ما بعد الطّبیعی اَساس
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=20077
انسان جس جسمانی وجود سے اس دنیا میں چلتا ، پھرتا، کھاتا ، پیتا ہے اور دوسرے مشاغل میں مصروف رہتا ہے، وہ فانی ہے ۔ہر انسان کی اصل اس کی روح ہے۔
روح کا ادراک ہونے سے انسان اپنی اصل سے واقف ہوجاتا ہے اوراپنی اصل سے واقفیت ہی عرفانِ الہٰی کا وسیلہ ہے ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نماز میں اپنا منہ مشرق (بیت المقدس)مغرب (خانۂ کعبہ ) کی طرف کروبلکہ اصل نیکی یہ ہے کہ اللہ پر، قیامت پر ،فرشتوں پر، کتابوں پر اور پیغمبروں پر ایمان لا ئے اور، خواہش کے باوجود اللہ کی محبت میں اپنا مال ، رشتے داروں،یتیموں ، غریبو ں، مسافروں ، مانگنے والوں اور غلاموں کو آزاد کرانے میں خرچ کرے، نماز ادا کرتا رہے، زکوۃ دیتا رہے اور جو وعدہ کرے اپنے وعدے کو پورا کرتا رہے، اور جو مصیبت ، تکلیف اور پریشانی میں ثابت قدم رہتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو راست باز ہیں اور یہی تقویٰ ہے ‘‘
(سورۃ البقرۃ۔آیت:۱۷۷)
آیت کی تفہیم یہ ہے کہ راست بازی اور تقویٰ کاپہلا نتیجہ جس طرح ایما ن ہے اس ہی طرح دوسرا لازمی نتیجہ بہترین اوصاف ، فیاضی ، ایفائے عہداور صبرو ثبات وغیرہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اور رحم والے اللہ کے بندے وہ ہیں جو زمین پر دبے پاؤں چلتے ہیں اور جب ناسمجھ لوگ ان سے بات کریں تو وہ سلام کہیں اور جو اپنے پروردگار کی عبادت کی خاطر قیام اور سجدے میں رات گزارتے ہیں اور جوکہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم سے جہنم کا عذاب دور کر، کہ اس کا عذاب بڑا تاوان ہے اور جہنم برا ٹھکانہ اور مقام ہے اور جو خرچ کرتے ہیں وہ فضول خرچ نہ کریں اور نہ تنگی کریں، بلکہ ان دونوں کے درمیان ،اور جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہیں پکارتے اور جو کسی جان کا بے گناہ خون نہیں کرتے ، جس کو اللہ نے منع کیا ہے،اور نہ بد کاری کرتے ہیں اور جو ایسا کرے گا وہ گناہ سے پیوست ہوگا ‘‘
(سورۃ فرقان۔آیت :۶۲تا۶۳)
’’اور جو جھوٹے کام میں شامل نہیں ہوتے اور جب کسی لَغویات سے گزر رہے ہوں تو سنجیدگی اور وقار سے گزر جاتے ہیں اور جب اللہ کی نشانیاں ان کو سنائی جاتی ہیں تو وہ اندھے اور بہرے ہوکر ان کو نہیں سنتے اور یہ دُعا مانگتے ہیں اے ہمارے پروردگار ہم کو ہمارے بیوی بچوں سے آنکھ کی ٹھنڈک بخش اور ہم کو پرہیز گاروں کا پیشوا بنا دے‘‘
(سورۃ فرقان ۔ آیت :۷۱تا۷۴)
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 49 تا 51
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