قطرۂِ بارش

مکمل کتاب : احسان و تصوف

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12235

روحانیت اور تصوف کے بارے میں لوگوں نے بہت کچھ لکھا ہے،ایک گروہ کا خیال ہے کہ اکثر صوفیاء چونکہ اُون کا لباس پہنتے تھے اس لئے لوگ انہیں صوفی کہتے تھے۔ اون کو عربی میں صوف کہتے ہیں۔ وہ لوگ یہ لباس اس لئے پہنتے تھے کہ صوف کا لباس پہننا اکثر نبیوں،ولیوں اور برگزیدہ ہستیوں کا معمول رہا ہے۔بعض حضرات کے خیال میں اصحاب ِ صفہ کے ساتھ نسبت رکھنے کی وجہ سے یہ لوگ صوفی کہلاتے ہیں،جبکہ ایک طبقہ کا خیال ہے کہ صوفی صفاء سے مشتق ہے لیکن ان ساری تشریحات سے دل مطمئن نہیں ہوتا۔
تصوف کے اصطلاحی معانی دراصل’’ نفس کا تزکیہ‘‘ ہے۔تصوف اس جذبہ اخلاص کا نام ہے جو ضمیر سے متعلق ہے اور ضمیر نور باطن ہے۔صوفی اﷲ کی معرفت سوچتا ہے۔اس کی گفتگو کا محور اﷲ ہوتا ہے۔وہ اﷲ کے ساتھ جیتا ہے اور اﷲ کے نام کے ساتھ مرتاہے اسی کا کلمہ پڑھتا ہے اسی کے گن گاتا ہے اور اسی کے عشق میں ڈوبا رہتاہے اﷲ کو دیکھنے اور اﷲ سے ملاقات کے شوق میں اپنا سب کچھ قربان کردیتا ہے۔
مظاہر فطرت،سمندر کی طغیانی اور سکون میں،اپنے آگے پیچھے اوپر نیچے․․․ صوفی کو ہرطرف اﷲ نظر آتا ہے۔
ہر دور میں فلسفی موشگافیاں کرتے رہے،جو فلسفی اﷲ کی ہستی کے قائل ہیں،وہ اﷲ کو صرف کائنات کا صنعتکار قرار دیتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ مخلوق کا اﷲ سے رابطہ قائم نہیں ہوتا۔اﷲ کسی انسان سے ہم کلام نہیں ہوتا۔
تفکر کیا جائے تو سائنسداں اور فلاسفہ کے بیان میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہے۔ سائنس دان کہتا ہے کہ اﷲ اس لئے نظر نہیں آتا کہ اس کی موجودگی دلیل کی محتاج ہے اور انسان کے پاس ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس سے اﷲ کودیکھنا، تسلیم کرلیا جائے۔
سائنس کا عقیدہ ہے کہ کائنات حادثاتی مظاہرہ ہے۔حالانکہ سائنس دان الیکٹرون کو تخلیق کی اکائی مانتا ہے۔جو نظر نہیں آتی اور کبھی نظر نہیں آئی۔سائنس اور فلسفہ کی بنیاد عقل پر ہے جبکہ لاکھوں سال میں عقل کی کوئی حتمی تعریف نہیں ہوسکی۔ سائنس اور فلسفہ کے برعکس مذہب کہتا ہے کہ صحیح عقیدہ کی بنیاد وحی اور الہام ہے اورعقل کاوحی اور الہام میں کوئی دخل نہیں ہے۔
تصوف کے معنی ہیں صوفی ہو نا اور صوفی کا مطلب ہے : ظاہر سے زیادہ باطن کا خیال رکھنے والا۔صوفی وہ ہے جو خود کو تنہا کر کے اﷲ سے متعلق رہے۔اس میں اعلیٰ درجہ کا خلوص اور حقائق کے ادراک کی استعداد ہو۔صوفی کا یقین ہے کہ اﷲ خود اپنا کلام کسی بندے پر نازل کرتا ہے اور انسان اس سے رابطہ میں ہے۔

قرآن پاک میں اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں:

