے بھی مستحق ٹھہرائے جاؤ گے․․․․․
ساتھ ساتھ ․․․․․ ہر پیغمبر ؑ نے موت و حیات کا تذکرہ کیا۔ کہ….
اللہ وہ ذاتِ اقدس ہے جو موت سے زندگی نکالتا اور زندگی کو موت میں داخل کردیتا ہے (سورۃ الرّوم – 19)
یعنی یہ بتایا گیا کہ یہ واحد دنیا نہیں ہے جو تم یہاں آگئے اور وہاں ختم ہوگئے۔ ابھی ․․․․․ سفر جاری ہے۔ دنیا ایک مسافرخانہ ہے اور اس مسافر خانہ میں رہنے کے کچھ قواعد و ضوابط ہیں۔ ان قواعد و ضوابط پر عمل ہوگا تو تمہاری یہ دنیا بھی صحیح رہے گی اور تمہیں ․․․․․ آخرت میں بھی اس کی جزا ملے گی اور تمہاری آخرت کی زندگی بھی صحیح ہوجائے گی۔
ساتھ ساتھ ․․․․․ تمام پیغمبران علیہم السّلام نے یہ درس دیا کہ ․․․․․
• انسان ایک نہیں …. دو ہیں….
• انسان کسی ایک رخ کا نام نہیں ہے…. انسان دو رخوں کا نام ہے….
• انسانی زندگی کا ایک رُخ جسمانی وُجود ہے…. اور انسانی زندگی کا دوسرا رُخ روح ہے….
• روح جب تک اس جسم کو اپنے لئے سنبھال کر رکھتی ہے، جسم میں حرکت رہتی ہے۔ اور رُوح جب․․․․․ اس زندگی سے رشتہ توڑ لیتی ہے توجسمانی وُجود مٹّی بن جاتا ہے ․․․․․ خاک کے ذرّات میں تبدیل ہوجاتا ہے ․․․․․ کوئی حیثیت اس کی ․․․․․ باقی نہیں رہتی….

اللہ تعالیٰ نے ․․․․․ قرآن پاک میں جنّت کی زندگی اور دنیا کی زندگی کو بھی بیان کیا ہے۔ جنّت میں لوگ خوش رہیں گے، پر سکون رہیں گے۔ جنّت میں لوگوں کو․․․․․ کوئی غم پریشانی نہیں ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ، “جب کوئی انسان بھی غم اور پریشانی میں مبتلا ہوگا․․․․ تو جتّک سے اس کا رشتہ ․․․․․ ٹوٹ جائے گا۔”
وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ (سورۃ الأعراف – 19)
اور جہاں سے دل چاہے خوش ہو کر کھاؤ، اور اس درخت کے قریب مت جانا ورنہ تم ظالمین میں سے ہو جاؤ گے۔”
تو، ظلم کرنے والا آدمی کبھی خوش نہیں رہ سکتا۔

قرآن نے ․․․․․ رسول اللہ ﷺ کی زبانی ہمیں ․․․․․ انسانی شخصیت کے ․․․․․ دو روپ․․․․․ دو رخ سے متعارف کرایا۔ ایک رخ․․․․․ رُوح ہے اور ․․․․․ ایک رخ ․․․․․مادی جسم۔
جسم کب حرکت کرتا ہے ؟․․․․․ جب رُوح ․․․․․ حرکت کرتی ہے۔
اگرروح جسم کو چھوڑ دے ․․․․․ تو جسم حرکت کرسکتا ہے ؟
اگر کسی ماں کے اَندر سے ․․․․․ رُوح نکل جائے ․․․․․ تو وہ بچہ پیدا کر سکتی ہے ؟
اگر کسی مرد کے اَندر سے ․․․․․ رُوح نکل جائے ․․․․․تو کیا وہ شادی کر سکتا ہے ؟
اگر کسی تندرست پہلوان کے اَندر سے ․․․․․ رُوح نکل جائے ․․․․․تو وہ کشتی لڑسکتا ہے ؟
اگر کسی ٹیچر کے اَندر سے رُوح نکل جائے ․․․․ تو ہو ․․․․․ طلباء کو پڑھا سکتا ہے؟
اگر کسی سائینٹسٹ کے اَندر سے ․․․․․روح نکل جائے ․․․․․تو وہ ایٹم بم بناسکتا ہے ؟ میزائل بنا سکتا ہے ؟
اگر کسی مملکت کے صدر کی ․․․․․ رُوح نکل جائے ․․․․․ تو وہ ملک سنبھال سکتا ہے ؟
اگر کسی فوجی کے اَندر سے ․․․․․روح نکل جائے ․․․․․تو وہ بندوق چلا سکتا ہے ؟
اگر کسی بھوکے آدمی کے اَندر سے ․․․․․روح نکل جائے ․․․․․تو وہ روٹی کھا سکتا ہے ؟
ایک پیاسا آدمی مرگیا․․․․․ رُوح نکل گئی ․․․․ آپ اس کے حلق کے اَندر ․․․․․ کسی بھی صورت سے ․․․․․ پانی کے دس قطرے انڈیل سکتے ہیں؟ آپ کسی مُردہ آدمی کے منہ میں پانی ڈالئے ․․․․․ پانی باہر نکل جائے گا۔
کسی مُردہ آدمی کو چلتے پھرتے ․․․․․ دیکھا ہے کبھی ؟
تو کیا مطلب ہُوا اِس کا؟
یہ جو پیغمبران علیہم السّلام نے جسمانی دو رخ متعارف کروائے ہیں․․․․․ بھئی ․․․․․ ان دو رخوں میں ․․․․․ اصلی رخ کون سا ہے ؟
اصلی رخ ․․․․․ رُوح ہے ؟
اگر اصلی رخ رُوح ہے…. تو پھر ․․․․․ جسم کیا ہوا؟

