شعور اور لاشعور

مکمل کتاب : خطباتِ لاہور

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=17328

آج کی کلاس میں، میں آپ سے سوال پوچھتا ہوں بتائیں:
1. شعور، لا شعور کیوں نہیں ہے….؟ اور
2. لاشعور، شعور کیوں نہیں ہے؟
کچھ دیر بعدخود ہی فرمانے لگے کہ….
ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے اَندر(Information)یعنی اطلاع کو معنی پہنانے کی صلاحیت بالکل نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ زندگی کا دار و مدار اطلاعات یا (Information)پر ہے اور زندگی کسی بھی لمحے اطلاعات یا انفارمیشن کے علاوہ قائم نہیں رہتی ہے۔ جب ہم یہاں پیدا ہوتے ہیں تو سب سے پہلے بچے کے اَندر جو انفارمیشن منتقل ہوتی ہے اور وہ اس کو معنی پہناتا ہے…. وہ سونگھنے کی حِس ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کے اَندر یا زمین کے اوپر مَوجود جتنی بھی مخلوقات ہیں…. پہلی جو انفارمیشن ہے…. وہ سونگھنے کی حِس ہے…. اور اِسی سونگھنے کی حِس سے کوئی بچہ سب سے پہلے اپنی ماں کو پہچانتا ہے۔ سونگھنے کے بعد جو دوسری حِس بچے کے اَندر پیدا ہوتی ہے وہ مادّی جسم کو فِیڈ (Feed) کرنے کی صلاحیت ہے یعنی بچہ جسمانی نشونما کیلئے غذا حاصل کرنے کی طرف مُتوجّہ ہوتا ہے۔
مذہبی نقطۂ نظر سے انسان کے اَندر سب سے پہلی حِس جو متحرک ہوتی ہے وہ سننا ہے۔ سننا دراصل وہ پہلی انفارمیشن ہے جو بچے کے اَندر لا شعوری صلاحیت کو بیدار کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام مذاہب اس بات کی پابندی کرتے ہیں کہ جب بچہ پیدا ہوجائے تو اس کو آواز سنائی جائے۔ مثلاً کوئی گھنٹی بجاتا ہے کوئی کچھ اور طریقہ اختیار کرتا ہے، کوئی پانی کا چھینٹا دیتا ہے… کچھ پڑھنے کے بعد… اور اسلام میں اذان دی جاتی ہے۔ یعنی انسان کے اندر لاشعوری اعتبار سے پہلی حِس جو ہے وہ سننا ہے اور انسان کے اَندر مادّی نقطۂ نظر سے پہلے حِس جو ہے وہ سونگھنا ہے۔
علیٰ ھٰذا القیاس، بتدریج بچہ بڑا ہوتا رہتا ہے اور اس کے اَندر حِسیں بیدار اور متحرک ہوتی رہتی ہیں۔ مثلاً سونگھنے کی حِس، سُننے کی حِس، پہچاننے کی حِس، بولنے کی حِس، پکڑنے کی حِس جتنی بھی حِسیں ہیں جو انسان کے اَندر کام کرتی ہیں، بتدریج وہ بچے کے اَندر پانچ یا چھ مہینے کی عمر تک منتقل ہوجاتی ہیں۔
پچھلی کلاس میں ہم نے شعور اور لاشعور کی محدودیت پر آپ سب لوگوں کے خیالات سنے۔
یہ شعور کی محدودیت، لاشعور کی لامحدودیت دراصل اس طرح ہیں کہ….