۱) کسی بشر کی قدرت نہیں کہ وہ اﷲ سے ہمکلام ہو۔مگر وحی کے ذریعہ یا پردہ کے پیچھے
سے۔یا کسی قاصد کے ذریعہ۔یا اﷲ جس طرح چاہے۔
(سورۂ شورٰی آیت نمبر ۵۱)
۲) اگر تم پکارو گے تو میں جواب دوں گا۔
۳) تم مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا۔
۴) میں تمہاری رگِ جان سے زیادہ قریب ہوں۔
۵) میں تمہارے اندر ہوں،تم دیکھتے کیوں نہیں؟
۶) اگر تم میری اطاعت کروگے تو میں اس کی جزا دوں گا،اور اگر میری نافرمانی کروگے تو سزا کے
مستحق ہوگے۔
۷) اگر تم مجھ سے محبت کروگے تو میں تم سے محبت کروں گا اور اس محبت سے تمہاری شخصیت میں

میری صفات کا عکس نمایاں ہوجائے گا۔اور میرے قرب سے تم میرا دیدار کرسکوگے۔
جن لوگوں پر عقل کا غلبہ تھا انہوں نے اطاعت کو کافی سمجھا اور جنت کو اپنا مقصد بنالیا۔ لیکن جن لوگوں پر عشق کا غلبہ تھا انہوں نے اطاعت کے علاوہ اﷲ کے ساتھ تعلق اور محبت کو ضروری سمجھا اور اﷲ کے دیدار کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا۔
روحانیت یا ’’تصوف‘‘روحِ انسانی سے واصل ہونے کا جذبہ ہے۔تصوف اپنی انا کا کھوج لگانے کا علم ہے۔
تصوف من کی دنیا میں ڈوب کر سراغ ِ زندگی پا جانے کا نام ہے۔ علم ِروحانیت یہ حقیقت آشکار کرتا ہے کہ ازل میں روح اﷲ کو دیکھ چکی ہے،روحیں اﷲ کی آواز سننے کے بعد ’’ قالوبلٰی‘‘ کہہ کر اس کی ربوبیت کا اقرار کرچکی ہیں۔صوفی کہتا ہے اگر میری روح اﷲ کو نہ جان سکتی تو اﷲ مجھے اپنی ذات سے محبت کا حکم نہ دیتا۔صوفی پر اسرار ورموزکا انکشاف ہو تا ہے۔ صوفی کے اوپر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ روح ایک ایسی ہستی سے محبت کرنا چاہتی ہے جو اس کا خالق ہے اور وہ کائنات میں حسین ترین ہستی ہے۔صوفی کے یقین میں یہ بات راسخ ہوتی ہے کہ اﷲ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ میری روح بھی اس سے محبت کرتی ہے۔
روحانی بندہ اﷲ کی تلاش میں،ارتکازِتوجہ (CONCENTRATION) سے استغراق حاصل کرکے حقیقت الحقیقت سے واقف ہوجاتا ہے۔
دانشور پوچھتے ہیں کہ غیر صوفی کو وہ مشاہدات کیوں نہیں ہوتے جن کا صوفی اعلان کرتاہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان روح سے واصل نہیں ہونا چاہتا۔اور جب اپنی انا یعنی روح سے واقف نہیں ہونا چاہتا تو روح کی حقیقت اس کے لئے پردہ بن جاتی ہے۔
انسان مادی اور دنیاوی علوم کے لئے اپنی ساری توانائی اور مال و دولت خرچ کرتا ہے۔ آدمی میٹرک پاس ہونے کے لئے 35600گھنٹے اور کثیرسرمایہ خرچ کرتا ہے لیکن روح کا عرفان حاصل کرنے کے لئے دن ، رات میں 20منٹ بھی یکسو نہیں ہوتا۔ اﷲ کے پاس جانے کے خیال سے ہی دنیا دار کے اوپر مردنی چھا جاتی ہے جبکہ اﷲ کی ہر نعمت اسے اچھی لگتی ہے۔