حضور قلندر بابا اولیاء ؒ نے، اپنی کتاب، “لوح و قلم”میں اس کی مثال اس طرح بیان فرمائی ہے کہ تم جسم پر ایک لباس پہنتے ہو، قمیض شلوار، کوٹ پتلون، کوئی بھی ․․․․․ اس کا نام رکھ لیں۔ اگر آپ اس جسم کو ہلائیں گے تو․․․․․ لباس ہلے گا۔ لیکن اگر اس جسم کے اوپر سے ․․․․․ لباس اتار کر ․․․․․ آپ کھونٹی پر لٹکادیں، چارپائی پر لٹا دیں، فرش پر رکھ دیں․․․․․ اس میں حرکت ہوگی؟․․․․․ کیوں نہیں ہوگی حرکت ؟․․․․․
حرکت اسلئے نہیں ہوگی کہ اس لباس کی حرکت ․․․․․ تابع ہے ․․․․․ جسم کے۔
جب رُوح جسم کو چھوڑ دیتی ہے تو اس جسم کی حیثیت ․․․․․ ایک لباس کی ہوجاتی ہے۔ جب تک رُوح جسم کے اَندر ہے۔ اور جب تک جسم کے اوپر لباس ہے ․․․․․ اس میں حرکت ہے۔ اس جسم کے اوپر لباس میں…. جب میں ہاتھ ڈال کر ہاتھ ہلاؤں گا تو․․․․․ آستین بھی ہلے گی…. تو․․․․․ جتنے بھی مذاہب آئے، جتنے بھی صحیفے نازل ہوئے، جتنی بھی آسمانی کتابیں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائیں اور آخری کتاب قرآن کریم میں، انسانی زندگی کا جو مقصد بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ․․․․․ انسان کو اس لئے تخلیق کیا گیا ہے ․․․․․ اس کا مقصد یہ ہے کہ ․․․․․
“وہ اللہ کو ․․․․․ اور ․․․․․ اپنے خالق کو ․․․․․ پہچان لے۔
آپ کب پہچانیں گے ؟․․․․․ مطلب یہ کہ میں آپ کو پہچانوں ․․․․․اور ․․․․․ آپ مجھے پہچان لیں
میرے اَندر سے رُوح نکل گئی ․․․․․ تو میں ․․․․․ آپ کو پہچانوں گا؟․․․․․ کیوں بھئی ؟․․․․ غور کرو ذرا؟․․․․
اب میں بیٹھا ہوا ہوں، اگر ․․․․․ میرے اَندر سے رُوح نکل جائے ․․․․․ اگر مُردہ ہوجاؤں ․․․․․ آپ کو ․․․․․ پہچان لوں گا․․․․․․؟
تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پہچاننے کا وصف ․․․․․ جسم انسانی کا نہیں ہے۔ پہچاننے کا وصف جو ہے ․․․․․ وہ ․․․․․ رُوح کا ہے۔ اور رُوح کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماچکے ہیں….
(سورۃ الأعراف – 172)
أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ
میں تمہارا ربّ ہوں”
اب، رُوحوں نے کہا:
قَالُوا بَلَىٰ
جی ہاں ! آپ ہمارے ربّ ہیں
اِس کا کیا مطلب ہوا․․․․․؟
اس کا صرف مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے کہا:
أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ
تو․․․․․ رُوحوں نے اللہ کو دیکھا ․․․․․ اللہ کو پہچانا ․․․․․ اور اللہ کی ربوبیت کا اقرار کیا۔
یہاں بھی وہی صورتحال ہے۔ پھر آپ آجائیے․․․․․
پہچاننا کب ممکن ہے ؟…. کب ممکن ہے بھئی․․․․․؟
ہاں !
جب رُوح اَندر ہو….
پڑھنا کب ممکن ہے ؟․․․․․
جب رُوح اَندر ہو۔
پڑھانا کب ممکن ہے ؟ ․․․․․
جب رُوح اَندر ہو….
شامی صاحب ! اخبار نکالنا کب ممکن ہے ؟
شامی صاحب نے جواب دیا…. جب پیسے ہوں….
بھئی ایک مُردہ آدمی ہے، اس نے پیشے کا کیا کرنا ہے بھئی….
بھئی! پیسہ بھی جب کام آتا ہے، جب ․․․․․ رُوح اَندر مَوجود ہو….
ایک آدمی کی ڈیڈ باڈی یہاں پر پڑی ہوئی ہے، اس پر لاکھ روپیہ رکھ دیں ․․․․․ سینے پر ․․․․․․ اس کے کس کام کا ؟
تو طے یہ ہوا کہ انسان کا جومقصدِ حیات ہے، وہ یہ ہے کہ…. وہ اللہ کو پہچانے…. اور اللہ کو پہچاننا اس وقت ممکن ہے جب انسان اپنی اصل یعنی رُوح سے واقف ہو۔

