قطرۂِ بارش
مکمل کتاب : احسان و تصوف
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12235
روحانیت اور تصوف کے بارے میں لوگوں نے بہت کچھ لکھا ہے،ایک گروہ کا خیال ہے کہ اکثر صوفیاء چونکہ اُون کا لباس پہنتے تھے اس لئے لوگ انہیں صوفی کہتے تھے۔ اون کو عربی میں صوف کہتے ہیں۔ وہ لوگ یہ لباس اس لئے پہنتے تھے کہ صوف کا لباس پہننا اکثر نبیوں،ولیوں اور برگزیدہ ہستیوں کا معمول رہا ہے۔بعض حضرات کے خیال میں اصحاب ِ صفہ کے ساتھ نسبت رکھنے کی وجہ سے یہ لوگ صوفی کہلاتے ہیں،جبکہ ایک طبقہ کا خیال ہے کہ صوفی صفاء سے مشتق ہے لیکن ان ساری تشریحات سے دل مطمئن نہیں ہوتا۔
تصوف کے اصطلاحی معانی دراصل’’ نفس کا تزکیہ‘‘ ہے۔تصوف اس جذبہ اخلاص کا نام ہے جو ضمیر سے متعلق ہے اور ضمیر نور باطن ہے۔صوفی اﷲ کی معرفت سوچتا ہے۔اس کی گفتگو کا محور اﷲ ہوتا ہے۔وہ اﷲ کے ساتھ جیتا ہے اور اﷲ کے نام کے ساتھ مرتاہے اسی کا کلمہ پڑھتا ہے اسی کے گن گاتا ہے اور اسی کے عشق میں ڈوبا رہتاہے اﷲ کو دیکھنے اور اﷲ سے ملاقات کے شوق میں اپنا سب کچھ قربان کردیتا ہے۔
مظاہر فطرت،سمندر کی طغیانی اور سکون میں،اپنے آگے پیچھے اوپر نیچے․․․ صوفی کو ہرطرف اﷲ نظر آتا ہے۔
ہر دور میں فلسفی موشگافیاں کرتے رہے،جو فلسفی اﷲ کی ہستی کے قائل ہیں،وہ اﷲ کو صرف کائنات کا صنعتکار قرار دیتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ مخلوق کا اﷲ سے رابطہ قائم نہیں ہوتا۔اﷲ کسی انسان سے ہم کلام نہیں ہوتا۔
تفکر کیا جائے تو سائنسداں اور فلاسفہ کے بیان میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہے۔ سائنس دان کہتا ہے کہ اﷲ اس لئے نظر نہیں آتا کہ اس کی موجودگی دلیل کی محتاج ہے اور انسان کے پاس ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس سے اﷲ کودیکھنا، تسلیم کرلیا جائے۔
سائنس کا عقیدہ ہے کہ کائنات حادثاتی مظاہرہ ہے۔حالانکہ سائنس دان الیکٹرون کو تخلیق کی اکائی مانتا ہے۔جو نظر نہیں آتی اور کبھی نظر نہیں آئی۔سائنس اور فلسفہ کی بنیاد عقل پر ہے جبکہ لاکھوں سال میں عقل کی کوئی حتمی تعریف نہیں ہوسکی۔ سائنس اور فلسفہ کے برعکس مذہب کہتا ہے کہ صحیح عقیدہ کی بنیاد وحی اور الہام ہے اورعقل کاوحی اور الہام میں کوئی دخل نہیں ہے۔
تصوف کے معنی ہیں صوفی ہو نا اور صوفی کا مطلب ہے : ظاہر سے زیادہ باطن کا خیال رکھنے والا۔صوفی وہ ہے جو خود کو تنہا کر کے اﷲ سے متعلق رہے۔اس میں اعلیٰ درجہ کا خلوص اور حقائق کے ادراک کی استعداد ہو۔صوفی کا یقین ہے کہ اﷲ خود اپنا کلام کسی بندے پر نازل کرتا ہے اور انسان اس سے رابطہ میں ہے۔
قرآن پاک میں اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں:
۱) کسی بشر کی قدرت نہیں کہ وہ اﷲ سے ہمکلام ہو۔مگر وحی کے ذریعہ یا پردہ کے پیچھے
سے۔یا کسی قاصد کے ذریعہ۔یا اﷲ جس طرح چاہے۔
(سورۂ شورٰی آیت نمبر ۵۱)
۲) اگر تم پکارو گے تو میں جواب دوں گا۔
۳) تم مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا۔
۴) میں تمہاری رگِ جان سے زیادہ قریب ہوں۔
