لامتناہی تفکر
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=26619
فرمایا اس گفتگو میں ایک ایسامقام آجاتا ہے جہاں کا ئنات کے کئی رازمنکشف ہوجاتے ہیں۔غور سے سنو!ہمارے تفکر میں بہت سی چیزیں ابھرتی رہتی ہیں۔دراصل وہ باہرسے آتی ہیں۔انسان کے علاوہ کائنات میں اور جتنے تفکر ہیں جن کا تذکرہ ابھی کیا گیا ہے۔فرشتے اور جنات ۔ان سے انسان کاتفکر اسی طرح متاثر ہوتا ہے۔قدرت کاچلن یہ ہے کہ لامتناہی تفکر سے تناہی کو فیضان پہنچاتی رہتی ہے۔پوری کائنات میں اگر قدرت کا یہ فیضان جاری نہ ہو تو کائنات کے افراد کایہ درمیانی رشتہ کٹ جائے۔
ایک تفکر کا دوسرے تفکر کو متاثرکرنا بھی قدرت کے اس طرز عمل کا ایک جزہے۔انسان پا بہ ِگل ہے، جنات پا بہ ہیولاہے،فرشتے پابہ نورہیں،یہ تفکر تین قسم کے ہیں اور تینوں کائنات ہیں۔اگر یہ مربوط نہ رہیں اور ایک تفکر کی لہریں دوسرے تفکر کو نہ ملیں تو ربط ٹوٹ جائے گااور کائنات منہدم ہوجائے گی۔
ثبوت یہ ہے کہ ہمارا تفکر ہیولا اور ہیولاقسم کے تمام جسموں سے فکری طور پر روشناس ہے ساتھ ہی ہمارا تفکر نور اور نور کی ہر قسم سے بھی فکری طور پر روشناس ہے حالانکہ ہمارے تفکر کے تجربات پابہ ِگل ہیں ۔ اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ہیولا اور نور کے تجربات اجنبی تفکر سے ملے ہیں۔
عام زبان میں تفکر کو انا کا نام دیا جاتا ہے اور انا یا تفکر ایسی کیفیات کا مجموعہ ہو تا ہے جن کو مجموعی طور پر فرد کہتے ہیں۔ اس طرح کی تخلیق ستارے بھی ہیں اور ذرے بھی۔ ہمارے شعور میں یہ بات یا تو بالکل نہیں آتی یا بہت کم آتی ہے کہ تفکر کے ذریعے ستاروں ذرّوں اور تمام مخلوق سے ہمارا تبادلہ خیال ہوتا رہتا ہے یعنی ان کی انا(تفکر کی لہریں) ہمیں بہت کچھ دیتی ہیں اور ہم سے بہت کچھ لیتی بھی ہیں۔ تمام کائنات اس قسم کے تبادلہ خیال کا ایک خاندان ہے۔ مخلوق میں فرشتے اور جنات ہمارے لئے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ تفکر کے اعتبار سے ہمارے زیادہ قریب ہیں اور تبادلہ خیال کے لحاظ سے ہم سے زیادہ مانوس ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 328 تا 329
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