شعوری ارتقاء جب ہوتا ہے یا شعور کی محدود صلاحیتوں کو جب بڑھایا جاتا ہے…. مشقوں کے ذریعے…. ماحول کے ذریعے…. اساتذہ کے ذریعے…. تعلیمات کے ذریعے…. جس طرح بھیِ ہو شعور کو آہستہ آہستہ ایسی صلاحیتیں منتقل کی جاتی ہیں کہ وہ دس سال کی عمر میں ایک دن کا بچہ نہیں رہتا اور اس طرح ایک تعلیم یافتہ نوجوان کے مقابلے میں جاہل آدمی بالکل الگ نظر آتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ شعور در اصل ایک Blank چیز ہے…. ایک ایسی تختی ہے جس کے اوپر کچھ بھی نہیں لکھا ہوا۔ اسی بات کو حضور پاک ﷺ نے فرمایا ہے کہ:
ہر بچہ دینِ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ ماں باپ اسے ہندو، مسلمان، کافر جو بنانا چاہیں بنا دیتے ہیں۔
بات وہی ہے کہ وہ شعور کی جو Blank تختی ہے…. اُس کے اوپر جیسے جیسے شعور کی تحریکات انسان کا دماغ قبول کرتا ہے…. ماحول سے…. اُسی مناسبت سے دماغ کے اَندر جو سیلز (Cells) ہں وہ زیادہ سے زیادہ چارج ہوتے ہیں…. لیکن اس چارج ہونے میں بہر حال ہر جگہ شعور کی کار فرمائی مَوجود ہے۔ محدود اور لامحدودیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لفظی معنوں میں لیا جاتا ہے کہ بس صاحب لاشعور لامحدود ہے اور شعور محدود ہے۔ مراد اس سے یہ ہے کہ شعور کا جو پھیلاؤ ہے وہ کم ہے، لا شعور کا جو پھیلاؤ ہے وہ زیادہ ہے۔
لیکن شعور کے اَندر اللہ تعالیٰ نے ایسی صفات منتقل کی ہیں کہ جیسے جیسے شعور کو نالج ملتا ہے، اُسی مناسب سے شعور لاشعور کی طرح پھیلتا رہتا ہے۔ جس طرح لا شعور میں وسعت ہے اسی طرح شعور میں بھی وسعت پیدا ہوتی رہتی ہے۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒنے کتاب “لوح وقلم”میں چار شعور کا ذکر کیا ہے۔ چار شعور محدود بھی ہیں اور لا محدود بھی ہیں۔ ہر شعور چونکہ اس کا نام رکھ دیا گیا ہے اس لئے محدود ہے۔ کوئی بھی چیز جس کا نام رکھ دیا جائے وہ محدودیت کے دائرے میں بند ہوجاتی ہے۔
تو بات شعور کی محدودیت کی ہورہی تھی۔ جیسے جیسے شعور کے اَندر نالج بڑھتا چلا جاتا ہے…. اُسی مناسبت سے شعور کا پھیلاؤ بھی بڑھ جاتا ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ شعور اور لاشعور دونوں کا پھیلاؤ ایک ہوجاتا ہے یعنی شعور اور لاشعور دونوں ایک دوسرے کے(Parallel) کام کرتے ہیں۔ انفارمیشن جو اوپر سے آرہی ہے…. لا شعور میں…. وہ لاشعوری انفارمیشن پہلے شعور میں منتقل ہوتی ہے پھر مظاہرہ ہوتا ہے۔ لیکن اگر شعور اور لاشعور دونوں (Parallel) ہوجائیں، ایک دوسرے کے متوازی ہوجائیں تو شعور اور لاشعور دونوں انفارمیشن کو بیک وقت قبول کرتے ہیں۔ اس نقطۂ نظر سے ہمیں یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ اصل اہمیت شعور کی ہے لیکن اگر شعور نالج کے اعتبار سے، معلومات کے اعتبار سے، وسعت کے اعتبار سے کم ہے تو ہو جتاع کم ہے، اتنا محدود ہے اور نالج کے اعتبار سے، وسعت کے اعتبار سے جتنا اس کا زیادہ پھیلاؤ ہے اتنا ہی وہ لا محدود ہے۔