اب ایک معاشرہ ہے۔ اس میں ہزار آدمی ہیں۔ ہزار آدمی مرجائیں تو․․․․․ وہاں کیا معاشرہ ہوگا؟
بھئی کیا ہوگا وہاں؟․․․․․
کوئی دکان کھلے گی؟․․․․․
بھئی سارے مردے پڑے ہوئے ہیں…. خریدار ہے ہی نہیں کوئی۔
دکان کھلے گی ؟
بازار بنیں گے ؟

اولیاء اللہ کی تعلیمات اور انبیائے کرام علیہم السّلام کی تعلیمات یہ ہیں کہ انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (سورۃ الذّاریات – 56)
یعنی اسلئے پیدا کیا ہے کہ وہ اللہ کو پہچانے…. اپنے خالق کو پہچانے…. اور خالق کو پہچاننا اس وقت ممکن ہے جب آدمی اپنی اصل یعنی رُوح کو پہچانے۔
جتنے بھی پیغمبر ؑ تشریف لائے، سب کی تعلیمات کا نچوڑ حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کا اسوۂ حسنہ ہے۔

اُسوۂِ حسَنہ کیا ہے ؟
اُسوہ ِٔ حسَنہ کی تعریف کیا ہے ؟
اسوۂِ حسَنہ کی تعریف یہ ہے کہ:
رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں کوئی لمحہ ایسا نہیں تھا کہ جو اللہ سے وابستہ نہ ہو….
حضور پاک ﷺ ہر چیز کو …. Care of Allah…. اللہ کی معرفت…. سمجھتے تھے….
حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام نے فرمایا:
قُلْ إِنَّ صَلَاتِى وَنُسُكِى وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِى لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ (الأنعام – 162)
جس کا مفہوم یہ ہے کہ:
“میرا جینا، میرا مرنا، میرا سونا، میرا جاگنا، میرا اٹھنا، میرا بیٹھنا، میرا کھانا، میرا پینا اور میرا لڑنا، سب کچھ اللہ ہی کیلئے ہے۔”
اور قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا (سورۃ آلِ عمران – 7)
کہ جب علم حاصل ہوجاتا ہے ․․․․․ انسان کو ․․․․․ تو اس کے مشاہدے میں یہ بات آجاتی ہے کہ…. ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے ….

آپ سب کہتے ہیں کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ ․․․․․ بھئی سب کا یقین ہے اس بات پہ ناں؟
یقین ہے ناں کہ اللہ دیکھ رہا ہے…..
اگر دو بندے آپ کو دیکھ رہے ہوں تو آپ گناہ کریں گے ؟․․․․․ کیوں بھئی ․․․․․
چوری کریں گے اگر دو بندے آپ کو دیکھ رہے ہو؟
خاموش کیوں ہوگئے۔ کرو گے کہ نہیں ؟․․․․․
نہیں ․․․․․
کیوں نہیں کرو گے ؟․․․․․
کیونکہ ․․․․․ دو آدمی آپ کو دیکھ رہے ہیں یا ایک آدمی دیکھ رہا ہے…..
اور اللہ دیکھ رہا ہے ․․․․․ آپ سب کچھ کر رہے ہیں….
یہ جو ہے…. اس سے بڑا سفید جھوٹ ہوسکتا ہے کوئی کہ اللہ دیکھ رہا ہے اور ہم قتل کر رہے ہیں․․․․․
اللہ دیکھ رہا ہے اور ہم چیزوں میں ملاوٹ کر رہے ہیں․․․․․
اللہ دیکھ رہا ہے اور ہم سمگلنگ کر رہے ہیں․․․․․
اللہ دیکھ رہا ہے اور ہم بھائی کے حق کو غصَب کر رہے ہیں․․․․․
تو اس کا مطلب کہ یہ کہنا کہ ․․․․․ اللہ دیکھ رہا ہے ․․․․․ زبان کا کہنا ہے، رُوح کا کہنا نہیں ہے….
رُوح سے جب کوئی آدمی واقف ہوجاتا ہے تو وہ ․․․․․ یہ دیکھتا ہے ․․․․․ کہ، اللہ مجھے دیکھ رہا ہے…. اور
جب تک وہ رُوح سے واقف نہیں ہوتا ․․․․․ وہ صرف زبان سے کہتا ہے ․․․․․ کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔

جب انسان، جسمانی وُجود میں ہوتا ہے ․․․․․دنیاوی علوم میں گھرا ہُوا ہوتا ہے…. اِقرار باللّسان ہوتا ہے…. خالی زبان سے بات کرتا ہے ․․․․․ اور جب کوئی انسان ․․․․․ اپنی رُوح سے واقف ہو جاتا ہے تو ․․․․․تصدیق بالقلب ہوجاتا ہے…. اِقرار باللّسان …. و ….تصدیق بالقلب….

اُسوۂِ حسَنہ سے اُسی وقت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جب ․․․․․ رسولﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں اور تمام انبیاءِ کرامؑ علیہم السّلام کی تعلیمات کی روشنی میں آپ کو اپنی نقل کا ․․․․․ اور اپنی اصل کا امتیاز ہو….
کام سارے کررہی ہے اور ہم کہہ رہے ہیں کہ ہم جسمانی کام کر رہے ہیں۔ یہ تو بھئی․․․․․․ ساراILUSSION ہوگیا ․․․․․ دھوکا ہے ․․․․․ فریب ہے….
اُسوۂِ حسَنہ یا اُسوۂِ محمدی ﷺ سے…. اُس وقت مسلمان قوم فائدہ اٹھاسکتی ہے جب وہ ․․․․․ اِس بات کی تمیز کرے گی کہ…. رُوح کیا ہے ؟ اور ․․․․․ جسم کیا ہے ؟
جسم محض خاک ہے، مٹّی ہے اور․․․․․ اصل انسان جو ہے ․․․․․ اس کی رُوح ہے۔ یہ مثالیں میں نے آپ کے سامنے پیش کیں۔

بلاشبہ یہ ساری دنیا ایک بہت بڑا کمرۂِ امتحان ہے ․․․․․ مسافر خانہ ہے۔ جب تک کوئی انسان اپنی رُوح سے واقف نہیں ہوگا․․․․․ اس کو کچھ پتہ نہیں کہ کیا کچھ ہے یہاں۔
اور آپ کہتے ہیں….
روح کس طرح اللہ کو دیکھے ؟
کس طرح اللہ سے ملے ؟
جب اللہ نے خود فرمایا:
أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ
ترجمہ : کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں ․․․․
تو رُوحوں نے جواب دیا:
قَالُوا بَلَىٰ
ترجمہ : جی ہاں ! آپ ہمارے ربّ ہیں
یعنی اللہ تعالیٰ نے خود فرمادیا ہے کہ…. مجھے رُوحوں نے دیکھا ․․․․․ اقرار کیا ․․․․․

اولیاءِ کرام کی تعلیمات ․․․․․ انبیائے کرامؑ کی تعلیمات ہیں۔ اولیاء اللہ ․․․․․ وارثِ انبیاءؑ ہیں۔
اولیاء اللہ کی طرزِ فکر ․․․․․ نبیوں کی طرزِ فکر ہوتی ہے ․․․․
اولیاء اللہ کی طرزِ زندگی ․․․․ رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے ․․․․․
اگر تابع نہ ہو تو اس کو ولی نہیں کہتے ․․․․․ وہ ولی نہیں ہے۔
سیرت طیبہ ﷺ کا مطالعہ کرو…. اگر سیرتِ طیبہ کے مطابق ․․․․․ کسی درویش کی زندگی ہے تو آپ اسے ولی کہہ سکتے ہیں…. ورنہ ․․․․․ نہیں کہہ سکتے۔
اور، نبی مکرم حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کی زندگی کیا ہے ؟…..
Care of Allah سوچنا….
یعنی ہر چیز اللہ کی معرفت سے ہے ․․․․․
يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا (سورۃ آلِ عمران – 7)
ہر شے ․․․․․ اچھائی، برائی ․․․․․ بیماری، صحت ․․․․․ سب اللہ کی طرف سے ہے۔