ہر فرد و بشر جانتا ہے کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے ۔عام لوگوں کے برعکس اﷲ کے دیدار کے لئے صوفی اس وقت کا شوق سے انتظار کرتا ہے۔
احسان و تصوف کتاب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ بالخصوص امت مسلمہ اوربالعموم نوع انسانی، اپنی پیدائش، حیات وممات اور منصبِ خلافت فی الارض کی حقیقت سے واقف ہو جائے اور یہ بات اس کے علم میں آجائے کہ کائنات میں ہر مخلوق باشعور ہے لیکن انسان واحدبا شعور مخلوق ہے جو یہ جان لیتی ہے کہ اس کو کس نے پیدا کیا ہے ، کیوں پیدا ہوا ، مرنے کے بعد کس دنیا میں چلا جاتا ہے اور اُس دنیا کے شب و روز کیا ہیں ؟
تصوف پر ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ہر کتاب تصویر کا ایک نیا رخ پیش کرتی ہے۔ لوگوں نے تصوف کے او پر بے پناہ اعتراضات کئے ہیں اور تصوف کی فضیلت میں قصیدہ خوانی بھی کی گئی ہے۔ تنقید وتعریف کے انبار میں تصوف کو ایک الجھا ہوا مسئلہ سمجھا جانے لگا۔کوئی کہتا ہے کہ تصوف دنیا بیزار اور کاہل الوجود لوگوں کا مسلک ہے۔ کسی نے کہا۔گدی نشین حضرات کا محبوب مشغلہ ہے اور مریدین سے خدمت لینے کا بہترین ذریعہ ہے۔
کسی نے بتا یا کہ یہ مسمریز م ، ہپنا ٹزم اور عامل معمول کا کھیل ہے ۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ ’’نظریہ تصوّف ‘‘گانے بجانے اور دھمال ڈالنے کا اچھا طریقہ ہے ۔
صاحبِ قلب ونظر افراد نے پر وقار ، پر اعتما د اور سچائی کی عظمت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ قلبی مشاہدات اور روحانی کیفیات کا نام تصوّف ہے۔ صوفی کے دل کی ہر دھڑکن اﷲ کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے۔حضرت خواجہ غریب نوازؒ کہتے ہیں کہ:
’’یار دم بدم و بار بار می آید‘‘
اہلِ عقل و دانش نے فلسفیانہ استدلال، منطق اور عقلی توجیہات سے تصوف کو اس قدر الجھا دیا ہے کہ تصوف ایک علم چیستان بن گیا ہے۔انہوں نے ا س علم کو یہودی، عیسائی، ویدانت اور بدھ ازم کا لباس پہنا دیا ہے۔
قو م کے ہمدرد اور مخلص حضرات و خواتین نے تصوف کے اعلیٰ ذوق کو اختیار کرکے توکل، قناعت، اور استغناء کی روشن مثالیں قائم کی ہیں۔ انہوں نے عملاًاس بات کا مظاہرہ کیا کہ تصوف ایک ایسا راستہ ہے جس پر چل کر انسان دنیا اور دین کی ہر بھلائی حاصل کر لیتا ہے۔
تصوف کے پیروکار راہب نہیں ہوتے ،وہ محنت مزدوری کر کے، حقوق العباد پورے کرتے ہیں اور شب بیدار ہو کر اﷲ کے حضور حاضر ہوتے ہیں۔
میری دانست میں تصوف کی تعریف یہ ہے کہ:
