ماضی اورحافظہ
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=25600
اس کی ایک مثال حافظہ ہے۔جب ہم اپنے بچپن یا گذرے ہوئے کسی لمحے کو یا د کرتے ہیں توہمارا ماضی نور کے ذریعے حال میں وارد ہو جاتا ہے اور ہمیں بچپن کے واقعات یاد آجاتے ہیں۔
جنات، ملائکہ اور دوسری مخلوقات کے حواس بھی نور پر قائم ہیں۔ روحانیت میں نور سے تعارف حاصل کرنے کے لئے مراقبہ نور کرایا جاتاہے۔ مراقبہ نور کئی طریقوں سے کیا جاتا ہے۔
۱) طالب علم تصور کرتا ہے کہ ساری کائنات اور اس کی مخلوقات نور کے وسیع و عریض سمندر میں
ڈوبی ہوئی ہیں۔وہ خود کو بھی نور کے سمندر میں ڈوبا ہوا محسوس کرتا ہے۔
۲) عرش کے اوپر سے نور کا دھارا ساری دنیا پر برس رہا ہے۔ صاحب مراقبہ خود پر بھی نور برستا ہوا
محسوس کرتا ہے۔
’’اﷲ نور ہے آسمانوں اور زمین کا،اس نورکی مثال طاق کی مانند ہے جس میں چراغ رکھا ہواور چراغ شیشے کی قندیل میں ہے۔‘‘
(سورۂ نور آیت نمبر ۳۵)
روحانی طالب علم اس آیت میں دی گئی مثال کے مطابق تصور کرتا ہے کہ چراغ کی نورانی شعاعوں سے اس کا پورا جسم منور ہو رہا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 238 تا 239
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