لا شعور کو ہم لا محدود اس لئے کہتے ہیں کہ لا شعور کی وسعت شعور کے پیمانے سے اتنی زیادہ ہے کہ شعور اس وسعت کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ لیکن اگر شعور کی وسعت بڑھ جائے اور وہ لا شعور کے (Parallel) کام کرنے لگے تو اس کو ہم محدود نہیں کہہ سکتے۔
ابھی یہ بات طے ہوئی ہے کہ چاروں شعوروں کا جب ہم تذکرہ کرتے ہیں تو دراصل ہم ایک محدود شعور کا ذکر کرتے ہیں باقی تین لا محدود لا شعور کا ذکر کرتے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ جب شعور پہلے لا شعور کی وسعت کے مطابق بن جاتا ہے یعنی شعور اور لا شعور دونوں متوازی ہوجاتے ہیں تو ایک دوسرے کے (Parallel) کام کرتے ہیں۔ تو اب شعور اور لا شعور کی دونوں کی حیثیت شعور کی سی ہو جاتی ہے۔ پھر وہی شعور اور لاشعور جو شعور بن گئے ہیں اس کی حیثیت تیسرے لاشعور کے مقابلے میں محدود ہوجاتی ہے اور کم وسعت ہوجاتی ہے۔ پھر یہ مرکب شعور،․․․․․ (شعور + لاشعور = مرکب شعور)…. تیسرے لاشعور کا نالج حاصل کرتا ہے اور بتدریج اس کی بساط میں اضافہ ہوتا رہتا ہے…. وسعت بڑھتی رہتی ہے۔ ایسی وسعت پیدا ہوجاتی ہے کہ مرکب شعور تیسرے لاشعور کے (Parallel) کام کرتا ہے۔ اب صورت یہ ہوئی کہ تین شعور ایک شعور بن گئے۔
اب تین شعوروں سے مرکب یعنی ایک شعور + دو لا شعور سے مرکب پھر ایک شعور بن جاتا ہے۔ پھر یہ شعور چوتھے لاشعور کا نالج حاصل کرتا ہے اور پھر چوتھے لاشعور کی وسعت جو بے پناہ ہے…. بے حد و حساب ہے اس کو کسی طرح الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا….. آہستہ آہستہ چوتھے لاشعور کا تمام ذخیرہ…. تمام معلومات…. تمام نالج…. اس میں تجلی، تدلّیٰ، اللہ تعالیٰ کے رموزِ کائنات، تخلیقی فارمولے…. یہ نالج جب تین شعوروں سے مرکب ایک شعور کو حاصل ہوجاتا ہے تو یہ شعور چوتھے لاشعور کے (Parallel) ہوجاتا ہے۔ اور جب یہ چاروں شعور ایک دوسرے میں جذب ہو جاتے ہیں…. ایک دوسرے کی وسعت کو اپنے اَندر سمیٹ لیتے ہیں۔ اب یہ ایک ایسا شعور ہے جس کا نام ہم کسی بھی طرح شعور نہیں رکھ سکتے۔ اسی کو قرآن پاک نے سلطان کا نام دیا ہے۔ سورۃ رحمان میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“اے گروہ جنّات و انسان! زمین و آسمان کے کناروں سے تم نہیں نکل سکتے، مگر سلطان سے۔ (سورۃ الرّحمٰن – 33)
دیکھئے! سات آسمان بھی ہیں…. زمین بھی…. یعنی کائناتی پروگرام، کائناتی حد بندی، کائناتی سسٹم میں داخل ہونا۔ اگر تم کائناتی سسٹم سے باہر نکل سکتے ہو یعنی پوری کائنات کے نظام کو سمجھنا چاہتے ہو تو تم یہ نہیں کر سکتے۔
سات آسمان دراصل سات شعور ہیں۔ یہ الگ ایک بحث آگئی ہے کہ ہم نے ابھی چار شعوروں کا ذکر کیا ہے۔ تو سات آسمانوں سے اور سات آسمانوں کی یہ جو انفارمیشن ہے، سات آسمانوں کے اَندر جو کچھ ہے اور ان سات آسمانوں کے اَندر جو کچھ مَوجود ہے…. جس اسکرین پر اس کا مظاہرہ ہررہا ہے…. اگر تم اس سے واقفیت حاصل کرنا چاہو تو تم نہیں کر سکتے۔