پھر اب آپ کہیں گے کہ جب برائی اللہ کی طرف سے ہے تو گناہ کیسا ؟
گناہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی رُوح میں یہ وصف ڈال دیا ہے ․․․․․ کہ اس کو اچھائی اور برائی کی تمیز عطا کردی ہے۔
اچھائی، برائی سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ․․․․․ کیا شیطان کو اللہ نے پیدا نہیں کیا ․․․․․؟
کیا شداد، فرعون، نمرود کو اللہ نے پیدا نہیں کیا․․․․․؟
ان کا خالق کوئی اور ہے ․․․․․؟
سب کو اللہ نے پیدا کیا ․․․․․ لیکن اللہ نے دورخ اس لئے متعیّن کئے ․․․․․تاکہ ․․․․․ انسان کا اختیار زیرِ بحث آسےک…. انسان اچھائی کو اختیار کرے ․․․․․ اور …. برائی کو ترک کردے….
انبیاء ؑ کی تعلیمات پر اگر آپ غور فرمائیں گے تو اس میں ․․․․․ بنیادی بات آپ کو یہ ملے گی کہ انبیاء کرامؑ نے اچھائی اور برائی کا تصور پیش کیا ہے کہ ․․․․․
اچھے کام کرنے سے اللہ خوش ہوگا․․․․․ تمہیں جنّت میں لے جائے گا۔
برے کا کرنے سے اللہ ناخوش ہوگا ․․․․․ اور ․․․․․ جنّت سے محرومی مقدر بن جائے گی۔
تو اگر برائی نہ ہو تو ․․․․․ اچھائی اور برائی میں ․․․․․ امتیاز کیسے ہوگا؟
اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ انسان اپنی بھلائی کیلئے وہ راستہ اختیار کرے….
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيم
والا راستہ اختیار کریں جو ․․․․․ انبیاءِ کرامؑ نے راستہ اختیار کیا ہے….
انسان وہ زندگی گزارے جو نبی مکرّم علیہ الصّلوٰۃ و السّلام نے زندگی گزاری….
اگر ․․․․․ نبی مکرّم ﷺ کی زندگی میں عفو و درگزر ہے…. تو انسان کے اَندر بھی عفو در گزر ہونا چاہئے….
اگر انسان کے اَندر…. مسلمان کے اَندر عفودر گزر نہیں ہے تو وہ ․․․․․ حضور ﷺ کا امتی کہلانے کا مستحق کس طرح ہو سکتا ہے….!!!

• اسوۂ حسنہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی طرزِ فکر آپ کو حاصل ہو….

اب رسول اللہ ﷺ کی طرزِ فکر کے بارے میں دو باتیں ہمارے سامنے ہیں:
ایک طرزِ فکر ․․․․․ رسول اللہ ﷺ کی نبوت سے پہلے کی زندگی کی ہے…. لیکن ․․․․․ نبوت سے پہلے کی رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں بھی کہیں آپ کو ․․․․․ جھوٹ نہیں ملے گا…. کہیں کھوٹ نہیں ملے گا۔
نبوت کے بعد کی زندگی بھی یہی زندگی ہے۔ آپ دیکھیں ․․․․․ کہ قریشِ مکہ نے جب کہا کہ آپ ﷺ ہمارے دین کو برا نہ کہو۔ اگر تو پیسہ چاہتے ہو تو لو ․․․․․ یہ پیسہ لے لو۔ بادشاہ بننا چاہتے ہو تو ہم تمہیں بادشاہ بنا دیں گے۔ کہیں شادی کرنا چاہتے ہو․․․․․ تو شادی کر دیں گے۔
تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ نہیں ․․․․․․ میرے ذمے اللہ کا پیغام ہے کہ اللہ وحدہٗ لا شریک ہے ․․․․․ اس کے بغیر ․․․․․ پر ستش نہیں کی جا سکتی۔ میرے ایک ہاتھ پہ چاند اور ایک ہاتھ پہ سورج رکھ دو…. میرا ایک ہی پیغام ہے:
اللہ وحدہٗ لاشریک ہے۔ اس کے بغیر کسی کی پر ستش نہیں ہو سکتی….
حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام اس پر قائم رہے۔

قرآن کریم کی جتنی بھی آیتیں معاشرے کے متعلق ہیں․․․․․ جب آپ ․․․․․ ان کو پڑھیں گے تو وہ ․․․․․ بڑی آسانی سے ․․․․․ حضور ﷺ کی زندگی میں ․․․․․ آپ کو ․․․․․ نظر آجائیں گی۔
لیکن ․․․․․ پہلے یہ طے کرنا ہے کہ ․․․․․ اسوۂ حسنہ کیا ہے ؟
پھر․․․․․ اس اسوۂ حسنہ کو معاشرے میں رائج کرانا ہے۔