تصوف ایک ایسا School of Thoughtہے جس میں انسان کو انبیاء علیہم السلام کی طرز فکر کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے……انسان تعلیم مکمل کرکے جب ا س اسکول سے نکلتا ہے تو وہ آدم سے ممتاز ہو کر انسان بن جاتاہے۔اور ا سکے اندر خاتم النبییّن صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرز فکرنظر آتی ہے ۔ وہ زندگی کے ہر لمحہ میں اﷲ کوپکارتا ہے اور اﷲکو دیکھنے اور اس سے قریب تر ہونے کی آرزو کرتا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ کے مطابق انسان کی تخلیق کامقصد خود کو پہچان کر اﷲ کا عرفان حاصل کرنا ہے۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنی اصل یعنی روح سے واقف ہونے کی توفیق دے۔ (آمین)
آئیے! جدّوجہد کریں کہ ہمیں اﷲ کا قرب نصیب ہوجائے اور ہم سب اس طرح اﷲ سے قریب ہوجائیں جس طرح اﷲ چاہتا ہے۔

خانوادہ سلسلۂ عظیمیہ
۱۲ ربیع الاول ۱۴۲۴؁ھ
مرکزی مراقبہ ہال
سرجانی ٹاؤن ،کراچی

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 0.27 تا 0.31

احسان و تصوف کے مضامین :

0.01 - خلاصہ 0.02 - بسم اﷲ الرحمن الرحیم 0.03 - قطرۂِ بارش 1 - تصوف کی تعریف 1.01 - باطنی مشاہدات 1.02 - روحانی تشریح 1.03 - علم ِ شریعت 1.04 - نفس کا عرفان 1.05 - تزکیہ نفس 1.06 - اعمال و اشغال 2 - تصوف کی تاریخ 2.01 - زمین پر انسان کا پہلا دن 2.02 - معاشرتی قوانین 2.03 - جسمانی رُخ ، روحانی رُخ 2.04 - ایک اور دنیا 2.05 - نوعِ انسانی کا پہلا صوفی 2.06 - نماز میں حُضوری 2.07 - دعوتِ حق 2.08 - یَومِ اَزل کا وعدہ 2.09 - اللہ کے نمائندے 2.10 - اللہ کی بادشاہی کا رُکن 2.11 - بَشارت 2.12 - قرآن اور تصوّف 2.13 - گھڑی کی سوئیاں 2.14 - پیدائشی شعور 2.15 - پہلے آسمان کا شعور 3 - تصوّف اور رَہبانیّت 3.01 - تَرکِ دُنیا 3.02 - مذاہبِ عالَم اور تصوّف 3.03 - یُونانی تصوّف 3.04 - یہودی تصوّف 3.05 - عیسائی تصوّف 3.06 - ہندومَت اور تصوّف 3.07 - تصوّف اور سائنس 4 - تصوّف اور مُعترضین 4.01 - اعتراضات 4.02 - قِیاسی علوم 4.03 - منافِقانہ طرزِ عمل 4.04 - تارِکُ الدّنیا 4.05 - تھیا سوفی 4.06 - اسلام میں تفرّقے 4.07 - حقوق ﷲ 5 - تصوّف کی اہمیت و حقیقت 5.01 - اسلام 5.02 - ایمان 5.03 - احسان 5.04 - اَنفَس و آفاق 5.05 - حضرت رابعہ بصریؒ 5.06 - فلاسِفہ اور تصوّف 5.07 - مذہب اور تصوّف 5.08 - محبّت 5.09 - ماورائی شعور 6 - تصوّف اور مَکارِمِ اخلاق 6.01 - اِخلاقِ حَسَنہ 6.02 - فضائلِ اِخلاق 6.03 - عبادات کا کردار 6.04 - چار سُتون 6.05 - سیرتِ طیّبہ اور صوفیاء کرام 6.06 - ما بعد الطّبیعی اَساس 6.07 - مؤمن کے اخلاقی اَوصاف 7 - خدمتِ خلق 7.01 - مخلوق کی ڈیوٹی 7.02 - گیارہ ہزار نَوعیں 7.03 - ہر مخلوق دوسری مخلوق