اگر تم واقفیت حاصل کر سکتے ہو، جان سکتے ہو، کناروں سے نکلنے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم لاہور سے باہر نہیں نکل سکتے اگر لاہور سے باہر نکل سکتے ہو…. نکل کے دکھاؤ….!! تو اس کا صاف مطلب ہے کہ ہمیں چوائس دی گئی ہے کہ ہم لاہور سے باہر نکلیں۔ اب لاہور کے دس راستے ہیں تو پہلے ایک راستے سے نکلیں گے پھر دوسرے سے…. دوسرے سے نہیں تو تیسرے سے نکلیں گے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم لاہور سے نکلنے کیلئے اگر دس راستے ہیں تو ہم ان دس راستوں پر ٹرائی (Try) کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم پورے لاہور سے واقف ہوگئے ہیں۔ لاہور میں کتنی سڑکیں ہیں کتنے محلے ہیں، کیسے لوگ ہیں، گرمی ہے، سردی ہے، برسات ہے…. کیا ہے؟ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم نہیں نکل سکتے۔ مگر ایک صورت ہے نکلنے کی “اِلّا بِسُلطَان“کہ تمہارے اَندر جو چار مرکب شعور (Parallel) کام کررہے ہیں اگر تم اس کو حاصل کر لو تو تک کائناتی نظام سے باہر نکل سکتے ہو۔ یعنی کائناتی نظام کو دیکھ سکتے ہو، سمجھ سکتے ہو۔
تو محدودیت اور لا محدودیت کا فلسفہ صرف اتنا ہے کہ اگر آپ کے اَندر وسعت کم ہے تو آپ محدود ہیں۔ اگر آپ کے اَندر وسعت زیادہ ہے آپ لا محدود ہیں۔ اب جتنی وسعت زیادہ ہے…. آپ اتنے لامحدود ہیں جتنی وسعت کم ہے اتنے محدود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو اس طرح فرمایا ہے کہ:
“تمہارے سارے سمندر روشنائی بن جائیں اور زمین کے اوپر مَوجود تمام درخت قلم بن جائیں اور اللہ کی نشانیوں کو تم لکھنا شروع کردو یعنی سمجھنا، سمجھنے کی کوشش کرو تو درخت بھی ختم ہوجائں گے…. اور پانی بھی ختم ہوجائے گا”…. کیا مطلب ہُوا اِس کا….؟ اِس کا صاف مطلب یہ ہُوا کہ اللہ تک پہنچنے کیلئے، اللہ کے نظام میں داخل ہونے کیلئے محدودیت جو ہے وہ ایک بڑی دیوار ہے جس کو آپ کسی طرح کراس (cross) نہیں کر سکتے۔
یہاں اللہ کہتا ہے کہ سارے سمندر روشنائی بنا دو…. روشنائی ختم ہوجائے گی۔ سمندر تو محدود ہوتا ہے سارے درخت قلم بن جائیں گے…. درخت بھی محدود ہوتا ہے۔ مقصد وہاں یہی ہے کہ محدودیت میں اگر آپ انفارمیشن قبول کر رہے ہیں تو آپ کی رسائی زمین و آسمان سے نہ باہر ہوسکتی ہے اور نہ زمین و آسمان کے اَندر ہوسکتی ہے۔
مثلاً اب زمین کا معاملہ ہے۔ اب زمین کے اَندر سائنسدان تحقیق کرتے ہیں…. تلاش کرتے ہیں…. نئی نئی دھاتوں کی تحقیق ہوئی ہے۔ یورینیم جیسے نکل آئی…. تو عام آدمی کے معاملے میں سائنسدانوں کی اس کوشش کو آپ لامحالہ لا محدودیت کا نام دے دیتے ہیں۔ ایک جاہل آدمی کے مقابلے میں ایک پڑھے لکھے آدمی کے دماغ کے بارے میں لازماً یہ کہیں گے کہ یہ لا محدود ہے اور جاہل کو آپ محدودیت کا نام دیں گے۔