۵) میں تمہارے اندر ہوں،تم دیکھتے کیوں نہیں؟
۶) اگر تم میری اطاعت کروگے تو میں اس کی جزا دوں گا،اور اگر میری نافرمانی کروگے تو سزا کے
مستحق ہوگے۔
۷) اگر تم مجھ سے محبت کروگے تو میں تم سے محبت کروں گا اور اس محبت سے تمہاری شخصیت میں
میری صفات کا عکس نمایاں ہوجائے گا۔اور میرے قرب سے تم میرا دیدار کرسکوگے۔
جن لوگوں پر عقل کا غلبہ تھا انہوں نے اطاعت کو کافی سمجھا اور جنت کو اپنا مقصد بنالیا۔ لیکن جن لوگوں پر عشق کا غلبہ تھا انہوں نے اطاعت کے علاوہ اﷲ کے ساتھ تعلق اور محبت کو ضروری سمجھا اور اﷲ کے دیدار کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا۔
روحانیت یا ’’تصوف‘‘روحِ انسانی سے واصل ہونے کا جذبہ ہے۔تصوف اپنی انا کا کھوج لگانے کا علم ہے۔
تصوف من کی دنیا میں ڈوب کر سراغ ِ زندگی پا جانے کا نام ہے۔ علم ِروحانیت یہ حقیقت آشکار کرتا ہے کہ ازل میں روح اﷲ کو دیکھ چکی ہے،روحیں اﷲ کی آواز سننے کے بعد ’’ قالوبلٰی‘‘ کہہ کر اس کی ربوبیت کا اقرار کرچکی ہیں۔صوفی کہتا ہے اگر میری روح اﷲ کو نہ جان سکتی تو اﷲ مجھے اپنی ذات سے محبت کا حکم نہ دیتا۔صوفی پر اسرار ورموزکا انکشاف ہو تا ہے۔ صوفی کے اوپر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ روح ایک ایسی ہستی سے محبت کرنا چاہتی ہے جو اس کا خالق ہے اور وہ کائنات میں حسین ترین ہستی ہے۔صوفی کے یقین میں یہ بات راسخ ہوتی ہے کہ اﷲ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ میری روح بھی اس سے محبت کرتی ہے۔
روحانی بندہ اﷲ کی تلاش میں،ارتکازِتوجہ (CONCENTRATION) سے استغراق حاصل کرکے حقیقت الحقیقت سے واقف ہوجاتا ہے۔
دانشور پوچھتے ہیں کہ غیر صوفی کو وہ مشاہدات کیوں نہیں ہوتے جن کا صوفی اعلان کرتاہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان روح سے واصل نہیں ہونا چاہتا۔اور جب اپنی انا یعنی روح سے واقف نہیں ہونا چاہتا تو روح کی حقیقت اس کے لئے پردہ بن جاتی ہے۔
انسان مادی اور دنیاوی علوم کے لئے اپنی ساری توانائی اور مال و دولت خرچ کرتا ہے۔ آدمی میٹرک پاس ہونے کے لئے 35600گھنٹے اور کثیرسرمایہ خرچ کرتا ہے لیکن روح کا عرفان حاصل کرنے کے لئے دن ، رات میں 20منٹ بھی یکسو نہیں ہوتا۔ اﷲ کے پاس جانے کے خیال سے ہی دنیا دار کے اوپر مردنی چھا جاتی ہے جبکہ اﷲ کی ہر نعمت اسے اچھی لگتی ہے۔
ہر فرد و بشر جانتا ہے کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے ۔عام لوگوں کے برعکس اﷲ کے دیدار کے لئے صوفی اس وقت کا شوق سے انتظار کرتا ہے۔
احسان و تصوف کتاب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ بالخصوص امت مسلمہ اوربالعموم نوع انسانی، اپنی پیدائش، حیات وممات اور منصبِ خلافت فی الارض کی حقیقت سے واقف ہو جائے اور یہ بات اس کے علم میں آجائے کہ کائنات میں ہر مخلوق باشعور ہے لیکن انسان واحدبا شعور مخلوق ہے جو یہ جان لیتی ہے کہ اس کو کس نے پیدا کیا ہے ، کیوں پیدا ہوا ، مرنے کے بعد کس دنیا میں چلا جاتا ہے اور اُس دنیا کے شب و روز کیا ہیں ؟