اسوۂ حسنہ یہ ہے کہ، اللہ کے ساتھ براہ راست ایک ربط، تعلق قائم ہونا چاہئے…. آپ کے ذہن میں یقین ہونا چاہئے کہ اللہ دیکھ رہا ہے…. یہ علم ہونا چاہئے کہ جہاں آپ چار ہیں وہاں پانچواں اللہ ہے….. جہاں تم ایک ہو وہاں دوسرا اللہ ہے…. آپ کے یقین میں یہ بات راسخ ہونی چاہئے کہ اللہ آپ کی رگِ جاں سے زیادہ قریب ہے…. جو آپ کرتے ہیں․․․․․ وہ اللہ جانتا ہے…. جو آپ چھپاتے ہیں․․․․․ وہ اللہ دیکھتا ہے…. یہ سب قرآن ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ (سورۃ الذاریات – 21)
میں تمہارے اَندر ہوں․․․․․ تم مجھے دیکھتے کیوں نہیں ہو؟
جو چیز اَندر ہے، اسے آپ باہر ڈھونڈیں گے ․․․․․ وہ آپ کو کیسے ملے گی۔ آپ کے پاس ایک بہت قیمتی گھڑی ہے۔ آپ اسے کمرے میں صدںوق کے اَندر بند کردیں۔ آپ سارے محلے میں ڈھونڈتے پھریں ․․․․․ گھڑی ملے گی آپ کو ؟․․․․․
کیوں نہیں ملے گی؟
جس جگہ گھڑی مَوجود ہے…. وہ آپ وہاں تلاش نہیں کر رہے ہیں۔
اللہ کہاں ہے ؟
وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ (سورۃ الذاریات – 21)
میں تمہارے اَندر ہوں․․․․․ تم مجھے دیکھتے کیوں نہیں ہو۔
مجھے دیکھو میں تمہارے اَندر ہوں۔ مجھے دیکھو میں تمہاری رگِ جاں سے زیادہ قریب ہو۔
أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيطٌ (سورۃ فصّلت – 54)
اللہ نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے۔
اللہ سب کچھ جانتا ہے…. علیم ہے…. خیبر ہے…. قدیر ہے…. قادرِ مطلق ہے…. جس کو چاہے پیدا کر دے ․․․․․ جس کو چاہے ماردے…. جسے چاہے بادشاہ کردے…. جس کو چاہے فقیر کر دے….
وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاء …. (سورۃ آلِ عمران – 26)
یہ اسوۂ حسنہ ہے….

رسولِ کریم ﷺ بدر میں تشریف لے گئے۔ تین سو تیرہ بندے ساتھ تھے۔ ہتھیار بھی نہیں تھے۔ ٹوٹی پھوٹی تلواریں تھیں اور گھوڑے بھی دو تھے۔ وہاں جاکے دعا کی:
اے اللہ جو میں لا سکتا تھا لے آیا ہوں ․․․․․ اب مجھے تیری مدد کی ضرورت ہے….
ایک ہزار فرشتے نازل ہوگئے….

جب انسان اللہ سے واقف ہی نہیں ہے اور اللہ کو اس نے کروڑوں کروڑوں میل دُور بٹھا دیا ہے…. جیسے اب سورج کا فاصلہ نو کروڑ میل بتا یا جاتا ہے ․․․․ پتا نہیں کتنا ․․․․․ سائنسدان بتاتے ہیں نو کروڑ میل…. مثال کے طور پر سات آسمان…. نو نو کروڑ میل کے مان لیں․․․․․ عرش اور کرسی شامل کر کے یہ نو (۹) زون بنتے ہیں۔ تو اس حساب سے نعوذ باللہ، اللہ میاں اکیاسی کروڑ میل دور بیٹھے ہیں….!!!
اکیاسی کروڑ میل دور، آپ کی دعا کس طرح پہنچے گی….!!!
اکیاسی کروڑ میل تو شاید میری بھی نہیں پہنچ سکتی….
اندر ہے اللہ ․․․․․ اللہ اَندر ہے….
وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ (سورۃ الذاریات – 21)
اَندر جھانکو ․․․․
آپ کے اَندر کیا ہے ؟ ․․․․․
آپ کا Inner کیا ہے ؟
کس کو آپ Inner کہتے ہیں؟
…. Inner روح ہے….
آپ کی رُوح آپ کے اَندر ہے…. اور میری رُوح میرے اَندر ہے۔
رُوح کی نظر سے اللہ نظر آتا ہے….
جب تک رُوح کا چشمہ آنکھوں پر نہیں لگے گا۔ معاشرہ نہیں سدھرے گا….
خراب ہوگا…. اور خراب ہوگا…. اور خراب ہوگا….