تو یہاں صورتحال یہ ہے کہ بشری تقاضوں کے تحت انسان کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح تخلیق کیا ہے کہ وہ محدودیت سے چل کر لا محدودیت میں داخل ہوتا۔ اور محدودیت سے چل کر لا محدودیت میں داخل ہونادراصل اس ‘‘سُلطان’’ کو تلاش کرنا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم سلطان سے واقفیت حاصل کرلو یعنی تم اس بات سے واقف ہوجاؤ کہ بظاہر تو تم محدود ہولیکن اَندر لا محدود صلاحیتیں اتنی زیادہ ہیں کہ تم آسمان اور زمین کے اَندر جو صلاحیتیں ہیں…. اُس سے بھی زیادہ لا محدود ہو…. آسمان اور زمین کی جتنی وسعت ہے…. تم اس سے بھی زیادہ وسعت رکھتے ہو…. اپنے اَندر…. اور یہی وہ طرزِ کلام ہے…. اللہ تعالیٰ کا…. کہ جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اِس طرف مُتوجّہ کر رہے ہیں کہ
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (4) ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ (5)’’ – [سورۃ التّین]
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انسان میری بہترین صناعی ہے۔ لیکن یہ اسفل السافلین میں پڑا ہوا ہے۔ بہترین صناعی لامحدودیت ہے۔ اسفل السافلین محدودیت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس طرف مُتوجّہ کر رہے ہیں کہ محدودیت کے دائرہ ِٔ کار میں اپنے آپ کو قید نہ کرو۔ محدودیت کے دائرۂِ کار سے جیسے جیسے تم نکلنے کیلئے جدوجہد اور کوشش کرتے رہو گے محدود وسعت لا محدود ہوتی چلی جائے گی اور نتیجے میں وہ محدودیت…. جس محدودیت کی بنا پر آپ دو قدم بھی نہیں اٹھا سکتے تےی…. بغیر ٹائم اسپیس کے…. لا محدود ہوجائے گی۔
مثلاً آدمی ایک قدم اٹھاتے ہیں تو ایک قدم سے دوسرا قدم اٹھانے میں آپ محتاج ہیں اسپیس(Space)کے۔ ایک قدم سے دوسرا قدم اٹھانے میں آپ محتاج میں ٹائم (Time) کے۔ یعنی آپ نے جب ایک قدم اٹھا کر دوسرا قدم زمین پر رکھا…. زمین کا فاصلہ اگر ایک فٹ ہے…. اس کا مطلب ہوا کہ آپ کی یہ مجبوری ہے کہ ایک قدم اٹھانے کے بعد دوسرے قدم رکھنے میں آپ کو ایک فٹ زمین کے فاصلے سے گزرنا ہوگا۔ آپ اس سے صَرفِ نظر نہیں کر سکتے۔ اِسی لئے جب آپ نے قدم اٹھا کے دوسرا قدم رکھا، اِ س میں ایک سیکنڈ کا ہزارواں فریکشن (Fraction) سہی…. لیکن ٹائم خرچ ہُوا۔
ایک آدمی ایک گھنٹے میں تین میل پیدل چلتا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ تین میل․․․․․ تین میل کی مسافت یا تین میل کی اسپیس یا تین میل کے فاصلہ کیلئے آپ کو ایک گھنٹے کا ٹائم چاہیئے۔ ایک گھنٹے میں تین میل آدمی چلا اس کا مطلب یہ ہوا کہ ۶۰ منٹ میں تین میل کا فاصلہ آپ کو طے کرنا پڑے گا۔ اگر آپ تین میل کا فاصلہ ساٹھ(۶۰)منٹ میں طے نہیں کریں گے تو آپ چل ہی نہیں سکتے، سفر نہیں کر سکتے۔ اسی صورت سے آپ کار میں بیٹھ گئے تو ایک گھنٹے میں آپ نے سو میل کا سفر، طے کیا تو کار میں بیٹھنے اور پیدل چلنے میں فرق یہ ہوا کہ آپ کی اسپیڈ بڑھ گئی۔ یعنی ایک آدمی جو مجبور ہے…. ایک گھنٹے میں تین میل فاصلہ طے کرنے پر…. اگر وہ اپنی اسپیڈ بڑھالے تو ایک گھنٹے میں سومیل کا سفر کر سکتا ہے۔ لیکن ایک گھنٹے میں تین میل کا سفر ہو…. سو میل کا سفر ہو…. اسپیس سے گزرنا ہی ہوگا…. ٹائم خرچ ہونا ہی ہوگا…. اِسی صورت سے ہوائی جہاز بھی ہے۔ ہوائی جہاز میں آدمی ایک گھنٹے میں تین ہزار میل کا سفر کر لیتا ہے۔ لیکن وہ ہزار میل کا سفر ہو…. تین ہزار میل کا سفر ہو…. تین میل کا سفر ہو۔ سفر اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ ٹائم اسپیس دونوں سے آپ نہ گزرتے ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سفر کیلئے ضروری ہے کہ آپ کا ٹائم بھی خرچ ہو اور آپ اسپیس کے اوپر سے بھی گزریں۔ اس اسپیس پر سے گزرنا اور ٹائم کو خرچ کرنا اس طرف واضح اشارہ ہے کہ انسان ٹائم اسپیس میں بند ہے۔ یہ کس طرح بند ہوجاتا ہے ٹائم اسپیس کو سمجھنے کیلئے یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ جب ہم زمین پر کھڑے ہوتے ہیں تو درا صل ہم اسپیس میں بند ہیں یعنی اس زمین پر کھڑے ہیں، چلتے پھرتے ہیں لیکن (Space) میں بند ہیں۔ ٹائم گزار کر زمین پر چلنا…. یا…. اسپیس پر چلنا یہ سب حِسِّ مَکانیت ہے۔
میں نے آپ حضرات کو جو سوال کیا تاز…. محدودیت اور لا محدودیت کا۔ وہ یہ تھا کہ کتابُ المبین اور شعور کی محدودیت یا لا محدودیت۔ یہ بات آج کی کلاس میں فائنل ہوگئی کہ شعور لاشعور جو بھی کچھ ہے اس میں بہر حال محدودیت ہے۔ جتنی ہماری رفتار تیز ہوجائے گی…. جتنا ہمارا شعور سے تعلق…. ایک شعور سے دوسرے شعور کا تعلق جو ہے…. اُس سے قریب ہوجائے گا…. جتنی شعور کی وسعت بڑھ جائے گی…. اُسی حساب سے انسان کے اَندر اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیتیں لا محدود ہوتی چلی جائیں گی۔
• ایک کتاب المبین…..
• ایک کتابُ المبین میں تیس کروڑ لوحِ محفوظ….
• لوحِ محفوظ میں اَسّی ہزار حضیرے….
جب یہ ہم تعداد متعیّن کر رہے ہیں تو در اصل ہم محدودیت کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ اب محدودیت کا تذکرہ اس لئے مجبوری ہے کہ انسان کا جو شعور ہے وہ بالکل بچہ ہے۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کی وسعت کے بارے میں کوئی تَعیّن نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا ہے اسے نئی نئی اطلاعات فراہم ہوتی رہتی ہے…. اُسی مناسب سے بچے کا شعور بڑا ہوتا رہتا ہے اور اُس کا پھیلاؤ بڑھتا رہتا ہے اور اُسی مناسبت سے بچے کی (Activities) بھی بڑھتی رہتی ہیں۔ مثلاً تین چار مہینے کا بچہ بیٹھتا ہی نہیں ہے۔ چھ مہینے کا بچہ زمین پر بھاگا بھاگا پھرتا ہے۔ سال بھر کا بچہ کھڑے ہو کر چلنے لگتا ہے۔ دس سال کا بچہ اور تیز بھاگتا ہے۔ تو جیسے جیسے اس کے شعور کے اَندر معلومات کا ذخیرہ ہوتا ہے معلومات کے ذخیرے سے اس کے اَندر وسعت پیدا ہوتی رہتی ہے اور یہ وسعت بھی دراصل ارتقاء ہے وہ ہے ایک بچے کا ارتقاء ہو یا قوم کا ارتقاء ہو پوری نوعِ انسانی کا ارتقاء ہو۔ ارتقاء سے مراد یہ ہے کہ انفارمیشن میں زیادہ سے زیادہ اضافہ اور انفارمیشن میں زیادہ سے زیادہ اضافے کی بنیاد پر شعور کا لاشعور سے زیادہ سے زیادہ قریی تعلق یا قربت ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بہترین تخلیق فرمایا ہے۔