کے ساتھ بندھی ہوئی ہے 7.04 - کائنات کا ہر ذرّہ تعمیلِ حکم کا پابند ہے 7.05 - حُقوقِ انسانی اور دیگر مخلوق کے حُقوق 8 - بیعت 8.01 - قرآنِ کریم اور بیعت 8.02 - ضرورتِ شَیخ 8.03 - شعوری اِستعداد 8.04 - اساتِذہ کا کردار 8.05 - بیعت کا قانون 8.06 - نظامِ تربیّت 8.07 - روحانی اُستاد کی خصوصیات 9 - نسبت 9.01 - نسبتِ عِلمیّہ 9.02 - نسبتِ سُکَینہ 9.03 - نسبتِ عشق 9.04 - نسبتِ جذب 9.05 - قُربِ نوافل، قُربِ فرائض 10.0 - مخلوقات 10.01 - مخلوقات کا حلیہ 10.02 - خلاء 10.03 - بیس ہزار فرشتے 10.04 - دوکھرب سیلز 10.05 - سانس اور ہوا 10.06 - خون کی رفتار 10.07 - اﷲ کی عادت 10.08 - ہر شئے کی بنیاد پانی ہے 10.09 - درختوں کی دنیا 10.10 - بارش برسانے کا فارمولا 10.11 - فطرت کے قوانین 10.12 - کائناتی سسٹم 10.13 - صراطِ مستقیم 11.0 - انسان 11.01 - ایک تخلیق سے ہزاروں تخلیقات 11.02 - زمین اور آسمانوں کی روشنی 11.03 - روشنیوں کا سفر 11.04 - علوم سیکھنے کے تقاضے 11.05 - انسانی ذات کے تین پرت 11.06 - لطیف انوار۔ کثیف جذبات 12.0 - جناّت 12.01 - ابوالجن طارہ نوس: 12.02 - جنات کی دنیا 12.03 - مشرک جنات 12.04 - جنات کی غذا 12.05 - مسلمان جنات 12.06 - درخت کی گواہی 12.07 - مفرد لہریں-مرکّب لہریں 12.08 - شاگرد جنات 12.09 - دس لاکھ چھپن ہزار فٹ 12.10 - جنات کی عمریں 12.11 - سلطان 12.12 - جن مسلمانوں کی تعداد 12.13 - مخلوقات کے چار گروہ 12.14 - حضرت سلیمان ؑ کا لشکر 12.15 - ایک خوبصورت روحانی تمثیل 12.16 - مٹی اور آگ کی تخلیق 12.17 - جنات کے بارہ طبقے 12.18 - انہونی بات 12.19 - جن اور انسان میں عشق 12.20 - واہمہ اور حقیقت 12.21 - نسبت نامہ شاہ عبدالعزیزؒ 12.22 - تعویذ گنڈے سے علاج 12.23 - خوش اخلاق جنات 12.24 - جنات کی سی آئی ڈی 12.25 - جنات کا سول کورٹ 13.00 - فرشتے 13.01 - فر شتوں کی کئی قسمیں ہیں 13.02 - حکم حاکم اعلیٰ: 13.03 - اﷲکا ہاتھ ر سول اﷲ کی پشت پر 13.04 - اﷲ جب پیار کرتا ہے 13.05 - ملائکہ کی قسمیں 13.06 - انسانی روحیں 13.07 - حظیرۃ القدس 13.08 - ملائکہ ٔ اسفل 13.09 - ملائکہ سماوی 13.10 - ملائکہ عنصری 13.11 - کراماً کاتبین 13.12 - بیت المعمور 13.13 - فرشتوں کے گروہ 13.14 - فرشتوں کی صلاحیتیں 13.15 - کائناتی نظام 13.16 - اعمال نامہ 14.00 - لطائف 14.01 - روحِ اعظم 14.02 - کشش بعید۔ کشش قریب 14.03 - چار نورانی نہریں 14.04 - لطائف ستہ 14.05 - نورانی لہروں کا نزول 15.00 - معجزہ، کرامت، استدراج 15.01 - تصرف کی تین قسمیں ہیں 15.02 - سنگریزوں نے کلمہ پڑھا 15.03 - آواز کی فریکوئنسی 15.04 - ریڈیائی اور مقناطیسی لہریں 15.05 - کہکشانی نظاموں کا کمپیوٹر 16.00 - تصوف ،صحابہ کرام ؓؓؓؓاور صحابیات 16.01 - سیدنا ابوبکر صدیق 16.02 - سیدنا فاروقِ اعظم عمر بن خطابؓ 16.03 - سیدنا عثمان ذوالنورینؓ 16.04 - سیدنا علی ابن ِ ابی طالب: 16.05 - ام ّ المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ 16.07 - ام ّ المومنین حضرت عائشہ ؓ: 16.08 - حضرت بی بی فاطمۃ الزھرا ؓ: 16.09 - حضرت انس 16.10 - حضرت سعد بن ابی وقاصؓ 16.11 - حضرت عبداﷲ بن مسعود 16.12 - حضرت اسیدبن حضیرعباد ؓ 16.13 - حضرت جابر 16.14 - حضرت سفینہ 16.15 - حضرت ابوہریرہ ؓ 16.16 - حضرت ربیع بن حراش ؓ 16.17 - حضرت علاء بن حضرمی ؓ 16.18 - حضرت اسامہ بن زیدؓ 16.19 - حضرت سلمان ؓ 17.00 - نماز اورتصوف 17.01 - صلوٰ ۃ کی اہمیت 17.02 - غیب کی دنیا 17.03 - نماز میں خیالات کاہجوم 17.04 - اﷲ کا عرفان 17.05 - روح کا وظیفہ 17.06 - اﷲ کو دیکھنا 18.00 - صوم اورتصوف 18.01 - روزے کا مقصد 18.02 - روزہ ترک کا نظام ہے 18.03 - لیلتہ القدر 19.00 - حج اور تصوف 19.01 - قرآن کریم اور حج 19.02 - ارکان حج کی حکمت 19.03 - اﷲتعالیٰ نے پکارا 19.04 - کنکریاں مارنے کی حکمت 19.05 - شک کا جال 19.06 - سعی کی حکمت 19.07 - آب ِ زم زم 19.08 - طواف کی حکمت 19.07 - مشاہدۂ حق 19.08 - حلق کرانے کی حکمت 19.09 - برقی انٹینا 19.10 - احرام باندھنے کی حکمت 19.11 - مقناطیسی توانائی 20.00 - صوفیاء کاحج 20.01 - حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ 20.02 - شیخ اکبر ابنِ عربی ؒ 20.03 - حضرت بایزیدؒ 20.04 - حضرت عبداﷲ بن مبارک 20.05 - شیخ حضرت یعقوب بصریؒ 20.06 - حضرت ابوا لحسن سراجؒ 20.07 - حضرت عبداﷲ بن صالح 20.08 - حضرت جنید بغدادیؒ 20.09 - حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ 20.10 - حضرت ابراہیم خواصؒ 20.11 - حضرت شیخ ابوالخیر اقطع ؒ : 20.12 - حضرت احمد رضا خان بریلوی 21.00 - سلاسل کی دینی جدّو جہداور نظامِ تربیت 21.01 - دوسو سلاسل 21.02 - سلسلہ قادریہ 21.03 - ابوبکر شبلی 21.04 - امام غزالی 21.05 - جنس کی تبدیلی 21.06 - عورت اور مردکی تخلیق 21.07 - عیسائی اور مسلمان 21.08 - لوح محفوظ پرتبد یلی 21.09 - سلسلہ چشتیہ 21.10 - حضرت معین الدین چشتی اجمیریؒ 21.11 - حضر ت خواجہ ممشا ددینوریؒ 21.12 - سلسلۂ چشتیہ کی خدمات 21.13 - راگ اور سُر 21.14 - اندر کی آنکھ 21.15 - سلسلہ سہروردیہ 21.16 - بہاؤ الدین زکریا ملتانی 21.17 - شیخ الاسلام 21.18 - تبلیغی سرگرمیاں 21.19 - دین پھیلانے والے تاجر 21.20 - حضرت زکریا ملتانی کی فلاحی خدمات 21.21 - سلسلہ نقشبندیہ 21.22 - دل کی نگرانی کرنی چاہۓ 21.23 - اویسی