قوموں کا عروج و زوال آپ کے سامنے ہیں۔ جن قوموں نے جب اللہ کو نظر انداز کر دیا…. پیغمبران علیہم السّلام کی باتوں پر دھیان نہیں دیا․․․․․ دیکھئے کیا حشر ہوا․․․․․ تباہ ہوگئیں ․․․․ برباد ہوگئیں۔ آج مسلمان قوم کی زبوں حالی آپ کے سامنے ہے ․․․․․ آپ کہتے ہیں کہ مسلمان قوم پر عذاب نہیں آئے گا۔ اس لئے نہیں آئے گا کہ رسول اللہ ﷺ رحمت للعالمین ہیں ․․․․․
بھئی ! حضور ﷺ کو رحمت للمسلمین تو اللہ نے کہیں بھی نہیں کہا ․․․․․
وہ تو ․․․․․ رحمت للعالَمین ﷺ ہیں۔

اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ، تفکر کرو۔ غور کرو۔ تلاش کرو۔ ہم نے نشانیاں بکھیردی ہیں۔ تو نشانیوں میں یہ وصف ہے کہ جب آپ ان نشانیوں میں غور و فکر کرو گے تو یہ نشانیاں بولیں گی ․․․․․کہ ہمار اَندر یہ وصف ہے۔
اس لئے کہ یہاں ہر چیز بولتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہر چیز اللہ کی تسبیح کرتی ہے۔

کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ایٹم کی جو تھیوری سامنے آئی اور ایٹم بن گیا۔ یہ کب آیا؟ ایٹم کب بنا؟ کس طرح بنا؟ دماغ میں خیال آیا کہ میرے اَندر اتنی انرجی ہے…. اتنی طاقت ہے کہ اگر کسی طرح مجھے آپ تسخیر کر لیں تو میں ایک منٹ میں لاکھوں جانیں ضائع کرسکتا ہوں….
خیال آنے کا کیا مطلب ہے ؟
اب میں آپ سے بولتا ہوں…. میں کس طرح بولتا ہوں؟
اگر میری آواز آپ کے کانوں میں جاکے آپ کے دماغ سے ٹکرائے اور اس کا مفہوم نہ دے تو آپ میری بات سمجھیں گے ؟
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ میری کوئی آواز سنتے ہیں․․․․․ تو میں آپ کے دماغ کے اَندر گھس کر بول رہا ہوں ․․․․․
خیالات کا ایک نظام ہے اللہ کا ․․․․․․ انتقالِ خیال ہے سب…. اور انتقال خیال کا مطلب ہے۔ ہر چیز بول رہی ہے۔ آدمی بھی بول رہا ہے۔ بکری بھی بول رہی ہے۔ ہاتھی بھی بول رہا ہے اور ․․․․جڑی بوٹیاں بھی بول رہی ہیں۔
وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ (سورۃ لقمان – 12)
لقمان کو جب حکمت دی گئی تو جڑی بوٹیاں بولتی تھیں کہ میرے اَندر یہ وصف ہے۔ میرے اَندر یہ وصف ہے ․․․․․ میرے اَندر یہ وصف ہے۔

آج جتنی سائنس کی ایجادات ہیں، جس چیز میں بھی ایجاد ہو رہی ہے۔ آپ یہ کہتے ہیں کہ سائنسدان کو خیال آیا۔ اس خیال کی اس نے پیروی کی۔ اس لئے وہ ایجاد ہوئی۔ آپ یہ کیوں نہیں کہتے، یہ جو چیز ایجاد ہونے والی ہے ․․․․․ وہ خود کہہ رہی ہے کہ میرے اَندر یہ خصوصیت ہے۔ اگرتم نے میرے اَندر تفکر کیا، غور کیا ․․․․․ تو میرا جب مظہر بنے گا تو میرے اَندر یہ صلاحیت ہوگی۔

ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کر رہی ہے….
ہر چیز بڑھ رہی ہے….
ہر چیز پیدا ہورہی ہے…. اور پیدا ہو کر بڑھ رہی ہے….
ہر چیز گھٹ رہی ہے….
ہر چیز مر رہی ہے….
ہر چیز جوان ہو رہی ہے….
کیا بھینس بوڑھی نہیں ہوتی ؟
انسان ہی بوڑھا ہوتاہے؟
کیا درخت بوڑھا نہیں ہوتا؟
کیا بکری بوڑھی نہیں ہوتی؟
ایک ہی نظام ہے ․․․․․ لیکن ․․․․․ اس نظام میں فعال رکن جو ہے وہ انسان ہے…. ہر چیز اس کے لئے مسخر ہے….
اور کیوں وہ فعال رکن ہے ؟
کیوں حاکم ہے؟
کیوں حکمران ہے ؟
کیوں ہر چیز اس کیلئے مسخر ہے ؟
وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ …. (سورۃ الجاثیۃ – 13)
کیوں مسخر ہیں؟ ․․․․
اسلئے مسخر ہیں کہ…. آدم ؑ کو اللہ تعالیٰ کا علم الأساسء سکھا دیا ہے….
جب انسان اِن عو.م کی طرف مُتوجّہ ہوتا ہے ․․․․․ تو اسے کیا کرنا ہوگا؟
کیا کرنا ہوگا بھئی؟ ․․․․․
ہاں رُوح سے واقف ہونا پڑے گا….
آدمؑ کو جب اللہ تعالیٰ نے علم الأسماء سکھائے ․․․․․ وہ ہمارا مادّی وُجود تھا یا رُوح تھی ؟․․․․․
رُوح تھی….
کیوں بھئی ؟ ․․․․․ ہاں ․․․․․ وہ رُوح ہی تھی….
جب آدم جنّت میں رہے تو وہاں ․․․․․ آدم ؑ کی رُوح تھی ․․․․․ یا جسمانی لباس تھا؟
ہاں رُوح ہی تھی…. بات اب پوری ہوگئی….

اُسوۂِ حسنہ رسول اللہ ﷺ یہ ہے کہ:
انسان اپنی اصل سے واقف ہو….
جب انسان اپنی اصل سے واقف ہوگا تو اس کا اللہ سے ایک ربط قائم ہوگا۔
ایک تعلق قائم ہوگا…. وہ اللہ کو دیکھے گا ․․․․․ اللہ کو جانے گا ․․․․․ اللہ کی آواز سنے گا․․․․․ اللہ سے عرض و معروضات پیش کرے گا․․․․․ معاشرہ خود بخود ٹھیک ہوجائے گا….
مختصر یہ ہے کہ اسوۂ حسنہ کی تعریف میری دانست میں یہ ہے کہ:
رسول اللہ ﷺ جو کچھ کرتے تھے ․․․․․ جو کچھ فرماتے تھے، وہ ․․․․․ اللہ کے چاہنے سے کرتے تھے اور ․․․․ اللہ کے چاہنے سے فرماتے تھے….
جب ہم رسول اللہ ﷺ کی زندگی کو اپنا لیں گے تو ․․․․․ ہماری بھی یہی حیثیت ہوگی کہ ہم اللہ کو چاہیں گے ․․․․․ اللہ کو دیکھیں گے ․․․․․ اور اللہ سے ہمارا رابطہ اور تعلق قائم ہوجائے گا….

آپ سب حضرات کا بہت بہت شکریہ…. اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو…. السّلام علیکم !

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 252 تا 272

خطباتِ لاہور کے مضامین :

0.01 - اِنتساب 0.02 - ترتیب و پیشکش 1 - شہرِِ لاہور 2 - لاہور کے اولیاء اللہ 3 - مرشدِ کریم کی لاہور میں پہلی آمد 4 - مراقبہ ھال مزنگ کے افتتاح پر خطاب 5 - محمد حسین میموریل ہال مزنگ میں عظیمی صاحب کا خطاب 6 - جامعہ عظیمیہؔ کاہنہ نَو کے افتتاح سے خطاب 7 - دوسری بین الاقوامی رُوحانی کانفرنس سے خطاب 8 - جامعہ مسجد عظیمیہؔ کے افتتاح سے خطاب 9 - سہہ ماہی میٹنگ سے خطاب 10 - قلندر شعور 11 - شعور اور لاشعور 12 - کُن فیکُون 13 - تقریبِ رُونمائی کتاب”مراقبہ”سے خطاب 14 - مراقبہ ہال برائے خواتین کے افتتاح پر خطاب 15 - کتاب “محمدؐ رسول اللّٰہ ﷺ”کی تقریب ِ رُونمائی سے خطاب 16 - روحانی سیمینار سے خطاب 17 - حضرت ابو الفیض قلندر علی سہر وردیؒ کے مزار پر حاضری 18 - لاہور بار ایسوسی ایشن سے خطاب 19 - کتاب “ہمارے بچے “کی تقریب ِ رُونمائی سے خطاب 20 - لاہور ہائیکورٹ بار سے خطاب 21 - اوریئنٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور میں خطاب 22 - محفلِ میلاد سے خطاب بمقام جامع عظیمیہ لاہور 23 - ایوانِ اقبال میں پہلی سیرت کانفرنس سے خطاب 24 - سیرتِ طَیّبہؐ پر اَیوانِ اِقبال میں خطاب 25 - اراکینِ سلسلۂِ عظیمیہ لاہور سے خطاب 26 - سیشن برائے رُوحانی سوال و جواب
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)