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (4) ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ (5)’’ – [سورۃ التّین]
انسان اللہ تعالیٰ کی بہترین تخلیق ہے لیکن جب یہ زمین پر آتی ہے تو اس کو ایک تختی، ایک سلیٹ، ایک کینوس، ایک اسکرین، ایسی فراہم کردی جاتی ہے کہ جس میں جتنی زیادہ معلومات کا اضافہ ہوتا رہے گا اسی مناسبت سے وہ مادّی دنیا کے ساتھ ساتھ، مادّی دنیا میں رہتے ہوئے غیب کی دنیا سے قریب ہوتا چلا جائے گا۔ اور جن لوگوں نے غیب کی دنیا کا مشاہدہ کیا ہے یا غیب کی دنیا میں داخل ہوئے ہیں انہوں نے جو کچھ دیکھا ہے وہ یہ بتاتے ہیں کہ کائناتی سسٹم میں بنیادی جو عوامل ہیں…. یا …. بنیادی جو بساط ہے…. وہ یہ ہے کہ….
ایک کتابُ المبین ہے…. ایک کتابُ المبین میں تیس کروڑ لوحِ محفوظ ہیں….. ایک لوحِ محفوظ میں اَسّی ہزار حضیرے ہیں…. ایک کھرب سے زیادہ مستقل نظام اور بارہ کھرب غیر مستقل نظام ایک حضیرے کے اَندر ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو لا شعور سے واقف ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور اس واقفیت کیلئے بحیثیت طالبِ علم آپ بھی بھر پور جدو جہد اور کوشش کیجئے۔ اِن شاء اللہ آپ کامیاب و کامران ہوں گے۔
السّلام علیکم!

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 110 تا 116

خطباتِ لاہور کے مضامین :

0.01 - اِنتساب 0.02 - ترتیب و پیشکش 1 - شہرِِ لاہور 2 - لاہور کے اولیاء اللہ 3 - مرشدِ کریم کی لاہور میں پہلی آمد 4 - مراقبہ ھال مزنگ کے افتتاح پر خطاب 5 - محمد حسین میموریل ہال مزنگ میں عظیمی صاحب کا خطاب 6 - جامعہ عظیمیہؔ کاہنہ نَو کے افتتاح سے خطاب 7 - دوسری بین الاقوامی رُوحانی کانفرنس سے خطاب 8 - جامعہ مسجد عظیمیہؔ کے افتتاح سے خطاب 9 - سہہ ماہی میٹنگ سے خطاب 10 - قلندر شعور 11 - شعور اور لاشعور 12 - کُن فیکُون 13 - تقریبِ رُونمائی کتاب”مراقبہ”سے خطاب 14 - مراقبہ ہال برائے خواتین کے افتتاح پر خطاب 15 - کتاب “محمدؐ رسول اللّٰہ ﷺ”کی تقریب ِ رُونمائی سے خطاب 16 - روحانی سیمینار سے خطاب 17 - حضرت ابو الفیض قلندر علی سہر وردیؒ کے مزار پر حاضری 18 - لاہور بار ایسوسی ایشن سے خطاب 19 - کتاب “ہمارے بچے “کی تقریب ِ رُونمائی سے خطاب 20 - لاہور ہائیکورٹ بار سے خطاب 21 - اوریئنٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور میں خطاب 22 - محفلِ میلاد سے خطاب بمقام جامع عظیمیہ لاہور 23 - ایوانِ اقبال میں پہلی سیرت کانفرنس سے خطاب 24 - سیرتِ طَیّبہؐ پر اَیوانِ اِقبال میں خطاب 25 - اراکینِ سلسلۂِ عظیمیہ لاہور سے خطاب 26 - سیشن برائے رُوحانی سوال و جواب
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)