فیض 21.24 - صوفیاءِ کرام کی دینی خدمات 21.25 - سلسلۂ عظیمیہ 21.26 - پہلا مدرسہ 21.27 - تربیت 21.28 - روزگار 21.29 - بیعت 21.30 - مقام ولایت 21.31 - اخلاق 21.32 - کشف وکرامات: 21.33 - تصنیفات 21.34 - سلسلۂ عظیمیہ کی خدمات 21.35 - سائنسی انکشافات 21.36 - دینی جدّو جہد 22.00 - ذکراذکار 22.01 - اسم اعظم 22.02 - گیارہ ہزار حواس 22.03 - چھپا ہوا خزانہ 22.04 - تفکر 22.05 - حضرت عائشہؓ 22.06 - ذاکرین اور فرشتے 22.07 - غازی اور مجاہدین 22.08 - قانون 23.00 - مراقبہ 23.01 - ذہنی مرکزیت 23.02 - عرفان 23.03 - مراقبہ کی تعریف: 23.04 - چراغ کی لو 23.05 - شہود 23.06 - بصارت 23.07 - سماعت 23.08 - شامہ اور لمس 23.09 - حضرت معروف کرخیؒ 23.10 - سیر یا معائنہ 23.11 - مراقبہ کے فوائد 23.12 - مراقبہ کی اقسام 23.13 - ۲۵) مختلف رنگوں کی روشنیوں کے مراقبے: 23.14 - مراقبہ کرنے کے آداب 23.15 - مراقبہ کے لیے بہترین اوقات 23.16 - پرہیز و احتیاط 23.17 - مرتبہ احسان کامراقبہ 23.18 - مراقبہ موت 23.19 - قبرمیں دروازہ 23.20 - فرشتے کہتے ہیں 23.21 - ٹانگوں میں انگارے 23.22 - غیبت 23.23 - یتیموں کا مال 23.24 - ملک الموت اورایک عورت کا مکالمہ 23.25 - مراقبۂ نور 23.26 - ماضی اورحافظہ 23.27 - اسمائے الٰہیہ کا مراقبہ 23.28 - روشنیوں کی اصل 24.00 - عالم ِ اعراف 24.01 - کشف القبور 24.02 - جنت کا باغ 24.03 - جنت کے انگور 24.04 - جنت کا لباس 24.05 - ویڈیوفلم 24.06 - ہاتف غیبی 24.07 - کائنات آواز کی باز گشت ہے 24.08 - آواز میں اسرارو رموز 24.09 - مراقبہ قلب 25.00 - مسلمان سائنسدان 25.01 - قرآن نے بتایا 25.02 - *عبدا لمالک اصمعی 25.03 - جابر بن حیان 25.04 - محمد بن موسیٰ الخوارزمی 25.05 - علی ابن سہیل ربان الطبری 25.06 - یعقوب بن اسحاق الکندی 25.07 - ابوالقاسم عباس بن فرناس 25.08 - ثابت ابن قرۃ 25.09 - ابو بکر محمد بن زکریا الرازی 25.10 - ابو ا لنصر الفا را بی 25.11 - ابو الحسن ا لمسعودی 25.12 - ابنِ سینا 25.13 - شاہ ولی اﷲ 25.14 - باباتاج الدین ناگپوریؒ 25.15 - شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ 25.16 - محی الدین ابن ِ عربیؒ 25.17 - قلندر بابا اولیاء ؒ 25.18 - قرآنی نظریہ 25.19 - یونیورسٹیاں 25.20 - روحانیت کے خلاف سازش 25.21 - ابدی زندگی کا راز 25.22 - آج کاانسان 25.23 - الیکٹران 25.24 - مفکرین اور اقوام عالم 25.25 - تخلیقی فارمولے 25.26 - TOM 25.27 - مادہ اور توانائی 25.28 - نور کے غلاف 25.29 - معین مقداریں 25.30 - ذرات کی تین قسمیں 25.31 - روشنی کا جال 25.32 - مغیباتِ اکوان 25.33 - لہروں کا جال 25.34 - صوفی اور