تصوف پر ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ہر کتاب تصویر کا ایک نیا رخ پیش کرتی ہے۔ لوگوں نے تصوف کے او پر بے پناہ اعتراضات کئے ہیں اور تصوف کی فضیلت میں قصیدہ خوانی بھی کی گئی ہے۔ تنقید وتعریف کے انبار میں تصوف کو ایک الجھا ہوا مسئلہ سمجھا جانے لگا۔کوئی کہتا ہے کہ تصوف دنیا بیزار اور کاہل الوجود لوگوں کا مسلک ہے۔ کسی نے کہا۔گدی نشین حضرات کا محبوب مشغلہ ہے اور مریدین سے خدمت لینے کا بہترین ذریعہ ہے۔
کسی نے بتا یا کہ یہ مسمریز م ، ہپنا ٹزم اور عامل معمول کا کھیل ہے ۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ ’’نظریہ تصوّف ‘‘گانے بجانے اور دھمال ڈالنے کا اچھا طریقہ ہے ۔
صاحبِ قلب ونظر افراد نے پر وقار ، پر اعتما د اور سچائی کی عظمت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ قلبی مشاہدات اور روحانی کیفیات کا نام تصوّف ہے۔ صوفی کے دل کی ہر دھڑکن اﷲ کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے۔حضرت خواجہ غریب نوازؒ کہتے ہیں کہ:
’’یار دم بدم و بار بار می آید‘‘
اہلِ عقل و دانش نے فلسفیانہ استدلال، منطق اور عقلی توجیہات سے تصوف کو اس قدر الجھا دیا ہے کہ تصوف ایک علم چیستان بن گیا ہے۔انہوں نے ا س علم کو یہودی، عیسائی، ویدانت اور بدھ ازم کا لباس پہنا دیا ہے۔
قو م کے ہمدرد اور مخلص حضرات و خواتین نے تصوف کے اعلیٰ ذوق کو اختیار کرکے توکل، قناعت، اور استغناء کی روشن مثالیں قائم کی ہیں۔ انہوں نے عملاًاس بات کا مظاہرہ کیا کہ تصوف ایک ایسا راستہ ہے جس پر چل کر انسان دنیا اور دین کی ہر بھلائی حاصل کر لیتا ہے۔
تصوف کے پیروکار راہب نہیں ہوتے ،وہ محنت مزدوری کر کے، حقوق العباد پورے کرتے ہیں اور شب بیدار ہو کر اﷲ کے حضور حاضر ہوتے ہیں۔
میری دانست میں تصوف کی تعریف یہ ہے کہ:
تصوف ایک ایسا School of Thoughtہے جس میں انسان کو انبیاء علیہم السلام کی طرز فکر کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے……انسان تعلیم مکمل کرکے جب ا س اسکول سے نکلتا ہے تو وہ آدم سے ممتاز ہو کر انسان بن جاتاہے۔اور ا سکے اندر خاتم النبییّن صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرز فکرنظر آتی ہے ۔ وہ زندگی کے ہر لمحہ میں اﷲ کوپکارتا ہے اور اﷲکو دیکھنے اور اس سے قریب تر ہونے کی آرزو کرتا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ کے مطابق انسان کی تخلیق کامقصد خود کو پہچان کر اﷲ کا عرفان حاصل کرنا ہے۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنی اصل یعنی روح سے واقف ہونے کی توفیق دے۔ (آمین)
آئیے! جدّوجہد کریں کہ ہمیں اﷲ کا قرب نصیب ہوجائے اور ہم سب اس طرح اﷲ سے قریب ہوجائیں جس طرح اﷲ چاہتا ہے۔
خانوادہ سلسلۂ عظیمیہ
۱۲ ربیع الاول ۱۴۲۴ھ
مرکزی مراقبہ ہال
سرجانی ٹاؤن ،کراچی
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 0.27 تا 0.31
احسان و تصوف کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