سائنٹسٹ 25.00 - ظاہری علوم اورروحانی علوم 26.01 - علمِ حضوری 26.02 - علمِ حصولی 26.03 - اطلاعات کا علم 26.04 - سائنسی اسکینڈل 26.05 - مفروضہ علوم 26.06 - مادی جیالوجسٹ 26.07 - ہر بیج ایک ڈائی ہے 26.08 - انسانی فطرت 26.09 - روحانی جیالوجسٹ 26.10 - صلاحیتوں کا % 26.11 - پانچ فیصد صلاحیت 27.00 - مادی اور روحانی جسم 27.01 - ارتقاء 27.02 - باطن الوجود۔ ظاہر الوجود 27.03 - پہاڑ اُڑتے ہیں 27.04 - مادہ اور روح ہم رشتہ ہیں 27.05 - زروجواہر 27.06 - انسان بے سکون کیوں ہے؟ 28.00 - وسوسوں سے آزاد دنیا 28.01 - جنت کا دماغ۔ دوزخ کا دماغ 28.02 - تصوف کے اسباق 28.03 - روح ِ حیوانی 28.04 - روح انسانی 28.05 - روحِ اعظم 28.06 - دیکھنے کی طرزیں 28.07 - پانی سے بھرا ہوا گلاس 28.08 - اندھی آنکھ 28.09 - حواس میں اشتراک 28.10 - جذبات کس طرح پیدا ہوتے ہیں 29.00 - نیند اور بیداری 29.01 - روح کے زون 29.02 - روح کی تلاش 29.03 - خواب اور زندگی 30.00 - کائنات کا سفر 30.01 - شعور لاشعور 30.02 - شعور کا پہلا دن 30.03 - ہر جگہ ٹائم اور اسپیس ہے 30.04 - ماضی کی حقیقت 30.05 - وحدت الوجود ․․․وحدت الشہود 30.06 - ہم باہر نہیں دیکھتے 30.07 - نگاہ کی پہلی مرکزیت 30.08 - نظریۂ رنگ ونور 31.00 - زمان اور مکان 31.01 - ہم چلتے ہیں توزمین ہمیں دھکیلتی ہے 31.02 - آدم کا سراپا 31.03 - ایک ہزار سال کا ایک دن 31.04 - ایک رات ۲۳ سال کے برابر 31.05 - DIMENSION 31.06 - پروانہ کی عمر 31.07 - آدمی کی اصل مادہ نہیں ہے 31.08 - علم کی تشریح 31.09 - مزدور چیونٹیاں 31.10 - پرندے میں عقل و شعور 31.11 - معاشرتی جانور 31.12 - جانور روتے ہیں 31.13 - یقین کا پیٹرن 31.14 - یقین کیا ہے ؟ 31.15 - پتھر کی مورتیاں 31.16 - تاروں بھری رات 31.17 - شعور کا آئینہ 31.18 - انسان کے اندر کمپیوٹر 31.19 - کرنٹ اورجان 31.20 - حق الیقین 31.21 - عالمِ امر کا مظاہرہ دیکھ کر حضرت عزیرؑ پکار اٹھے 31.22 - فلم اور سینما 32.00 - انسانی د ماغ 32.01 - Sleep Laboratories 32.02 - وجدانی دماغ 32.03 - سانس زندگی ہے 32.04 - غیب کی دنیا 32.05 - بارہ کھرب خلئے 32.06 - چراغ میں توانائی 33.00 - روحانی سائنس 33.01 - دن کیا ہے۔ رات کیا ہے؟ 33.02 - لامتناہی تفکر 33.03 - کہکشانی نظام 33.04 - ہر پرت الگ الگ ہونے کے باوجود ایک ہے 33.05 - دخان = مثبت کیفیت/ منفی کیفیت 33.06 - خیالات کا قانون 33.07 - انا کی لہریں 33.08 - اندرونی تحریکات 33.09 - حضرت سلیمان ؑ کا محل 33.10 - قرآنی سائنس 33.11 - روحانی حواس 33.12 - عجیب و غریب سرگزشت 33.13 - قبر کے اندر
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)